قائداعظم کا ملک رياض صاحب کے نام خط


گرامی قدر ملک ریاض صاحب!

کافی دنوں سے خیال تھا کہ آپ سے مخا طب ہوں اور سپاس گزاری کا اظہار کروں لیکن چند نا گزیر وجوہات پر عدیم الفرصتی رہی اور تاخیر ہوئی جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔

اردو شاعری اور ادب سے میرا شغف تو نہیں ہوں اور انگریزی آپ نہیں جانتے کہ شیکسپیر کو quote کرتا اسی لئے چند جملے غالب سے مستعار لئے اور باقی خط کی نوک پلک درست کرنے میں خامہ بگوش نے مدد کی۔

مرزا نوشہ گرم رفتاری سے کہیں جا رہے تھے۔ ان سے اس شتابی کا سبب پوچھا تو فرمانے لگے عالم بالا سے تین دن پہلے بلاوا آیا تھا تو میں نے کہا اتنی تاخیر سے کیوں جانا ہوا تو اپنے مخصوص انداز میں یہ کہ کر چل دیے

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

لگے ہاتھوں میں نے بھی یہی جملہ گرہ میں باندھ لیا کہ کہ شاید مرزا نوشہ کا جملہ ہی میری تاخیر کے سبب کی وضاحت کر دے گا۔

دنیا والے تو شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ ہم مرنے والے عالمِ ارواح میں چین سے بیٹھے ہیں کہ وہاں نہ غمِ روزگار ہے، نہ گردشِ ایام۔ فردوسِ بریں ہے اور ہم ہیں، نازونعم کی بارش ہے، حورانِ بہشت اور غِلمان ابروئے چشم کے اشارے پہ حاضر ہیں، ”گنڈاپوری شہد“ کی فراوانی ہے اور عرشِ معلٰی کی سائبانی ہے کیونکہ مالکِ دو جہاں کی میزبانی ہے۔

خیر دنیا والوں کے عالمِ بالا کے تخیل کی تفصیل میں نامہ کچھ طویل ہو جائے گا اس لئے مدعا پہ آتا ہوں۔

ملک صاحب! میری زندگی کی کہانی تو آپ کے سامنے ہے کہ لمحہ بھر کو چین و آرام میسر نہ آیا۔ لڑکپن ولایت میں اینگلو سیکسن لاء سیکھنے کی نذر ہو گیا اور جوانی وکالت کھا گئی۔ شامِ شباب اور پیرانہ سالی وطنِ عزیز کے حصول کی جدوجہد کی نذر ہو گئے۔ سوچا تھا مسلمانانِ برصغیر کو آزاد دیکھ کر ان کے چہروں پر پھیلنے والے تبسم کا دائرہ سارا ضعف و ناتوانی دور کر دے گا۔ لیکن تقسیمِ بر صغیر کے خون آشام مناظر طبیعت پہ بجلی بن کر گرے۔ حاشیہِ خیال میں بھی نہ تھا کہ 15 اگست 1947 کا سورج اس قدر خون کی سرخی لئے طلوع ہو گا۔ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لئے کراچی آ تو گیا تھا لیکن “کچھ دل ہی جانتا ہے کس دل سے آئے ہیں”۔

شروع کے دو عشروں میں ایوانوں میں کھیلے جانے والے کھیل سے دل اس لئے بھی مکدر نہ ہوا کہ مملکت نوزائیدہ ہے سنبھل جائے گی سنبھلتے سنبھلتے۔ لیکن 1971 کے جاڑے میں ملک کیا دو لخت ہوا کہ دل ہی ٹوٹ گیا۔

کچھ عرصہ قبل قندیل بلوچ نامی ایک نوجوان لڑکی نے آ کر جب اپنی کتھا سنائی تو دماغ کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن بھی رک گئی۔ اس کے الفاظ کا کرب اور آنکھوں میں بھرے درد کو سن اور دیکھ کر برِ صغیر کا سب سے بڑا وکیل لاجواب ہو گیا۔ بس اتنا ہی کہا کہ بیٹی میرے تخلیق کردہ وطن کا دامن اتنا بھی مختصر نہیں ہوا کہ تیرے سر کا آنچل نہ بن سکے۔ تم کچھ اور کر لیتیں جو ”خداوندانِ معاشرہ“ کی آنکھوں میں نہ کھٹکتا اور تو یوں بے وقت اجل کا نشانہ نہ بنتی۔

کل وہ کوئی پرانا اخبار لے آئی اور تیسرے صفحے پر ایک یک کالمی خبر دکھاتے ہوئے کہا کہ وطنِ عزیز میں ہم جیسے بے خانماؤں کو کون پوچھتا ہے آپ کا تو اپنا نواسہ دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے۔ بجھے ہوئے دل کے ساتھ خبر جو پڑھی تو آپ کی فیاضی سے آشنا ہوا کہ بانی پاکستان کے نواسے کو جب کہیں پناہ نہ ملی تو آپ کی انسان دوستی اور سخاوت سائبان بنی کہ آپ نے اس ”لاوارث“ کو ستر ہزار روپے ماہانہ وظیفے سے نوازا ہے۔ میں خود تو زندگی بھر کبھی کسی کا احسان لینے کا روادار نہیں ہوا لیکن آج اپنی ذات کو آپ کی فیاضی اور درد مندی کا رہین سمجھتا ہوں۔

مجید نظامی صاحب اکثر آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور نوائے وقت میں مجھے میرے فرامین اور اس پر ماہرین کی پرکاریاں اور رنگ آرائیاں دکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آپ کے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ پہ کئی تفاسیر مرتب کی جا چکی ہیں اور پھر ان تفاسیر پہ حاشیے اور ان حاشیوں کی تشریح کے لئے مختلف دانش گاہوں میں میرے نام کی چیئرز بنائی گئی ہیں۔

سوچتا ہوں کہ میرے فرامین وطنِ عزیز کو ترقی کی راہ پہ گامزن تو نہ کر سکے لیکن اتنا تو ضرور ہوا کہ نہ صرف ماہرین کی معرکہ آرائیوں و بزم آرائیوں کا سبب بنے بلکہ ان کی مستقل روزی روٹی کا ذریعہ بھی بن گئے۔ دل میں خیال آیا کہ میرا نا ہنجار نواسہ میرے فرامین ہی مرتب کر لیتا تو اس کے روزگار کا سبب بن جاتا۔

آپ سے ذاتی طور پہ آشنا تو نہیں اس لئے حال ہی میں وطنِ عزیز سے آنے والے عبداللہ حسین اور انتظار حسین سے آپ کی بابت پوچھا تو انھوں نے آپ سے عدم آشنائی کا اظہار کیا اور بتایا کہ موصوف سنگ و آہن کے کے شہر تعمیر کرتے ہیں، ہم قلم کے مزدوروں کا ان سے کیا واسطہ؟

مایوس ہو کر انٹر نیٹ، اخبارات اور ٹی وی ٹاک شوز کا سہارا لیا تو آپ کی ذات کے بھید منکشف ہوئے۔

آپ کی بے پایاں ترقی اور آپ کے بسائے ہوئے وسیع و عریض شہر دیکھ کر یک گونہ تسکینِ قلب ہوئی کہ چلو میری جدوجہد کا ثمر کسی کی گود میں تو گرا۔ وطنِ عزیز سے آنے والے انتہائی پڑھے لکھے نوجوانوں کے گلے شکوے سننے کے بعد آپ کے انٹرویوز تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوئے۔ جب آپ کی حیات کے تمام پہلؤوں کو یکجا کیا تو پہلی دفع کسی پہ رشک آیا۔ آپ کی ہنرمندی اور کاریگری کا قائل ہو گیا ہوں کہ بقول آپ کے آپ نے فائلوں کو پہیے لگا کر پٹواری سے لے کر وزیرِاعظم تک، چیتھڑے اخباروں سے لے کر ٹی وی مالکان تک، رپورٹر سے لے کر بڑے بڑے اینکرز تک، مسجد کے مؤذن سے لے کر بڑے بڑے علما تک سب کو اپنا فرمانبردار بنا لیا ہے۔

ملک صاحب! وکالت چونکہ روح میں رچی بسی ہے اس لئے جب آپ کی زندگی کا ناقدانہ مطالعہ کیا تو میڈیا پہ آئی ہوئی مختلف رپورٹس سے یہ پتہ چلا کہ اسلام آباد سے لے کر کراچی تک شاید ہی کوئی ایسی عدالت ہو جہاں آپ کے خلاف کیس نہ ہو۔ آپ کی ذات فائلوں کو پہیے لگانے کے حوالے سے مشہور ہے لیکن عدالتوں میں آپ کے کیسز کی فائلیں مثلِ کوہ ہمالیہ جامد و ساکت ہیں۔ لوگوں کی ذاتی زمینوں پر قبضہ، محکمہِ جنگلات کی اراضی پہ قبضہ، قبرستانوں پہ قبضہ، محکمہِ مال کے کاغذات میں ردوبدل، انکم ٹیکس کے گوشواروں میں غلط بیانی، کیا کیا الزام نہیں لگایا گیا ہے آپ کی ذات پر۔

الغرض ایک پورا دفتر ہے آپ کے خلاف۔ لیکن جس ہنرمندی سے آپ نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر کی دست اندازی سے محفوظ ہیں اور جس سبک رفتاری سے آپ کے کیسز چل رہے ہیں اس پر بطورِ وکیل عش عش کر اٹھا۔ سنا ہے کہ اسلام آباد میں تو آپ نے حکومت سے این او سی لئے بغیر ہی بحریہ انکلیو کھڑا کر دیا ہے اور سی ڈی اے جو لوگوں کے گھروں کے راستے تک مسدود کر دیتا ہے، اس نے کئی سو کنال سرکاری زمین آپ کے پروجیکٹ تک رسائی کے لئے فراہم کر دی ہے۔

اسلام آباد کا تو اتنا واقف نہیں ہوں لیکن کراچی میں آپ کے بنائے گئے بحریہ ٹاؤن کی جدت، معیار اور کشادگی کا قائل ہو گیا ہوں۔ سوشل میڈیا پہ آنے والی تفصیلات سے پتہ چلا ہے کہ کس ہنرمندی سے آپ نے محکمہِ مال کے کاغذات میں رد و بدل کر کے ادھر کی زمین ادھر اور ادھر کی زمین ادھر کر ڈالی۔

آپ کی طبیعت کی ”سادگی“ اور ”دماغ کی پرکاری“ دیکھ کر خیال آیا کہ کاش کشمیر پہ ہندوستان کے ساتھ محازآرائی کو جنگ تک لے جانے کی بجائےچار پٹواریوں کے ہاتھوں جموں و کشمیر کے کاغذات میں ردو بدل کر کے پاکستان کا حصہ بنا دیتا۔ میرا ذہن تو وکیل ہونے کے ناتے قانون کی عملداری پہ یقین رکھتا تھا لیکن میرے مشیروں میں بھی کوئی آپ جیسا ذہین و فطین نہ تھا۔ آپ نے تو چوٹی کے وکیل، ریٹائرڈ بیوروکریٹ، ریٹائرڈ جنرل اور میڈیا مالکان اپنی ٹیم میں رکھے ہوئے ہیں اور ساتھ زمینوں پہ قبضوں کے لئے گرگ باراں دیدہ بھی آپ کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ ٹیم کے انتخاب اور سرکاری اہل کار کی قیمت لگانے میں آپ کی مہارتِ تامہ کا قائل ہو گیا ہوں۔ اگر آپ میرے نواسے کو بھی چار ماہ کا پٹوار کا کورس کروا کر اپنی شاطر ٹیم کا حصہ بنا لیں تو بہت جلد وہ نہ صرف اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو جائے گا بلکہ اپنے جیسے ہزاروں کی روزی روٹی اور نان نفقہ کے بندوبست کے قابل ہو جائے گا۔ آپ کے دسترخوان کی کشادگی دیکھ کر خیال آتا ہے کہ میں ایک ملک بنا کر باشندگانِ وطن کے نانِ جویں کا بندوبست نہ کر سکا لیکن آپ دو شہر بسا کر لاکھوں لوگوں کے روزی رساں بن گئے حتٰی کہ ملک کے خالق کا نواسہ بھی آپ ہی کے دسترخواں کا خوشہ چیں ہے۔

اگر پٹوار کی پیچیدگیاں پیرانہ سالی میں اس کا دماغ نہ سمجھ سکے تو کسی مقتدر شخصیت کو کہلوا کر میرے مزار پر ہی میرے نواسے کو صفائی کے کام پہ مامور کروا دیجئے گا۔

آپ کی بے مثال ترقی اور کامیابی دیکھ کر اب سوچنے لگا ہوں کہ زندگی یوں انگریز اور ہندوؤں سے لڑنے میں ”ضائع“ کرنے کی بجائے ماؤنٹ بیٹن سے زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کروا لیتا اور اس پہ بحریہ ٹاؤن سے ذرا کم خوبصورت ”جناح ٹاؤن“ آباد کر دیتا تو آج میرا نواسہ یوں دربدر ہو کر کسی پراپرٹی ٹائیکون کا دستِ نگر نہ ہوتا بلکہ خود پراپرٹی ٹائیکون بن کر آپ ہی کی طرح چیرٹی ٹائیکون کہلوانے کا مشتاق ہوتا۔

وہ جب لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انھیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی یہ راستہ کوئی اور ہے

واسلام

آپ کے دستِ نگر اسلم جناح کا نانا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments