سیکولرو! اچھا تو تمہاری بہن کو ڈیٹ کرنے کی اجازت ہے؟


اچھا تو تم ہمیں کافر کرنا چاہتے ہو! تم چاہتے ہو کہ ہم اسلام چھوڑ کر سیکولر اور لبرل ہو جائیں۔ ہم مسجد کی بجائے کلب یا شراب خانے جایا کریں، ہماری عورتیں تھوڑے تھوڑے کپڑے پہنے پھریں اور ہم بے غیرت ہو جائیں۔ تم آخر کیوں ہم سب کی آخرت خراب کرنے پر تلے ہوئے ہو۔ اور ہاں میں یہ بھی آپ کو بتا دوں کہ تمہیں کامیابی نہیں ہونے والی، انشاللہ۔ تم ہمارے پاکستان کو کافرستان نہیں بنا سکتے۔ ہم نے پاکستان اس لئے بنایا تھا کہ یہاں اسلام نافذ کریں گے۔ خدانخواستہ یہاں کفر ہی نافذ کرنا رہ گیا ہے کیا؟ اگر کفر کا نفاذ ہی کرنا تھا تو قائداعظم کو اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

بھائی صاحب میں نے کتنی دفعہ کہا ہے کہ آپ کا سیکولر سوچ کا حامی ہونے کے لئے کافر یا ملحد ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایک مسلمان، ہندو، عیسائی یا کوئی بھی مذہبی آدمی سیکولر سوچ رکھ سکتا ہے۔ کیونکہ سیکولر سوچ آپ کو مذہبی ہونے سے قطعاً نہیں روکتی۔ سیکولر شخص تو مذہبی آزادی کا قائل ہوتا ہے۔

سیکولر نظام مذہبی ہونے سے قطعاً منع نہیں کرتا۔ بلکہ سیکولر نظام تو آپ کے مذہب اور نظریات کو تحفظ دیتا ہے۔ آپ کا جتنا جی چاہے مذہبی ہوں، عبادات میں مشغول رہیں، مذہبی تنظیمیں بنائیں، اپنے مذہبی اجتماح کریں اور اپنے مذہب کی کھلم کھلا تبلیغ کریں آپ کو کوئی منع نہیں کرے گا کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ نہ صرف یہ بلکہ آئین اور قانون بھی آپ کی ان تمام سرگرمیوں کو تحفظ دیں گے۔

اگر ایسا ہے تو پھر مذہبی اور سیکولر ریاست میں فرق کیا ہوا؟

ہاں البتہ سیکولر نظام یہ ضرور کرتا ہے کہ جس طرح کوئی دوسرا شخص آپ کے مذہب اور عقیدے کے بارے میں آپ پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا اسی طرح آپ بھی کسی دوسرے کے مذہب یا عقیدے کے بارے میں سوال نہیں اٹھا سکتے۔

ایک مذہبی ریاست میں اوپر بیان کی گئی سہولتیں اور آزادی صرف اس مذہب کو حاصل ہوں گی جو اس ریاست کا مذہب ہو گا۔ مثال کے طور انڈیا اگر سیکولر ہونے کی بجائے ایک ہندو مذہبی ریاست بن جائے تو اس میں یہ تمام حقوق اور سہولتیں صرف ہندوؤں کو حاصل ہوں گی اور انڈیا میں رہنے والے باقی تمام مذاہب کے لوگ جیسے مسلمان اور عیسائی وٖغیرہ ان سہولتوں سے محروم ہو جائیں گے۔

جیسے پاکستان چونکہ ایک مذہبی ریاست ہے تو اس میں کچھ مذاہب اور فرقوں کو دوسروں کے مقابلے میں کم مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہمارے علم میں ہے کہ مذہبی اقلیتوں نے پاکستان سے اپنی ہجرت جاری رکھی ہوئی ہے اور ان کی تعداد پاکستان میں ہر اگلے سال پہلے سے کم ہو جاتی ہے۔ یہودی تو میرا خیال ہے ایک گھر بھی پاکستان میں نہیں رہ گیا۔ اسی طرح پارسی آبادی بھی بہت کم ہو گئی ہے۔

ایک مذہبی ریاست لوگوں کے مذہب یا عقیدے میں مداخلت کر سکتی ہے اور جنہیں وہ پسند نہ کرے انہیں اپنے مذہب کے دائرے سے نکالنے کے فیصلے بھی کرسکتی ہے۔

ایک سیکولر ریاست لوگوں کے مذہب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتی۔ ریاست لوگوں سے ان کے مذہب کے بارے میں سوال نہیں کرتی۔ یہ لوگوں کی شخصی آزادی کا معاملہ ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی آپ سے سوال نہیں پوچھ سکتا۔ مثال کے طور پر ایک سیکولر ملک میں آپ کے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ پر مذہب کا خانہ نہیں ہوتا لہذہ آپ سے یہ سوال کہیں نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ کا مذہب کیا ہے۔ اور اگر کہیں پوچھا جائے گا تو وہ بھی صرف تحقیق یا ریسرچ وغیرہ کی غرض سے۔

سیکولر نظام اور ریاست اپنے تمام شہریوں کی شخصی آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری لیتی ہے۔ اور اس کو آئینی اور قانونی تحفظ دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سیکولر ریاست کا کافرستان ہونا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اس میں مختلف مذاہب کے لوگ مل جل کر امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

شخصی آزادی کے آئینی اور قانونی تحفظ کے ساتھ ساتھ ریاست تعلیم اور تربیت کے ذریعے بھی یہ کوشش کرتی ہے کہ اس کے شہری تمام مذاہب، نظریات اور کلچرز کو احترام کی نظر سے دیکھیں۔ بچوں کو ایسی تعلیم اور تربیت دی جاتی جس سے وہ دوسرے مذاہب یا اقوام سے پیار کرنا سیکھتے ہیں نہ کہ نفرت کرنا۔ اس مقصد کو حاصل کے لئے آداب گفتگو بھی سکھائے جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرا مذہب بہت اچھا ہے۔ لیکن اپنے مذہب یا عقیدے کی تعریف کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے۔ آپ یہ نہ کہیں کہ میرا مذہب باقی سارے مذاہب سے اعلیٰ ہے یا میرا عقیدہ باقی سارے عقائد سے برتر ہے۔ کیونکہ اس سے لڑائی پیدا ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ایک سیکولر ریاست اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ آپ دوسرے کے مذہب کے بارے میں ایسے تبصرے کریں جو دوسروں کو ناگوار گذریں۔ ہاں البتہ تخلیق اور فنون لطیفہ کو آہستہ آہستہ استثنیٰ حاصل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

شخصی آزادی کے باقی تمام پہلوؤں کے حوالے سے بھی سیکولر ریاست آپ کو تحفظ مہیا کرتی ہے۔ یہ یاد رہے یہ تمام حقوق اور سہولیات تمام شہریوں کو یکساں میسر ہوتے ہیں۔ اس میں جنس یا جنسی رجحان، رنگ، نسل یا مذہب اور نظریات یا کسی حوالے سے بھی کوئی تفریق نہیں برتی جاتی۔ اس سلسلے میں جو نئی چیزیں آتی ہیں ان کی قبولیت بھی جلدی ہوتی ہے۔ مثال کے طور جنسی رجحان کی بحث انسانی معاشرت میں ایک نئی چیز ہے مگر سیکولر نظام شخصی آزادی کے تحت اس بنیاد پر بھی کوئی تفریق روا رکھنے کا قائل نہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ عورتوں کی شخصی آزادی کی اہمیت بھی مردوں کی شخصی آزادی کے برابر ہوتی ہے۔

اچھا! میں سب سمجھ گیا۔ تو تمہاری بہن کو ڈیٹ کرنے کی اجازت ہے؟

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments