آخر ڈونلڈ ٹرمپ کیوں جیتے؟


\"beenish-abbas\"امریکی صدارتی انتخاب جیتنے والے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے مشہور ہیں، کوئی سیاسی تجربہ نہ رکھنے والے ارب پتی بزنس مین ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کئی دہائیوں سے ٹیکس نہیں دیا، وہ خواتین کی عزت نہیں کرتے، ان سے تارکین وطن بھی ناراض ہیں اور تو اور وہ مسلمانوں کو بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے!

اس تمام صورت حال میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ہیلری کو شکست دینا ایک بہت بڑا اپ سیٹ ہے۔

آخر ایسا کیا ہوا کہ ٹرمپ جیت گئے؟

اس کی وجہ ہے یہ کہ امریکی شہریوں نے ٹرمپ کو نہیں بلکہ اپنے روزگار کو ووٹ دیا، ٹرمپ نے امریکہ کے ان علاقوں سے بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کیے ہیں جنھیں \’رسٹ بیلٹ\’ یا \’زنگ آلود پٹی\’ کہا جاتا ہے۔ ان علاقوں کو ڈیموکریٹس نظر انداز کر چکے تھے۔ یہاں کئی دہائیوں پہلے بھاری انڈسٹریز قائم تھیں لیکن امریکی معیشت کی سست رفتاری کی وجہ سے کارخانے رفتہ رفتہ دوسرے ملکوں میں منتقل ہو گئے اور یہ علاقے کھنڈرات بن گئے اور یہاں رہنے والے بے روزگار ہوگئے۔ اس پٹی میں مشی گن، اوہایو، وسکانسن اور پینسلوینیا جیسی ریاستیں شامل ہیں۔

ٹرمپ ایک زیرک بزنس مین ہیں اور جانتے ہیں کہ کب کیا کرنا ہے، انہوں نے ان علاقوں کو اپنا ٹارگٹ بنایا اور یہاں بھرپور مہم چلائی اور پھر وہی ہوا، وہاں رہنے والے ٹرمپ کے گن گانے لگے کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ بزنس مائنڈ رکھنے والے ٹرمپ اس علاقے کی کاروباری سرگرمیاں بحال کر سکتے ہیں۔

ڈیموکریٹس جب سے برسر اقتدار تھے تب سے ہی امریکا ہر پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑائے بیٹھا تھا، ٹرمپ نے اسے بھی جانچا اس بات کا بھی دھیان رکھا کہ امریکی عوام اب جنگوں سے تنگ آچکے ہیں۔ اپنی الیکشن کیمپین میں ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق، جاپان، جنوبی کوریا، لیبیا اور افغانستان سے فوجیں بلانے کا اعلان کیا، جس کے بعد امریکی عوام نے اس بات کو سمجھا کہ ان جنگوں کا خمیازہ امریکی عوام کیوں بھگتیں؟اور اگر یہ کہا جائے کہ ڈیموکریٹس کی پالیسیز ہی انہیں لے ڈوبیں تو غلط نہ ہوگا!

دوسری جانب ہیلری کلنٹن کو دو چیزوں نے شدید نقصان پہنچایا۔ جن میں ایک تو ان کی اپنی ہی جماعت کے برنی سینڈرز سے جنگ جس میں برنی سینڈرز نے انہیں بد عنوان نظام کا حصہ ظاہر کیا۔ جب کہ دوسرا ہیلری کی وہ ای میلز تھیں جو ان کی وزارت خارجہ کے زمانے میں کی گئی تھیں۔ جس کے بعد امریکی عوام پر یہ تاثر اور گہرا ہوگیا کہ سیاستدانوں پر اعتبار کرنا بیکار ہے۔

یہاں تیسرا امر یہ بھی غور طلب ہے کہ امریکی کسی عورت کو صدارت کی کرسی دینے پر تیار نہیں، ایڈیسن ریسرچ کی بعد از ووٹ سروے رپورٹ کے مطابق سفید فام امریکیوں نے بڑی تعداد میں ووٹ دے کر ٹرمپ کی حمایت کی۔

ایک اور بات غور طلب ہے اور وہ یہ کہ امریکہ سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر تقسیم ہوچکا ہے۔ ان میں سے ایک تقسیم شہری اور دیہی علاقوں کی ہے، شہری علاقے بڑی حد تک ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت کرتے ہیں لیکن دیہی حصوں کی بھاری اکثریت رپبلکن پارٹی کی حامی ہے۔ جبکہ سفید فام امریکی تمام امریکیوں سے خود کو بالا تر سمجھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹارگٹ وہ شہری بنے وہ افراد جو نسلی امتیاز کا شکار تھے۔

اگر یہ کہا جائے کہ رپبلکن پارٹی میں کم پڑھے لکھے، نظر انداز کیے گئے لوگ شامل ہیں تو غلط نہ ہوگا، صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ پہلے سے نظر انداز طبقے کو مزید نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔

امریکہ منقسم ہے امرا ڈیموکریٹس کے ساتھ ہیں اور غربا ٹرمپ کے ساتھ، حتیٰ کہ دنیا بھر کے میڈیا نے جو کیمپین چلائی اس میں بھی ہیلری کو کامیاب ٹھہرادیا گیا تھا لیکن یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے کہ امریکی عوام نے ٹرمپ کو چنا، اب بھلے احتجاج ہوں یا پھر ناپسندیدگی کا اظہار، امریکی عوام اپنا صدر چن چکے ہیں۔ ٹرمپ کا کوئی سیاسی بیک گراونڈ نہیں لیکن جن کے سیاسی بیک گراونڈ تھے انہوں نے کون سے تیر مارلیے ہوسکتا ہے کہ یہ نیا صدر امریکا کی قسمت میں نیک بختی لے آئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments