میک اپ اور پردہ، نسوانیت کے متضاد یا لازم جزو؟ قسط نمبر 11


میں سیدہ نفیس صفدر رضوی ہوں۔ مگر مسز سید صفدر رضوی نہیں۔ ہمیشہ کئی جگہ لوگ باگ یہی گڑبڑ کرتے ہیں کہ جب میں شادی شدہ ہوں تو صفدر میرے شوہر کا نام ہوگا۔ مگر یہ میرے والد کا نام ہے۔ مگر لوگ مجھے میڈم نفیس کے نام سے جانتے ہیں، میرے نام سے، نہ میرے والد کے نام سے، نہ میرے شوہر کے نام سے۔

میں ایک گورنمنٹ کالج میں زولوجی کی لیکچرر ہوں۔ تعلیم ایم فل تک ہے۔ اور آگے پڑھنے کے شوق نے اس عمر تک پیچھا نہیں چھوڑا جب اولاد جوان ہو رہی ہے۔ اسی لیے پی ایچ ڈی کے لیے آسٹریلیا میں اپلائی کیا تھا۔ اور اب چند ہی دنوں میں، میں مستقل تو نہیں، مگر ایک لمبے عرصے کے لئے پاکستان سے چلی جاؤں گی۔

میری شخصیت خواتین میں کافی متنازعہ ہے۔ عموماً خواتین میرے منہ پہ میری گرویدہ ہونے کے دعوے کرتی ہیں مگر میری پیٹھ پیچھے انہیں میرے طور اطوار ہضم نہیں ہوتے۔ سب سے پہلے انہیں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب میں سید ہوں تو پردہ کیوں نہیں کرتی؟ جبکہ میرا لباس شرعی پردے کی تمام حدود کو پورا کرتا ہے۔ دوسرا اعتراض پہلے اعتراض کے حوالے سے دیکھا جائے تو مضحکہ خیز ہے وہ یہ کہ جب میں عورت ہوں تو میک اپ کیوں نہیں کرتی؟

زیور کیوں نہیں پہنتی؟ انہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ میں انسان ہوں۔ بھلے عورت ہوں مگر کوئی آرائشی ”چیز“ نہیں۔ جسے اس لیے سجنا پڑے کے دوسرے دیکھیں تو تعریف کریں۔ یا میرے اسٹیٹس کا اندازہ لگا سکیں۔ کیوں؟ اگر کسی کو لگے گا کہ میں خوبصورت ہوں یا میرے پاس بہت پیسے ہیں تو وہ مجھے دو زیادہ روٹیاں دے گا کھانے کو؟ چلیں فضول بحث کو ایک طرف کرتے ہیں میں اپنی کہانی سنانے جارہی تھی۔

میرا تعلق ایک روایتی سید گھرانے سے ہے جہاں خواتین اور پردہ لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ اور ان کے لیے پردے کا مطلب ہے کہ خواتین مکمل طور پہ اپنی زندگی کے لیے دوسروں پہ انحصار کریں۔ احترام کے نام پہ ہم سید خواتین دوسری ذات کی خواتین کی بے دھڑک بے عزتی کرتی ہیں انہیں خود سے کمتر سمجھتی ہیں۔ نجیب الطرفین سید ہونے کی وجہ سے شادی بھی سادات میں ہی ہوتی ہے اور یہ اصول صرف لڑکی کے لیے ہے۔ بہرحال دس سال کی عمر تک میں نے گھر سے باہر کی دنیا دیکھی ہی نہیں تھی۔

اس کے بعد بھی باہر کی دنیا تو کیا دیکھتی ایک گھر کی دہلیز کے بعد اگلی چیز اگلے گھر کی دہلیز دیکھی۔ یہ وہی اگلا گھر ہے جس کے ڈراوے خواتین اپنی بیٹیوں کو دیتی ہیں کہ اگلے گھر جاؤ گی تو کیا کرو گی۔ یعنی سسرال۔ جی دس سال کی عمر میں میرا نکاح کر دیا گیا تھا۔ یہاں سے میری زندگی میں انقلاب آیا۔ میری شادی میرے ایک کزن سے کی گئی تھی جو کہ مجھ سے عمر میں 15 سال بڑے تھے۔ یعنی اس وقت 25 سال کے تھے۔ سید محمد متقی جیسا مرد میں نے آج تک نہیں دیکھا۔

نکاح کے بعد پہلی ملاقات میں انہوں نے مجھے کتابیں لا کر دیں۔ گھر والوں کو شرط بتا دی کہ رخصتی، کم از کم میرے آٹھویں پاس کرنے کے بعد ہوگی۔ بڑی لے دے ہوئی اس فیصلے پر مگر وہ خاندان کے گدی نشین کے بیٹے تھے۔ تو کسی اور کا اثر و رسوخ چل ہی نہیں پایا۔ والد صاحب پچھتاتے کہ لڑکی کو جلد سے جلد رخصت کرنے کا ارادہ تھا اور اب پختہ عمر تک گھر ہی بٹھانا پڑے گا۔ پانچویں تک کی تعلیم میں نے دو سال میں ہی گھر میں مکمل کرلی پہلی بار کتاب ہاتھ میں لے کر مجھے احساس ہوا کہ یہی میرا پہلا عشق ہے۔

اس سے پہلے تک میں ایک دیہی علاقے کی عام سی لڑکی تھی۔ کتاب کی دنیا میرے لیے جادو نگری تھی۔ میری اصل دنیا سے کہیں زیادہ الگ اور زیادہ منطقی۔ میں جتنا پڑھتی جارہی تھی مجھے احساس ہوتا جا رہا تھا کہ کتاب کی باتیں دراصل زندگی سے بہت مختلف ضرور ہیں مگر ان کی مدد سے زندگی مزید آسان ہی ہوتی ہے مشکل نہیں۔ میرے آٹھویں پاس کرتے ہی دوبارہ میری رخصتی کی بات نکالی گئی۔ مگر میں نے متقی کو خط لکھ کر درخواست کی کہ میں مزید پڑھنا چاہتی ہوں۔

مجھے نہیں پتا کہ انہوں نے کیسے سب سنبھالا مگر معاملہ مزید میرے پرائیویٹ انٹر کرنے تک ٹل گیا۔ اب کے متقی نے مجھے پہلی بار اکیلے میں بلایا۔ میں نے پہلی بار ایک بالغ لڑکی کی نظر سے انہیں دیکھا۔ تینتیس سال کے مضبوط مرد جو دیکھنے میں کوئی لحیم شحیم نہیں تھے نہ ہی مردانہ وجاہت کا کوئی اعلٰی پیکر تھے مگر ان کی شخصیت کے اعتماد، ذہانت اور رعب نے مجھے پہلی بار میں متاثر کیا۔ انہوں نے مجھے ملاقات کی وجہ بتائی جسے سن کر میں ششدر رہ گئی۔

بقول ان کے جس عمر میں ان کا اور میرا نکاح ہوا اس وقت ایک بچے کو یہ تک نہیں پتا ہوتا کہ بھائی اور شوہر میں فرق کیا ہوتا ہے۔ شرعی اعتبار سے ولی کی رضامندی ایک ضروری عنصر ہے مگر نکاح کی جائز ہونے میں سب سے اہم فریقین کی رضامندی ہے۔ دس سال کی ایک بچی منطقی طور پہ شادی کی تمام ذمہ داریوں کو سمجھ ہی نہیں سکتی۔ اور ان کے مطابق وہ کوئی ناجائز رشتہ نہیں بنانا چاہتے تھے جس میں دوسرے فریق کو اس کی لا علمی کی بنیاد پہ شامل کیا گیا ہو۔

”آپ کو شاید اندازہ نہ ہو کہ مجھ پہ اس عرصے میں کتنا دباؤ تھا مگر میں کسی لڑکی پہ یہ ظلم کر کے خود کو گناہ گار نہیں کر سکتا تھا کہ اسے اس کی رائے کے استعمال کا مکمل حق دیے بغیر ازدواجی رشتہ نبھانے کے لیے مجبور کروں۔ یہ واضح طور پہ گناہ ہے۔ آپ اب ناصرف بالغ ہیں بلکہ تعلیم یافتہ ہیں۔ اگر آپ اس رشتے کو جاری رکھنا چاہتی ہیں تو بھی یہ آپ کی مرضی کے مطابق ہوگا اور اگر نہیں رکھنا چاہتیں تو یہ آپ کا شرعی حق ہے کوئی کسی بھی قسم کے اخلاقی طعنوں کی آڑ میں آپ سے یہ حق نہیں چھین سکتا۔“

متقی نے یہ کہہ کر اپنی بات کا اختتام کر دیا۔ میں انہیں ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میں نے کوئی خلائی مخلوق دیکھ لی ہو۔ آپ کو اگر میرے اردگرد کے ماحول کا اندازہ ہو تو آپ کو بھی یقیناً احساس ہوگیا ہوگا کہ ہمارے لیے خلائی مخلوق کا آنا اتنا ناممکن نہیں جتنا ایسی سوچ کے حامل ایک مرد کا وجود۔ ایسے مرد کی ہمراہی کوئی بالکل بے دماغ عورت ہی شاید رد کرے۔ تو میں نے بھی وہی کیا جو ایک باشعور لڑکی کو کرنا چاہیے۔ کچھ ہی دن بعد میری باقاعدہ رخصتی ہوگئی ورنہ سسرال کے گھر میں میرا آنا صرف تقاریب کی حد تک تھا۔

پہلی رات متقی کمرے میں آئے تو میرا دل ایک عام سی لڑکی کی طرح ہی شدید دھڑک رہا تھا۔ مگر ان کے بات شروع کرنے کے بعد ایک دم بہت پرسکون ہوگئی۔ ان کی بات چیت اور رویہ بہت دوستانہ تھا۔ عمومی سی بات چیت ہوئی اور ہم سو گئے نہ انہوں نے کوئی پیش قدمی کی نہ مجھے یہ عجیب لگا۔ میں نے کئی بار سوچا اور مجھے عجیب یہ لگتا کہ انتہائی شدید عقیدت کے باوجود مجھے ان میں ایک شوہر کے حوالے سے کشش محسوس نہیں ہوئی۔ ان سے مشورہ کر کے میں نے دوبارہ فرسٹ ائر سائنس میں ایڈمیشن لے لیا۔ ہم گھنٹوں سائنس اور فلسفے پہ گفتگو کرتے مگر اس کے بعد بس۔ وقت گزرتا گیا گھر میں سوال اٹھنے لگے کہ اب تک کوئی خوش خبری کیوں نہیں ہے۔ متقی نے بہت خاموشی سے انتظام کیا اور ہم شہر میں شفٹ ہو گئے۔ انٹر کے بعد میں نے بی ایس سی زولوجی میں ایڈمیشن لے لیا۔

ایک دن رات کھانے کے بعد انہوں نے مجھے سٹنگ روم میں ہی روک لیا کہ کوئی اہم بات کرنی ہے۔

”نفیس ہماری شادی کو تین سال ہونے والے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ آج ہم اس موضوع پہ بات کر لیں تو بہتر ہے۔“

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےمیاں بیوی کی بات چیت بھی معیوب، دیور بھابھی کا فحش مذاق بھی جائز؟” اپنے حق میں بولنا نہ آئے تو ہر کوئی بے عزتی کرتا ہے“ قسط نمبر 12

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments