خواب میں ایک عظیم ہستی کی زیارت!


\"muhammadہمارا شمار ان نیک و پرہیزگار انسانوں میں نہیں ہوتا جنہیں خواب میں برگزیدہ ہستیوں کی زیارت اکثر و بیشتر ہوتی رہتی ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ہمیشہ یہ ہی سمجھا کہ ہم جیسا شرارتی ، پھڈے باز، گناہ گار انسان کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ لہذا کبھی دل میں اس خواہش نے انگڑائی نہ لی کہ کوئی اہم ہستی ہمارے خواب میں آئے۔ مگر ہمارا یہ خیالِ خود شناسی غلط ثابت ہوا جب کل رات ہمیں خواب میں نہ صرف اس ملک کی بلکہ دنیا کی ایک عظیم شخصیت کی زیارت ہوئی۔ ان کی عظمت کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک شخص سر بازار یہ دھمکی دے رہا ہے کہ اگر انہوں نے مدتِ ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں نہ کیا تو وہ اپنے جسم کو پٹرول میں غرق کر کے خود کو آگ لگا لے گا۔ چوبیس تو کیا اڑتالیس گھنٹے ہو چکے ہے۔ مگر ہمارے کسی پرائیویٹ چینل نے ابھی تک کوئی بھی بریکنگ نیوز اس شخص کی خود سوزی کے حوالے سے شائع نہیں کی۔ شنید ہے کہ کچھ اینکر حضرات تو پٹرول کے کنستر اور ماچسوں کے کارٹن اس ’مردِ مومن‘ کے گھر لے کر گئے تھے کہ بھائی مسلمان اپنی زبان سے نہیں پھرتا۔ یہ لو پٹرول یہ لو ماچس۔ کیمرہ آن ہے۔ نیک کام میں دیر کیسی مگر یہ صاحب بھی ان کے باپ نکلے۔ گھر کے پچھواڑے سے نکل گئے اور پٹرول اور ماچسیں بشیر پہلوان کو بیچ کر پیسے کھرے کرگئے۔

جی صاحب۔ ہمیں خواب میں زیارت ہوئی ہمارے ہر دلعزیز جنرل صاحب کی۔ کیونکہ ہم ایک انتہائی گناہ گار انسان ہیں لہذا ہمیں یقین ہی نہیں آیا کہ یہ صاحب وہی جنرل صاحب ہیں جن کا شکریہ قوم کا بچہ بچہ سوشل میڈیا پر کر رہا ہے۔ مگر زیارت یونیفارم میں ہوئی تھی اس لئے شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ چونکہ ہم بنیادی طور پر صحافی ہیں اس لئے صبر نہ کر سکے۔ بجائے اس کے کہ جنرل صاحب سے حال احوال پوچھتے ، چائے کافی پیش کرتے، سیدھا ایک سوال داغ دیا کہ انہوں نے کیوں قوم کے ارمانوں کا خون کر دیا یہ اعلان کر کے کہ وہ وقت پر ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ جواب دینے سے پہلے انہوں نے یہ فرمایا کہ میاں میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ تم ایک نمبر کے بھانڈ میراثی ہو۔ اور میرا چیزہ لینا چاہتے ہو۔ جواب تو میں تمہیں دے دوں پر تمہیںان وجوہات کو جن کی بنا پر میں نے یہ اعلان کیا انتہائی سنجیدگی اور متانت سے بیان کرنا ہے ۔ خبردار میرے جوابات کو اگر طنز میں پیش کیا تو تمہاری خیر نہیں۔ اور ہاں کوئی سیلفی بنانے کی اجازت بھی نہیں دونگا۔ ’وہ کیوں جی؟‘ ہم نے پوچھا۔ ’گو کہ تم ایک نمبر کے میراثی اور بھانڈ ہو مگر اس معاملے میں ایک اور شخص تمہارا بھی استاد ہے اور ایک ’زندہ اور جاوید‘ مثال ہے۔ سیلفی والا چھچھورپن صرف اسی کی میراث ہے۔ تم صرف ایک اتائی ہو اس معاملے میں لہذا نو سیلفی، اپنا فون ادھر حوالے کرو ۔ ہمیں اپنا فون دینا ہی پڑا۔جنرل صاحب بڑے ہوشیار نکلے۔ اس کی بیٹری نکالی تا کہ یہ اطمینان ہو جاوے کہ کہیں یہ باتیں ریکارڈ تو نہیں ہو رہیں۔ اور پھر اطمینان سے باتیں کرنے لگے۔ انہوں نے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ یہ کالم ان تمام باتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ صرف چیدہ چیدہ باتیں رقم کی جا رہی ہیں جو کہ نصیحت ہیں اس معاشرے کے لئے۔

’کوئی بھی جنرل ہو وہ صرف ایک پیشہ ور سپاہی ہوتا ہے۔ خوشامد ہر انسان کو تباہ کرتی ہے۔ جنرل بھی انسان ہی ہوتا ہے۔ چاپلوسی اسے بھی خراب کر دیتی ہے۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ ، جنرل مشرف اور جنرل کیانی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان لوگوں کو ایک مخصوص ٹولے نے خراب کیا جن کا تاریخی ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ یہ جوتے چمکانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ یہ ٹولہ ہر دور میں سیاستدانوں، صحافیوں (آج کے دور کے حساب سے اینکر اور اینکرنیاں بھی شامل کر لیں)مولویوں اور سرکاری افسروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ میں نے ابھی چارج سنبھالا ہی تھا اور میں آرمی چیف کی کرسی پر ٹھیک سے بیٹھ بھی نہیں پایا تھا کہ اس ٹولے نے چاپلوسی کے راگ، ٹھمریاں، دادرے ، غزلیں اور نغمے شروع کر دیے۔ ارے بھئی میں نے ضربِ عضب شروع کر کے قوم پر کوئی احسان نہیں کیا، صرف اپنا فرض ادا کیا۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا اور انہی حالات سے دوچار ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔ اور پھر تمہاری برادری (بھانڈ نہیں، صحافیوں، اینکر اور اینکرنیوںکی طرف اشارہ تھا)کے چاپلوس شروع ہو گئے ۔ میرے تسموں سے لپٹ گئے۔ میرے جوتوں کو اپنی زبان سے پالش کرنے لگ گئے کہ جنرل صاحب مارشل لاءلگا دیجئے۔ میں نے انہیں لات مار کے پرے کیا۔ اس کام کے لئے تو میرے کتے ہی کافی تھے۔ وہ تو میرے جوتے اس وقت بھی چاٹتے تھے جب میں سیکنڈ لفٹین تھا اور میرے یہی وفادار کتے اس وقت بھی چاٹیں گے جب میں ریٹائرڈ ہو کر گوشہ گمنامی کی نذر ہو جاﺅں گا۔ تو بیٹا (مجھے بیٹا بیٹا ہی کہہ کر مخاطب کیا خواب میں) کتوں سے زیادہ وفادار چاپلوس کوئی نہیں ہوتا۔ کتا بنا لالچ اور مقصد کے چاپلوسی کرتا ہے۔ دم ہلاتا ہے۔ تلوے چاٹتا ہے۔ پیروں سے لپٹتا ہے۔تمہاری برادری کے کسی ممبر کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ کتے کی طرح تلوے چاٹتا ہے کتے کی توہین ہے۔ ‘جنرل صاحب نے فرمایا اور میں لاجواب ہو گیا۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا اپنی برادری کے دفاع میں۔

’یہ اعلان کبھی نہ کرتا۔ ضرورت ہی نہ پڑتی مگر چاپلوس باز ہی نہیں آئے اپنی اوچھی حرکتوں سے۔ میں نہیں جانتا کیا کہ خوشامد اور چاپلوسی کیسا زہر ہے۔ بھلا ہو اپنے سرسید احمد خان صاحب کا۔ کیا خوبصورت مضمون لکھ گئے خوشامد کے نقصانات پر۔ کاکول میں پڑھا تھا اور پلے باندھ لیا کہ خوشامد اور خوشامدیوں سے دور رہوں گا۔ ان کے جال میں نہیں آنے کا اور ان کو ان کی اوقات میں ہی رکھوں گا۔ اور یہ بھی معلوم تھا کہ جتنا مرضی یاد دلاتا رہوں ان کو ان کی اوقات شرم ان کو مگر آوے گی نہیں!‘

جنرل صاحب کا چہرہ یہ بات کرتے ہوئے سرخ ہو گیا۔ معلوم اب ہوا کہ انہیں کتنی نفرت ہے خوشامد سے۔ یہ بات جان کر ان کی عزت دل میں اور بڑھ گئی۔ کوسا اپنے آپ کو۔ لعنت بھیجی دل ہی دل میں صحافت پر اور ملال ہواکہ پاک فوج میں کیوں نہ شمولیت کی۔ آج کم از کم بریگیڈئر رینک پر ہوتا اور جنرل صاحب کا دایاں ہاتھ ہوتا ۔ کیا معلوم چند برسوں میں جنرل صاحب کی جگہ ہی ہوتا اور اپنی برادری کے حاسدین کو ( جو کہ میری شہرت اور کامیابی سے جلتے ہیں ) ان کی اوقات ایسے ہی یاد دلا رہا ہوتا جیسے جنرل صاحب یاد دلا رہے ہیں۔

’پھر تاجروں نے مولویوں نے سیاستدانوں نے سرِ عام مہم چلا دی کہ جی extensionلیں۔ ارے بھائی کیوں لیں۔ چالیس سال کر لی نوکری۔ میرے extensionلینے سے کیا اس قبیلے کو عقل آ جائے گی؟ کیا یہ چاپلوسی چھوڑ کر کوئی قابلِ عزت پیشہ اختیار کر لیں گے۔ یہ میرے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو یہ آج کل جنرل مشرف اور جنرل کیانی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ میرے خاندان میں دو شہید نشانِ حیدر سے نوازے گئے ہیں۔ ان بازاریوں کی سمجھ میں یہ بات کہاں آ سکتی ہے۔ اسی لیے اعلان کیا کہ وقت پر ریٹائرڈ ہونا چاہتا ہوں۔ اور یہ بھی یاد رکھوں یہ چاپلوس اس وقت تک میرے جوتے کی نوک پر رہیں گے جب تک میں ریٹائرڈنہیں ہو جاتا۔ دیکھ لیں اس گدھے کو جو چوبیس گھنٹوں میں اپنے آپ کو نذرِ آتش کرنے جا رہا تھا۔ یہ شخص آپ ہی کی برادری نے پلانٹ کیا تھا اور اس نے آپ ہی کو تھوک لگا دیا۔ پٹرول بیچ کر رفو چکر ہو گیا۔ اتنی سی اوقات ہے ایسے درباریوں کی۔ اور یہ بھی دیکھ لینا کہ یہ سیاستدان، صحافی، تجزیہ کار، اینکر اور اینکرنیاں ، مولوی اور تاجر اسی چاپلوسی کا جال نئے آرمی چیف پر بھی پھینکیں گے۔ اگر سمجھدار ہوا تو دامن بچا لے گا ورنہ وہی حشر ہو گا جو مشرف، کیانی اور ایوب کا ہوا۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ تم نیند انجوئے کرو۔ بائے بائے!‘

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments