حسن اچھا ہے، اچھی ہے حسن پرستی بھی


ہمارا سکول ممی ڈیڈی تھا ہر حساب ہر حوالے سے۔ لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے۔ ہماری ٹیچرز ایک سے ایک خوبصورت ہوتی تھیں۔ باڑہ مارکیٹ میں کاروبار جم رہے تھے۔ نتیجہ یہ تھا کہ ڈھیروں ڈھیر قبائلی بچے ہمارے سکول میں آ رہے تھے۔ افغان جنگ کی شروعات تھیں تو افغان فیملیز بھی پشاور آ رہی تھیں۔ افغان بچے بھی سکول میں داخل ہونے لگ گئے تھے۔

سر میسی ہمارے پی ٹی ماسٹر ہوا کرتے تھے تب بعد میں سکول کے مالک اور پرنسپل ہی بن گئے۔ سر میسی کی صورت میں بچوں کی مار پیٹ کا اعلی انتظام موجود تھا۔ سر کا کہنا تھا کہ آسمان سے سمجھداروں کے لئے چار کتابیں نازل ہوئی۔ تم جیسوں کے لئے ڈنڈا اتارا گیا ہے۔ اس ڈنڈے کا وہ بے دریغ استعمال کرتے تھے۔

جبت تک میڈم لودھی زندہ رہیں ہماری ڈنڈے سے واقفیت نہ ہو سکی۔ میڈم نے سکول اپنے بیٹے کے لئے بنایا تھا۔ ان کا بیٹا جسمانی ذہنی معذوریوں کا شکار تھا۔ جسے کوئی سکول داخلہ نہ دیتا تھا۔ میڈم نے اپنا سکول بنا لیا جہاں نارمل ابنارمل بچے اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔ میڈم بچوں کی مزاج شناس تھیں، سر میسی جو ڈسپلن ڈنڈے سے بڑی مشکل سے قائم رکھتے تھے۔ میڈم اس سے بہتر ڈسپلن غیر روایتی طریقوں سے برقرار رکھتی تھیں۔

سر پھرے قسم کے قبائلی بچوں کے ٹولے کو جس کے ہم بھی ممبر تھے۔ بہت دلچسپ سزا ملتی تھی کوئی الٹا کام کرنے پر۔ ہم لوگوں کو ہماری کسی ہم جماعت لڑکی کے ساتھ ایک پیریڈ کے لئے بطور سزا بٹھا دیا جاتا۔ ہم لوگ اپنی ہم جماعت کے ساتھ ایسے بیٹھے ہوتے جیسے پولیس موبائل میں چور بیٹھا ہوتا ہے۔ پولیس موبائل میں چور نمائش کے لئے پیچھے باہر کی طرف بٹھایا جاتا ہے۔ وہ غریب نکل بھاگنے کو تیار ہوتا لیکن بھاگنے کون دیتا۔

اک بار ہمارا قبائلی بچوں کا ٹولا اپنا اجلاس کر رہا تھا۔ اس اجلاس سے اک چھوٹا سا قبائلی ملک خطاب کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارے گھر پتہ لگ گیا کہ سکول میں ہمارے ساتھ اتنا ظلم ہوتا تو سب ہمیں بے شرم بے غیرت وغیرہ کہیں گے۔ ہمارا سارا جلسہ تب میڈم نے ہی پکڑ لیا جب ہمارا مشر ہمیں بتا رہا تھا کہ منگ نہ اے داؤس جوڑ کڑے دے۔ اس کا ترجمہ میں نے ہر گز نہیں کرنا۔

ہم سب چھ سات دانوں کو پھر اس دن میڈم نے سارے دن کے لئے الگ الگ لڑکی کے ساتھ بٹھا دیا۔ اپنی غیرت، ’نر توب‘ (بے تحاشا مردانگی)، مذہب وغیرہ سنبھالے ہم لوگ آدھی آدھی کرسی پر بیٹھے رہے۔ کرسی پوری ہی تھی ہم بس شرعی تقاضوں کے مد نظر اپنی طرف سے ہم جماعت سے آدھی کرسی کا فاصلہ رکھ رہے تھے۔ ہمارے ساتھ دوسرا اور اصل ظلم یہ ہوا کہ میڈم نے بریک میں کلاس کا چکر لگایا اور ہم سب کو حکم دیا کہ اپنی ڈیسک فیلو کے ساتھ اپنا لنچ شیئر کریں۔ ہم سب اس دن تقریباً بھوکے بھی رہے۔

یہ میڈم کا طریقہ ہی تھا۔ ہم سب ہم جماعت لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو اب تک یاد رکھے ہوئے ہیں۔

یہ ڈیسک فیلو آج بھی کہیں نظر آ جائیں تو ہم لوگ ایک دوسرے کا حال چال نہ بھی پوچھیں تو ایک دوسرے کو غور سے دیکھتے ضرور ہیں۔ مختصر ترین بات چیت بھی ہو تب بھی یہ ضرور یاد کراتے ہیں کہ تم حسینوں کی وجہ سے ہم تقریباً ایک ٹانگ پر سارا دن بیٹھے رہتے تھے سزا ملنے کے بعد۔ وہ بھی وہ سب وقت یاد کراتی ہیں جب جب انہوں نے ہم لوگوں کو مار سے بچایا تھا کبھی۔

گھر میں ہم پنجابی بولتے۔ سکول میں میڈم ہمیں انگریز بناتیں ہمارے خیال میں۔ سکول اور گھر کے باہر والی دنیا میں ہمارے قبائلی دوست اور ان کے بزرگ ہمیں اپنی پرم پرا رسم رواج بتاتے اور اس کے مطابق تربیت دینے کی کوشش کرتے۔ یہ قصے بھی مزے کے ہیں پھر کبھی۔

اس قبائلی تربیت کا عجیب و غریب اثر ہوا۔ افغانستان اور کابل ہمیں بھی گپ شپ لگنے لگ گیا اپنے گھر جیسا۔ میڈم کی آنکھیں بند ہوتے ہی سکول سر میسی نے سنبھال لیا۔ میڈم کے انوکھے تربیتی طریقوں سے خلاصی ہوئی تو ہم لوگوں نے پر پرزے نکالے۔ ساتویں جماعت میں چڑھتے ہی ہم نے چن چڑھا دیا۔ گھر سے بھاگ کر کابل پہنچ گئے جہاد کی نیت سے اور سینما میں فلمیں وغیرہ دیکھ کر واپس آ گئے۔

اس فلمی جہاد کا عجیب سا نتیجہ نکلا گھر کے ساتھ رہنے والے افغان کمانڈر نے واپسی پر ایک ملاقات کی۔ اچھی طرح گلے لگا کر چوم چاٹ کر اعلان کیا کہ آج سے یہ مجاہد، یعنی ہم، اس کے گھر آزادی سے آ جا سکیں گے۔ اس گھر میں حال یہ تھا کہ پھوپھی بھی اپنے بھتیجے سے پردہ کرتی تھی کمانڈر صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا جو باقاعدہ ڈنگر مزاج ملا تھا دوست بن گیا۔ اسی نکے استاد کی برکت سے یہ سیکھا کہ جب جان پہچان کے لوگوں کی خواتین پاس سے گذریں تو منہ دیوار کی طرف کر کے کھڑے ہونا بہت ضروری ہے۔

محلے میں کھیلتے ہوئے ایک بار خود سے سینیر ایک حسینہ نے اپنی بہت ساری سہیلیوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلنے کی دعوت دی۔ ہماری بدقسمتی دیکھیں اس وقت بھی میرا ڈنگر دوست میرے ساتھ تھا۔ اس نے فورا ایک جذباتی تقریر کی۔ چھپن چھپائی کھیلنے کو کفر قرار دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اگر بھاگتے دوڑتے ہم دونوں کہیں آپس میں ٹکرا گئے تو عذاب نازل ہو گا۔

کالج تک پہنچے تو اپنے سکول کی تربیت بھول بھال چکے تھے۔ کچھ یاد رہ گیا تھا تو اس ننھے افغان مجاہد کی سکھائی باتیں۔ اردگرد کا ماحول ایسا تھا جس میں عرب افغان جہادی کھلے لگے پھرتے تھے۔ اس کے علاوہ اپنے دوستوں کی مردانہ مزاج کمپنی تھی جس نے ہمارا ظاہر بدل کر رکھ دیا تھا۔

پہلی نوکری ایک جواہرات جیولری کی امریکی فرم میں کی۔ پہلی بار جرمن امریکی برطانوی لوگوں سے واسطہ پڑا۔ صرف غیر ملکی گاہک ہی آیا کرتے تھے۔ ایک ساتھ کام کرنے والی گوری کو شاید ہم سائیں لوک لگتے تھے۔ وہ مہربان رہتی ایک دن اس نے پھول لا کر دیا۔ ہم نے لے لیا تھوڑی دیر بعد وہ آئی تو پھول کی آخری دو تین پتیاں ہی باقی بچی تھیں جنہیں میں کھانے والا تھا جبکہ باقی کا پھول کھا چکا تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔

حسینوں سے ہماری تب تک بن ہی نہیں پاتی تھی۔ ویسے آپس کی بات ہے دل بڑا کرتا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک جوڑا کچھ خریدنے آیا۔ ہماری ڈیوٹی لگی کہ ان کے آرڈر میں تبدیلی کر کے ان تک پہنچائیں۔ ہوٹل گئے تو گوری اکیلی بیٹھی مل گئی۔ اس کا ساتھی شاید کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ اب دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں بیٹھے اسے دیکھ رہے ہیں۔ دل تو اسے دیکھنے کو کر رہا تھا۔ لیکن ویسے ہم شرما رہے تھے۔ البتہ چور نظروں سے جتنا ممکن تھا اسے دیکھ بھی رہے تھے۔

گوری نے اچانک پوچھا میں تمھیں کیسی لگتی ہوں۔ ہمیں یہ نہیں پتہ تھا اب اسے کیا کہنا ہے۔ اسے دیکھا سوچ میں پڑ گئے۔ تھی وہ ویسے کافی اچھی، ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اس نے پوچھا کہ کیا میں خوبصورت ہوں۔ ہم چپ رہے تو اس نے پوچھا کہ کیا بدصورت ہوں تو بولا کہ نہیں نہیں، تو اس نے دوبارہ پوچھا کیا خوبصورت ہوں۔ تو مری ہوئی آواز میں بتا دیا کہ ہاں۔ تب تک اس کا ساتھی بھی آ گیا تھا اور ہماری عبرتناک شکل دیکھ کر صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا۔

گوری نے پوچھا کہ گلے ملو گے۔ اللہ بھلا کرے میرے نکے ڈنگر دوست کا جو بروقت یاد آیا کان میں بولا کہ کفر ہے۔ یہ سنا اور انکار کر دیا گوری ہنسنے لگی۔ اس نے پوچھا کیوں دل نہیں کر رہا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ساتھی سے کہا دیکھو یہ کتنا شرما رہا ہے۔

گوری اٹھ کر پاس آئی۔ اس نے ہاتھ پکڑا آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولی۔ دیکھو اچھے کو اچھا کہنا، خوبصورت کو خوبصورت، کہنا بری بات نہیں ہوتی۔ کسی کی تعریف اس لئے بھی کر دینی چاہیے کہ ہو سکتا اس کی کبھی کسی نے تعریف نہ کی ہو۔ اس لئے بھی ضرور کر دیا کریں کہ ہو سکتا کہ آپ کی تعریف اس کے لئے معنی رکھتی ہو اور اہم ہو۔

بری بات کیا ہوتی تب سمجھ نہیں آیا تھا۔ اب بھی شاید سمجھ نہیں آیا ہے۔ پتہ ہے تو بس اتنا کہ ہمیں ہم لوگوں کو اپنی عشق معشوقی سے بھری ہوئی شاعری کے باوجود حسن سے، حسینوں سے، برتاؤ کرنا نہیں آیا۔

آئیں اب غنی خان کے کچھ پشتو مصرعوں کا مزہ لیں جو کہتے ہیں:۔

یہ عشق کا ہے کمال کہ
کوئی حسین ہو جائے
کوئی حسن ہو جائے
حسن اچھا ہے
اچھی ہے حسن پرستی بھی
بس دل ہو آئینہ
جو صاف ہو شفاف ہو
تو پھر اچھی ہے مستی
کہو مستی ہے اچھی
Nov 11, 2016 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments