پاکستانی عوام کے نام ڈونلڈ ٹرمپ کا \”کافی کھلا\” خط


\"raza-hashmi\"

نیویارک کا موسم خنک مگر خوشگوار ہے۔ میں اپنے کمرے کے انتہائی تنہا کونے میں لانگ چیئر پر نیم دراز ہوں۔ روشنی ویسے ہی کم ہے جب کہ کمرے میں رنگوں کا امتزاج بھی روشنی کو نگل رہا ہے۔ اس لمحے سکون ہے، ہر طرف جمود اور سکوت۔ ساونڈ پروف کھڑکی نے جیسے دنیا کے سب سے مصروف ترین شہر کے شور کو روک تو لیا ہے مگر ایک خفیف بھنبھناہٹ کی چادر کمرے میں تنی ہے۔ سوچتا ہوں، یہ کھڑکی عظیم ہے یا پھر یہ دیو مالائی شہر؟ چھوڑئے، میں نے فیصلہ کیا تھا کہ لکھتے وقت فلسفہ ہوگا نہ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا۔ بات کرتے ہیں۔

پاکستانیو، آپ سوچتے ہوں گے کہ مجھے یہ خط لکھنے کی، آپ سے مخاطب ہونے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ قصہ کچھ یوں کہ الیکشن نتائج کی رات جب میری فتح ثابت ہوئی، میں نے خود کو کچھ دیر غسل خانے میں بند کیا۔ اپنا خفیہ موبائل فون واش روم کے روشن دان سے اتارا اور تمام \”منقولہ وغیرمنقولہ\” دوستوں کو \”کیسا لگ رہا تھا؟ \” کا میسج \”سینڈ ٹو آل\” کر دیا۔ کافی دیر کسی نامراد کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا تو بوریت مٹانے کے لئے ٹویٹر ٹرینڈز چیک کرنے میں مصروف ہوگیا۔ میں نے آپ کے خیالات سے بھی آگاہی حاصل کی۔ مجھے معلوم ہوا کہ آپ میں سے اکثر امریکی قوم کی جانب سے میرے انتخاب کو نائن الیون کے مماثل قرار دے رہے ہیں۔ کچھ شاہدی اور محمودی قسم کے پاکستانی دوست اسے آثار قیامت قرار دے چکے ہیں۔ امریکی مسلمانوں کے مستقبل بارے عجیب و غریب پھیکے میٹھے سے چٹکلے بھی ماحول آلودہ کرتے نظر آئے۔ کسی نے امریکیوں کی اصلیت دنیا پر عیاں ہونے کی خوشی میں سب کچھ بجا ڈالا تھا تو کسی نے میرے اگلے خطرناک عزائم اس اصلی انداز میں درج کئے تھے کہ ایک بار تو مجھے اپنے آپ پر شک ہوا۔

امریکی میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کی شکست کے فتاویٰ تو یوں تھے جیسے کوئی مخصوص نسل کا \”ناک پھاڑ\” عطر لگا کر آپ سے زبردستی بغلگیر ہوگیا ہو۔ میرے بارے میں اتنی پریشانی؟ اتنا ہیجان؟ لاکھوں تجزیے فی سیکنڈ؟۔۔ میرا خط لکھنا بنتا تھا باس۔۔ تو میرے عزیزو۔۔ مجھے کوئی اعداد و شمار نہیں پیش کرنے صرف دل کی بات کرنا ہے۔ میں آپ کو صحیح بتاؤں کہ ابھی تو میں الیکشن جیتا ہوں، ایک بار تو مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا کہ میں جیت چکا ہوں مگر بیوی کا خوشگوار موڈ دیکھ کر یقین آگیا کہ میں ہی امریکا کا 45 واں صدر ہوں۔ بھائی میرے، میں ابھی تک ہواؤں میں ہوں۔ میں نے اکیلے میں شیشے کے سامنے کئی بار خود کو مسٹر پریذیڈنٹ کہہ کر چیک کیا ہے۔ میرے انگ میں کسی دولہنیا جیسے بجلی دوڑ جاتی ہے۔ میں شرما کر پھر کہہ دیتا ہوں۔۔۔ \” مسٹر پریذیڈنٹ؟ \” کئی بار دیوانہ وار ناچا ہوں۔ کئی بار خود کو مسٹر پریزیڈنٹ محسوس کیا ہے۔ امریکی عوام سے بطور صدر تخیلاتی خطاب کیا ہے۔ میں آپ کو بتاؤں، بہت مزہ آرہا ہے۔ یہ بھی بتا دوں کہ سرخ رنگ کا قالین پیٹی سے نکلوا کر ڈرائی کلین ہونے بھیجا ہوا ہے۔ جونہی آتا ہے میں اس پر چل کر ریڈ کارپٹ پر گارڈ آف آنر وصول کرنے کی پریکٹس بھی کروں گا۔ اور سنئے۔۔ میں کچھ دن قبل ہی اوباما کی دعوت پر وائٹ ہاوس گیا تھا۔ غالب خواہش کے باوجود میں صدارتی دفتر کی کرسی کو بیٹھ کر گول گول نہیں گھما سکا۔ فون کا رسیور کھینچ کر تڑ تڑ آرڈر دینے کی حسرت بھی تاحال حسرت ہے۔ میں وائٹ ہاوس کے لان میں لگی نرم گھاس پر ننگے پاؤں چل کر اس کی نمی کی ٹھنڈک سے اپنا دل ٹھنڈا نہیں کر سکا۔

اور سنئےاوباما نے پکا منہ بنا کر مجھ سے ٹیڑھا میڑھا ہاتھ ملایا،میں نے منہ لٹکا کر اوباما کو اچھا انسان کہا اس نے بھی محھے اچھے القابات نوازے۔ اور\” پھر چل دئے تم وہاں ہم یہاں\” ہوگیا۔ اب آپ بتایئے؟ اس سب میں پاکستان،9/11، قیامت، اور سب کچھ کہاں ہے؟ ان سب کے بارے میں سوچنے کا اور غلط غلط ہی سوچنے کا وقت کہاں ہے میرے پاس؟ میرے جلدباز پاکستانی دوستو؟ میں ابھی ابھی تو صدر منتخب ہوا ہوں بھائی! چارج سنبھالنے میں 2 ماہ قریب کا وقت ہے۔ کیوں میرے پر \”مستقبل بہت ہی دور\” کے الزام لگاتے ہو؟ پہلے جو پیش گوئیاں اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر کر رہے تھے وہ تو میں نے 24 گھنٹے میں الٹا دیں۔ اتنی دور کی کوڑی لاؤ گے تو پھر شرمندگی ہوگی (محسوس کرنے پر)۔ برائے مہربانی اس بات کو سمجھو کہ جس طرح تم سب کی اکثریت ہیلری کو امریکی صدر بنا کر سوئی تھی اورصبح تک امریکی عوام نے تمہارے خواب کے پرخچے اڑا دئے تھے، اسی طرح اب بھی میرے فعل تمھارے بس میں نہیں ہیں۔ بس مان لو میری بات! نہ کرو پیش گوئیاں۔ اگر کرنا ہی ہے کچھ تو کم ازکم الیکشن نتائج کا جائزہ لو، امریکی ریاستوں میں بسنے والی آبادی کی مختلف جہتوں کے بارے میں جان کر ہیلری اور میری الیکشن مہم کا کانٹنٹ انالسس کرو اور اگر وقت بچ جائے تو ڈیموکریٹس اور ریپبلکن ادوار کی پالیسیوں کا تقابلی جائزہ لے کر کچھ کہو کچھ سنو تو تمہیں بھی مزہ ہم بھی لطف اندوز؟ ورنہ کھپ مچاتے جاؤ پہلے کیا فرق پڑ گیا جو اب پڑ جائے گا؟ (جذبات میں آنے پر معافی کا طلبگار)۔ جاتے جاتے ایک اہم بات، وہ جن کو سگار جلانے کی ادا پر اپنا سٹار بنا رکھا ہے۔ میری جیت کے بعد، ایک ٹی وی انٹرویو میں فخر سے پھول کر بتا رہے تھے کہ ٹرمپ کو امریکا میں مجھ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ یہ اتنا پھول گئے اور واپس نہ سما سکے تو ان کے چاہنے والوں کا کیا ہوگا؟ اور وہ \”تبدیلی\” والی سرکار جو میری دیانت داری کو لے کر میرے فین ہیں؟ یہ قابل قبول ہیں تو میرے بارے میں بھی سوچئے؟ ورنہ میں ایک تصویر شاہ محمود کے ساتھ کھینچ کر جاری کر دیتا ہوں شاید افاقہ ہو؟

فقط

ٹرمپ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments