مذہبی سیاست اوربیان کچھ پردہ نشینوں کا….


\"kazmi\"

عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی فکر سماجی سطح پر قدامت پسندانہ رہی ہے۔ سائنسی منہج اور تحقیق کے داعیوں کو تو چھوڑیے، اقبال جیسے وحی پرستوں کو متجدد ہونے کا طعنہ دیا جاتا رہا ہے۔ سر سید احمد خان کو آج تک ملحد سمجھا جاتا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب انکار حدیث اور الحاد کے درمیانی سنگم پرکھڑے تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ قدامت پسندی آج سے نہیں صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ اس قدامت پسندی کے اثرات سے متعلق کسی بھی قسم کے دعوے کو حقائق کی چھلنی سے ضرور گذرنا چاہیے۔

بیانیوں کی جنگ کا دور ہے اور گزشتہ تیس سال سے پاکستان کو جس آزار کا سامنا ہے اس کے تانے بانے قدامت پسند مذہبی فکر سے جوڑے جا رہے ہیں۔ بحث اب تشدد سے نکل کر ساختی تشدد کی پرپیچ گھاٹیوں میں داخل ہو رہی ہے۔ تبلیغی جماعت کو غیر متشدد جماعت سمجھنے والوں کو سادہ لوح باور کرایا جا رہا ہے۔ ایسے میں کچھ صاف صاف باتیں کرنے کو دل چاہتا ہے۔

نظری بحثوں کا مسئلہ یہ ہے کہ دلائل پر مکاتب فکر کی اجارہ داری قائم ہو جانے کے سبب اکثر امر واقعہ کی تنقیح ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں قدامت پسند مذہبی فکر اور نئے بیانیوں کی جو بحث چھڑ چکی ہے اس میں براہ راست مذہب و لبرل ازم کے ٹکراﺅ سے بچنے کے لیے ایک راستہ یہ ہو سکتا تھا کہ دہشت گردی کے تناظر کو قدامت پسندی کی اولیں اور واحد شناخت نہ باور کرایا جائے بلکہ قدامت پسند روش پر تنقید کے لیے منفرد اور جداگانہ فکری بنیادیں اختیار کی جائیں جو بہرحال موجود ہیں لیکن احباب کا یہی اصرار محسوس ہوتا ہے ہے کہ چونکہ روایتی اہل مذہب زد میں ہیں اس لیے بیانیے کی لپیٹ میں سب کو لے لیا جائے۔ یہ اصرار ایسے کئی مزعومات اختیار کرتا ہے کہ جو حقائق کی دنیا سے میل نہیں کھاتے لہذا ساختی تشدد جیسی نظری اصطلاحات کا سہارا لے کر اپنے اصرار کی تسکین کر لی جاتی ہے۔

اہل فکر کا اس نکتے پر اتفاق معلوم ہوتا ہے کہ روایتی مذہبی فکر کی سیاست و ریاست کی آمیزش سے موجودہ فرینکن سٹائن تخلیق ہوا۔ اگرچہ اس مقدمے سے دانستہ طور پر خارجی اسباب مثلا مغرب کی خارجہ پالیسی کا تذکرہ نکال دیا جاتا ہے کیونکہ ایک رائے یہ ہے کہ ”رد عمل والی دلیل ہمارے مخصوص ماحول میں دہشت گردی کی معذرت خواہی کا کام دیتی ہے“ (جو ایسی غلط بات ہرگز نہیں) تاہم سر دست اسی نکتے کو جوں کا توں رکھ کر بات کر لیتے ہیں۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ مذہب اور ریاست کی آمیزش کس نے کی۔ بات ضیا الحق سے شروع کی جاتی ہے۔ درست۔ مگر یہ قصہ اس سے پرانا ہے۔ مودودی صاحب کا ذکر چھڑتا ہے۔ جی نہیں اس سے بھی پرانی بات ہے۔ قرارداد مقاصد بھی ذرا بعد میں آتی ہے۔ یہ کارنامہ اول اول جن صاحب نے سرانجام دیا ان کا اسم گرامی قائد اعظم محمد علی جناح تھا۔ جو اگرچہ بقول یاراں لبرل سیکولر پاکستان کے خواہاں تھے مگر شاید ”نادانستگی“ میں ان سے ایک ایسی تحریک کی قیادت ہوگئی جس نے مذہب کی بنیاد پر ایک خطہ زمین کی تقسیم اور ایک نئے وطن کا مطالبہ کیا۔ برصغیر میں فرقہ وارانہ سیاست کی سب سے بڑی پیشوا مسلم لیگ تھی۔ پچاس ہزار پاکستانی شہریوں کی اس دہشت گردی میں موت سے کچھ ستر برس قبل لاکھوں ہندوستانی انسانوں کا قتل عام اسی مذہبی سیاست کے باعث ہوا جس کے نام لیوا ہمارے سیکولر قائد تھے۔ اور ایک یوم راست اقدام بھی کبھی ہوا تھا ۔ اسے بھی یاد کیجیے۔

قیام پاکستان کے بعد اسی مسلم لیگ نے ہر اس کام کی بنیاد رکھی جو آج ہمارے مسائل کی جڑ ہے۔ مذہبی سیاست، ریاستی سرپرستی میں نجی جہاد، عالمی معاملات میں خواہ مخواہ کی پنگا بازی، صوبائی خودمختاری سے گریز، سیاسی عمل میں رکاوٹوں کا کلچر اور ایک ایسی سیاسی اشرافیہ کا قیام کہ جس کے باعث فوجی اور بابو لوگ ہماری قسمت کے اصل مالک بن گئے۔ ضیا الحق صاحب کے بعد کا قصہ ہر ایک کو حفظ ہے جس کو دہرانے کی حاجت نہیں۔ نقاط ملاتے جائیں تو تصویر کچھ یوں بنتی ہے کہ مسلم لیگ نے روایتی مذہبی فکر کو نماز روزہ کی مصروفیات سے نکال کر دوقومی نظریہ پر استوار کیا۔ مولانا مودودی نے اس دو قومی نظریہ کو عالمی ویژن عطا کیا اور خاکی برادری نے مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی بے پناہ افرادی قوت سے فائدہ اٹھا کر ایک نیا جہادی بیانیہ تشکیل دیا۔ جب جوابی بیانیے کا دور آیا ہے تو اہل فکر بضد ہیں کہ بات صرف مذہبی فکر پر ہوگی۔ تبلیغی جماعت بھی متشدد فکر رکھتی ہے، مدارس سے بھی تکفیری عقائد کی تعلیم دی جاتی ہیں اور مذہب کی ساخت ہی مبنی بر تشدد ہے۔ ان میں سے کئی باتیں موقع محل کے اعتبار سے درست بھی ہیں تاہم یہاں مقصد داخلی تضادات دکھانا ہے۔ بنیاد کو چھیڑنے کا دعوی کرنے والے بھی بنیاد مدارس اور ضیا الحق سے آگے لے جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی دہشت گردی کے مسئلہ پر سیکورٹی کے نکتہ نگاہ سے بات کرنے کو تیار ہیں۔

ہاں مگر اس سب قصے کا آغاز کرنے والے اب سیکولر لبرل کہلاتے ہیں اور تب بھی جمہوریت اور قومی ریاست کے نام لیوا کانگریسی ملا ساختی تشدد کے حامل قرار پاتے ہیں۔ جہاں تک خاکی برادری کی بات ہے تو کیا کہیں کہ بیانیوں کی آڑ میں انھیں کلین چٹ ملتی جارہی ہے۔ بہرحال بیانیے یوں ہی جاری رہیں گے اور پابندی تبلیغی جماعت پر لگنے سے ہمارے کٹھ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اہل دانش مطمئن ہوجائیں گے کہ ریاست کچھ کر رہی ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر گھڑسوار جلوس نکلتے رہیں گے اور لال ٹوپیاں اونچی ہی رہیں گی۔

تبلیغی جماعت کی مذہبی فکر عبادات تک محدود اور سماجی فہم غیر عملی و غیر منطقی ہے۔ احباب اس کو موضوع بحث بنانے کی بجائے تبلیغی جماعت کو متشدد جماعت ثابت کرنے پہ اتر آئے ہیں۔ اس پہ حیرت ہوتی ہے کہ اگر تبلیغی جماعت بھی متشدد ہے تو پھر دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہم کب اور کیسے جیتیں گے۔ ہم محاذ کم کرنے کی بجائے پھیلاتے جا رہے ہیں۔ فکری طور پر تقسیم معاشرے میں کم از کم مرکز اتفاق حاصل کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ہر فکری گروہ پوائنٹس سکورنگ میں لگا ہے۔ آسمان والا ہم پہ رحم کرے۔

احمد علی کاظمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد علی کاظمی

احمد علی کاظمی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ جامعہ امدادیہ کے طالب علم رہے ہیں۔ پاکستانی سیاسی و آئینی تاریخ اور سیاسی اسلام و جمھوریت کے مباحث میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فلم بین اور کرکٹ کے تماشبین اس کے علاوہ ہیں۔ سہل اور منقح لکھنے کے قائل ہیں۔

ahmedalikazmi has 13 posts and counting.See all posts by ahmedalikazmi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments