وہ عید جب پاک فضائیہ نے پہلا بھارتی طیارہ گرایا


پاک فضائیہ کی سرکاری تاریخ 1947۔ 1984 (اردو ایڈیشن) جو ائر مارشل انور شمیم کے زمانے میں شائع ہوئی اس واقعہ کا ذکر صفحہ نمبر 138 سے 142 تک ملتا ہے۔ اس کتاب میں جو اہم نکات ہیں وہ بھارت کے سرکاری سچ کو رد کرنے کیلے کافی ہیں جس طرح دی پرنٹ کے مضمون میں جان بوجھ کر اس جگہ کا ذکر نہیں کیا گیا جہاں بھارتی طیارہ مار گرایا گیا۔ پاک فضائیہ کی تاریخ میں اس مقام کی نشاندہی کی گئی ہے یہ مقام راولپنڈی کے نواح میں واقع روات کا علاقہ ہے جو ظاہر ہے پاکستان میں بہت اندر موجود ہے۔

دی پرنٹ کی تحریر میں گجرات کا تاثر اس لیے بھی دیا گیا کہ پڑھنے والا یہ سوچے گا کہ شمالی پنجاب کا علاقہ گجرات تو سرحد کے ساتھ ہے وہاں اس قسم کی خلاف ورزی کا چانس تو ہے۔ مگر یہ چانس راولپنڈی تک تو نہیں ہو سکتا، پاک فضائیہ کی سرکاری تاریخ میں محمد یونس کے جہاز کا سیریل نمبر بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس جہاز نے بعد میں 1965 اور 1971 کی جنگ میں بھی حصہ لیا۔

پاک فضائیہ کی تاریخ کے اس باب کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ میں صفحہ نمبر 134 کے دوسرا پیراگراف کی دسویں لائن میں متعدد کینبرا جاسوس طیاروں کی خلاف ورزیوں کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح کینبرا پاکستان کے نو تعمیر شدہ اسلحہ فیکٹری اور چھاؤنیوں کی تصویر لینے کے مشن پر آتے رہتے لیکن کیوں کہ وہ پاکستان کے کسی بھی لڑا کا طیارے کی پہنچ سے دور ہوتے تو با آسانی واپس چلے جاتے۔

سرکاری دستاویز میں قصہ یوں بیان کیا گیا ”دس اپریل کو جیسے ہی بھارتی فضائیہ کا ایک کینبرا پاکستان کی حدود میں داخل ہوا تو ہمارے فضائی دفاع کے نظام نے مزاحمت کا حکم دے دیا۔ پشاور سے دو سیبر اڑے۔ زمین سے کنٹرول کی جانے والی یہ کارروائی خوش اسلوبی سے مکمل کی گئی۔ ابتداء میں ایم این بٹ نے کوشش کی تھی مگر جہاز ٹارگٹ ان کی رینج سے بہت اوپر تھا جب فلائٹ لیفٹیننٹ یونس آگے آئے تو کینبرا راولپنڈی کے اوپر رخ تبدیل کرتے ہوئے دفعتاً کم بلندی پر آ گیا تھا۔

ہمیشہ مستعد رہنے والے فلائٹ لیفٹیننٹ (اب ائر کموڈور یعنی کتاب کے شائع ہونے کے وقت) نے سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنی توپوں کا رخ کینبرا کی طرف پھیر دیا بھارتی طیارہ کی کینوپی کی پشت پر ضرب لگنے کے بعد شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ ہوا باز سین گپتا کو جنہیں ایجکٹ کرنا پڑا حراست میں لے لیا گیا۔ ان کو معمولی چوٹیں آئیں۔

اسکواڈرن لیڈر گپتا کو بلا تاخیر بھارت بھیج دیا گیا۔ فضائی حدود کی خلاف ورزی کا یہ واقعہ تاریخی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ بھارتی فضائیہ کے خلاف پاک فضائیہ کی پہلی کامیابی تھی۔ ایک کامیاب مزاحمت پوری فضائیہ کی مجموعی کارکردگی کا مظہر ہوتی ہے جس میں ریڈار مواصلاتی نظام طیارے کو قابل پرواز رکھنے والا عملہ اور ہواباز سب شامل ہوتے ہیں اس واقعے سے بھارت کے عزائم کا عملی ثبوت مل گیا۔ دراصل جاسوسی کے ذریعے حاصل کردہ اطلاعات کی بنیاد پر اپنی منصوبہ بندی کر کے پاکستان سے جنگ کی تیاری کر رہا تھا ”اس سرکاری دستا ویز میں صفحہ نمبر ایک سو چالیس پر اس یادگار کی عبارت کی تصویر بھی دی گئی ہے کچھ اس طرح لکھی ہے۔

AIRCRAFT TO MAKE HISTORY FIRST P.A.F

On 10th April 1959 (Eid Day) at 8:30 A.M. F-86 Saber Aicraft no 55-005 of number 15 squadron P.A.F piloted by flying officer Younis, shot down an intruding Indian Air Force Canbbera bomber at 47500 feet over Rawat near Rawalpindi.

Later this Aircraft made history while taking part in Dir Bajor Operations, 1965 Indo-Pak War and 1971 Indo-Pak War. in all the airccraft flew over 100 operational missions.

پاک فضائیہ کے کراچی میوزیم کے دروازے پر لگا محمد یونس کا تاریخی سیبر سیریل نمبر 55۔ 5005

پاک فضائیہ کے کراچی میوزیم میں آنے والے محب وطنوں کو خوش آمدید کرتا ہوا دعوت ذوق تاریخ دیتا ہے اور بتا تا ہے کہ کس طرح مشکل حالات میں پاک فضائیہ نے پاکستانی قوم کا مان سب سے اوپر سب سے آگے رکھا۔

سرد جنگ میں یہ فضائی جاسوسی کی پروازیں ایک پورا تاثر بناتی تھیں، اس زمانے میں سیٹلائٹ کے ذریعے جاسوسی کا کوئی تصور نہیں تھا ریموٹ کنٹرول جہازوں کی سائنس بھی ابھی ابتدائی اسٹیج پر تھی ڈرون تو بہت بعد میں آئے. پاکستان کیونکہ امریکہ کا اتحادی تھا اور تاریخ میں پشاور سے یو ٹو جاسوس طیارے کی ماسکو پرواز کا ذکر ملتا جس کے رد عمل میں روسی راہنماؤں نے پاکستان کے شہر پشاور پر سرخ دائرہ لگا کر جنگ کی دھمکی پاکستان کو بھجوائی تھی. جب کوئی بھی ملک جاسوس طیاروں کو ایک مداخلت تصور کرتا تھا تو بھارت کا جہاز بھیجنا یہ کہنا معصومانہ شرارت نہیں بلکہ عیاری ہے کہ جہاز راستہ بھٹک گیا۔ میرے خیال میں بھارتی موقف میں ایک کمزوری یہ بھی ہے اگر جہاز راستہ بھٹک کر ہی آیا تھا تو یہ اتفاق پھر دوبارہ کیوں نہیں ہوا، ظاہر ہے ایک جہاز کھونے کے بعد دوبارہ اتنا مہنگا اتفاق بھارت کیوں بار بار بر داشت کرتا۔

پھر کیا بھارتی کینبرا طیارہ جیسا کہ اس وقت کے بھارتی رکشا منتری کرشنا مینن کے مطابق راستہ بھٹک گیا تو گیا تو مزید سوال اٹھتے ہیں کہ بھارت کا زمینی اسٹاف جس میں ائر ٹریفک کنٹرولر اور ریڈار آبزرور شامل ہوتے ہیں کیا خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ جس جیسا عید کا دن تھا تو وہ اس طیارے کو پرواز پر بھیج کر عید منانے چلے گئے تھے اور کینبرا طیارہ جو ڈیزائن ہی جاسوسی اور بمباری کے لیے ہوا تھا کیا اس میں کوئی ایسا ایکوپمنٹ نہیں تھا جو بھٹکتے طیارے کو راستہ درست کرتا۔

پھر نیوی گیٹر رام پال کا کردار جو جہاز میں موجود تھا اور رام پال کا سروس ریکارڈ یہ بتاتا ہے ( جو بھارت رکشک ڈاٹ کام پر موجود ہے ) رام پال نے 1952 میں بھارتی ائر فورس میں کمیشن حاصل کیا، 1953 میں فلائنگ افسر بنے، کیا انہوں نے ٹریننگ کے بغیر نیوی گیٹر کا بیج حاصل کیا تھا؟ یقیناً نہیں ایک پیشہ ور نیوی گیٹر تھے۔ پھر دی پرنٹ میں اس مقام کا بھی کوئی ذکر نہیں جہاں سے کینبرا نے پرواز بھری یہ مقام مشہور تاریخی شہر آگرہ ریاست یوپی میں ہے اور یہاں بمبار ونگ کا ہیڈ کواٹر بھی ہے۔

گوگل بک کا لنک میری اس بات کی تصدیق کرے گا جس میں آگرہ کی نشاندہی کی گئی ہے تو بات وہی جس کا ذکر ابتدا میں کیا ہمارے ہمسائے نے دس اپریل 1959 کو عید کے دن ہمیں جاسوس طیارہ بھیج کر یہ ثبوت دیا کے جاگتے رہنا، اور ہماری فضائیہ نے اس کو جواب دیا کہ یاد دہانی کا جب یہی طریقہ کار ہوگا تو جواب کس طرح دینا ہے ہم خود طے کریں گے۔

ریفرنسز اور لنکس

لنک نمبر ایک
https://theprint.in/defence/untold-story-of-an-iaf-canberra-its-crew-60-years-before-wing-commander-abhinandans-mig/227141/

لنک نمبر دو
سروس ریکارڈ اسکواڈرن لیڈر سین گپتا ( ریٹائرڈ بحیثیت گروپ کیپٹن)
http://www.bharat-rakshak.com/IAF/Database/3657

لنک نمبر تین
سروس ریکارڈر فلائٹ لیفٹیننٹ رامپال ( ریٹائرڈ بحیثیت ونگ کمانڈر)
http://www.bharat-rakshak.com/IAF/Database/4218

گوگل بک لنک
https://books.google.com.pk/books?id=1EEqAQAAMAAJ&pg=PA52-IA3&lpg=PA52-IA3&dq=Sqn+Ldr+sen+gupta+pilot&source=bl&ots=c8du_HcGhE&sig=ACfU3U0OGknoUatzhzJYxgRyM3IRXlS3uQ&hl=en&sa=X&ved=2ahUKEwjMtv-a-t3oAhUI8BoKHY1mDQQQ6AEwBHoECAsQJg


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments