مسلمان عورتوں کے حقوق کون دلائے گا؟


\"malike-ashter\"

جس دن سے تین طلاق کا معاملہ بھارت کی سب سے بڑی عدالت کے دروازے پر پہنچا ہے بہت سے علما میں ایک عجیب سی بے چینی ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ یہ شریعت میں مداخلت ہے۔ حکومت یا شاید عدالت پر دباؤ ڈالنے کے لئے جگہ جگہ تحفظ شریعت کانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ ایسا ماحول بنانے کی کوشش ہو رہی ہے گویا اسلام اور اسلامی شریعت خطرے میں ہے۔ علما کا پورا مقدمہ ایک جملے پر ٹکا ہے اور وہ یہ کہ ایک ہی نشست میں تین طلاق بھلے ہی غلط ہو، عدت کے بعد مسلمان عورت کو نقفہ ملنا چاہیے یا نہیں یہ سب عدالت اور حکومت طے نہیں کرے گی بلکہ علما طے کریں گے۔

سب سے پہلے تو یہی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا شریعت اتنی ہی کمزور اور ناتواں شئے ہے جو کسی بھی بات سے خطرے میں آ جاتی ہے اور ان علما کو بار بار اس کو بچانے کی زحمت کرنی پڑتی ہے؟ تحفظ شریعت کی ترکیب بجائے خود علما کی خودستائی اور شریعت کو ادنیٰ و کمزور سمجھنے کی ان کی نفسیات کی غماز ہے۔ اب بات یہ کہ مسلمان عورتوں کا حقوق اگر عدالت یا حکومت دلا دے گی تو کیا اسے شریعت میں مداخلت ماننا صحیح ہے؟ علما یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلمان عورت کو عدالت یا حکومت کے دروازے پر اسی لئے جانا پڑا کہ ان علما نے اسے اس کا شرعی حق نہیں دلوایا۔

ہم لاکھ کہیں کہ ہمارے یہاں عورتوں کو برابر کے حقوق ہیں، میں اس کو نہیں مانتا۔ اسلام نے یقینا عورت کو ایک باعزت مرتبہ عطا کیا ہے لیکن مسلمانوں نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ میں مطلقہ عورت کے نفقہ پر اس سے پہلے ہم سب پر ایک پورا مضمون لکھ چکا ہوں کہ کس طرح ہمارے یہاں عورت کو عدت گذرنے کے بعد سماج کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی روایت رہی ہے اور ہم اس مرد پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالنا چاہتے جس کی خدمت میں اس عورت نے اپنی جوانی صرف کر دی۔

یہی معاملہ طلاق کا ہے۔ ایک ہی بار میں تین طلاق کو خود وہ بھی بدعت کہتے ہیں جو اس صورت میں بھی طلاق ہو جانے کے قائل ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل غلط ہی صحیح مگر طلاق ہو جائے گی۔ عورت کے ساتھ ایک نشست میں تین طلاق جیسی غیر قرآنی رسم روا رکھنے والے کسی شخص یا جماعت کو اس بات کا اخلاقی حق نہیں ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کی بات کرے۔ آج جن علما کو مسلمان عورتوں کے عدالت جانے سے تکلیف ہے انہوں نے آج تک معاشرے میں مرد کے تحفظ کے علاوہ کیا کیا ہے؟

تین طلاق دینے والے مرد کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا؟ نہیں۔ علما نے ایسے شخص کی نماز جنازہ نہ پڑھانے کا اعلان کیا؟، نہیں۔ مساجد میں خطبوں میں مردوں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ تشدد کرنے، جب چاہے اسے کھڑے کھڑے طلاق دینے اور اس کا استحصال کرنے کے لئے آزاد نہیں ہیں؟ نہیں۔ جب یہ سب نہیں کیا گیا تو مسلمان عورت کیا کرے؟، گھٹ گھٹ کے مرجائے؟، اپنے مجازی خدا یعنی اس شوہر کی ڈیوڑھی پر سر پٹک پٹک کر جان دے دے جو گھر کا خرچ نہیں دیتا، کھانے میں نمک کم یا زیادہ ہونے پر اسے بے رحمی سے پیٹتا ہے، بیٹی پیدا کرنے پر مارنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک دن جب اسے موقع ملتا ہے تو دوسری شادی کرنے کے لئے اس کو تین بار طلاق طلاق طلاق کہہ کر میکے چھوڑ آتا ہے؟

عورتوں کو اگر حکومتوں، عدالتوں اور علما میں سے کسی ایک سے مدد مانگنی ہو تو وہ اس عالم سے مدد تو یقینا نہیں مانگیں گی جو شوہروں کو بتاتا پھرتا ہو کہ بیوی کو تھپڑ مارنے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ مسلمان عورتیں عدالت گئیں۔ اپنے آپ میں اس سے بڑا ثبوت کوئی نہیں کہ علما نے مسلمانوں کی آدھی آبادی کے اندر اس بات کا اعتماد پیدا نہیں کیا کہ اگر ان کے حقوق کی بات آئے گی تو علما ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ علما کو عورتوں سے شکایت کرنے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ وہ کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان عورت کے حقوق عدالت یا حکومت نہیں دلائے گی بلکہ یہ کام ہمارے کرنے کا ہے۔ شریعت کو جاگیر ماننے والے علما کی انا کو ممکن ہے ٹھیس لگی ہو لیکن علما کو سمجھنا چاہیے کہ جب بات عورت کے اپنے وجود اور اس کی عزت نفس کی ہے تو ایسے میں علما کی اگو نہیں دیکھی جا سکتی۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments