میاں بیوی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے؟


\"syed

ہمارے نوجوان پڑوسی بابر میاں کو اکثر گھریلو ناچاقی کے واقعات سے دوچار رہناپڑتا ہے۔ اس دفعہ بھی متفکر دکھائی دیے۔ ادھر اُدھر کی تمہیدی گفتگو کے بعد آخر ہم پوچھ ہی بیٹھے۔ بابرمیاں کیا بات ہے۔ منہ کیوں لٹکا ہوا ہے۔ سوال سن کرسر جھکا لیا اور دھیمی آواز میں بولے۔ اب آپ اتنے بھولے بھی نہیں ہیں کہ وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ جواب سے ظاہر ہوتا تھاکہ وہ مزید گفتگو کے لئے آمادہ ہیں۔ ہم نے بلا تردد پوچھا۔ اب کیا ہوگیا۔ بولے ہونا کیا تھا۔ بیگم نے کہا۔ میرے بھائی کی شادی قریب ہے اور تیاری ہے کہ کسی طور مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ آج دفتر سے جلدی آجائیے گا۔ مجھے شاپنگ کے لیے جانا ہے۔ اس دفعہ تو ساری خریداری مکمل کرکے ہی آؤں گی۔ ہم نے حسب معمول ہاں کی اور کہا کہ 3 بجے تک دفتر سے جلدی چھٹی لے کر آجائیں گے۔ تیار رہنا۔

گھر سے کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ ٹائر پنکچر ہو گیا۔ سامنے نظر پڑی تو دیکھا۔ پنکچر لگانے والی کی دکا ن ہے۔ ٹائر پنکچر لگانے والے کے حوالے کیا۔ اس نے چیک کرکے بتایا صاحب جی دو پنکچر ہیں۔ ہم نے کہا و ہ تو ٹھیک ہے لیکن ٹائر زیادہ پرانے تو ہیں نہیں۔ یہ پنکچر کیسے ہوگئے۔ پنکچر والا بولا۔ صاحب جی۔ اسٹیل کی کیل نیا پرانا نہیں دیکھتی۔ ٹائر کے نیچے آئی اور ! پنکچر والے کی بات سن کر ہم سمجھ گئے کہ پنکچر اس جگہ پہنچ کر ہی کیوں ہوا۔

بحث کاوقت نہیں تھادفتر کو ویسے ہی دیر ہورہی تھی لہٰذا بس معاشرے میں پائی جانے والی مفاد پرستی کو کوستے ہوئے۔ دفتر جا پہنچے۔ دفتری کام میں مشغول ہی ہوئے تھے کہ ایک ساتھی نے خبر دی کہ آج باس نہیں آئیں گے۔ ان کے کسی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے۔ پیغام ہے کہ بابر صاحب سے کہنا۔ دفتر کے سارے کام مکمل کرکے گھر جائیں۔ مرتے کیا نہ کرتے۔ سارے دفتری امور جلد از جلد نمٹائے۔ اب گھڑی پر جو نظر پڑی تو دیکھا گھڑی چار بجا رہی ہے۔ یہ دیکھتے ہی ہمارے چہرے پر بارہ بجنے لگے کیونکہ بیگم سے تو 3 بجے گھر پہنچنے کا وعدہ تھا۔ بھاگم بھاگ گھر پہنچے۔ بچوں سے بیگم کے بارے میں پوچھا تو بچوں نے کمرے کی طرف اشارہ کردیا۔ ہم کو اندازہ ہوگیا کہ دروازے کے دوسری طرف ہم پر قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ ڈرے ڈرتے آہستگی سے دروازہ کھولا۔

بیگم کی طرف دیکھا تو وہ سونے کی ناکام اداکاری کررہی تھیں۔ ہم فورا غسل خانے میں گھس گئے۔ نہا دھو کر۔ کپڑے تبدیل کرکے۔ تمام ترتوجہ بیگم کی طرف مرکوز کرکے مخاطب ہوئے اور دن بھر کی رودا د حرف بحرف سنادی۔ معزرت کی اور کہا کہ ہم تیار ہیں چلنا چاہیں تو نکل پڑتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے پیٹ میں چوہوں کی دوڑ کے مقابلے کا آغاز ہوچکا تھالیکن خلاف معمول۔ بیگم نے ہماری روداد سن کرکسی ردّعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ منہ دوسری طرف موڑ کر لیٹ گئیں اور اب تک ہم سے بات چیت منقطع ہے۔ بہت منانے کی کوشش کی۔ جیسا کہ تمام خاوند کرتے ہیں لیکن مزاج ہے کہ مسلسل بگڑا ہوا ہے ان حالات میں منہ نہیں لٹکے گا تو کیا !

ہم نے بابر میاں کی تمام روداد سننے کہ بعدکہا واقعی معاملہ تو کافی سنجیدہ نوعیت کاہے۔ ’’ کیونکہ بیگم کی ہر کیفیت کو سنجیدگی سے لینا ہی کامیاب ازدواجی زندگی کا راز ہے۔ ‘‘ ہمارا مشورہ یہی تھا۔ منانے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھو کیونکہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں ان میں موافقت کا فقدان ہو تو ازدواجی زندگی کی گاڑی چلنا مشکل ہوجاتاہے۔ مشورہ سن کر بابر میاں نے کہا۔ کس نے کہا کہ ا زدواجی زندگی کی گاڑی کے د و پہیے ہوتے ہیں۔ بھائی گاڑی کے تو چار پہیے ہوتے ہیں۔ ہاں سائیکل کے بے شک دو پہیے ہوتے ہیں۔ ہم لاجواب ہوگئے لیکن فورا ہی ہمارے ذہن میں سوال آیا اور ہم نے پوچھا۔ بابر میاں آپ کی گاڑی کے مزید دو پہہیے کون ہیں۔ بابر میاں ہمیشہ کی طرح فوری جواب کے لیے تیار تھے۔ بولے ایک پہیہ ہمارے گھر والے ہیں اور ایک ہماری بیگم کے گھر والے۔ اسٹپنی کا کام آپ جیسے لوگ انجام دیتے ہیں۔

بابر میاں کی منطق کچھ کچھ ہماری سمجھ میں آنے لگی تھی اس لیے ہم نے پوچھا۔ آپ میاں بیوی گاڑی کے اگلے پہیے ہیں یا پچھلے۔ کیونکہ کچھ گاڑٰیاں تو پچھلے پہیوں کی اور کچھ اگلے پہیوں کی مدد سے چلتی ہیں۔ بابر میاں نے ہماری یہ بات سن کر خفگی کا اظہار کیا اور کہا۔ کیا آپ ہم میاں بیوی کو اپنی طرح پرانے ماڈل کا سمجھتے ہیں۔ بھائی صاحب پرانے ماڈل کی گاڑیاں پچھلے پہیوں پر سفر کرتی ہیں۔ آج کل کے زمانے کی گاڑیاں تو اگلے پہیوں پر ہی سفر کرتی ہیں۔ یہ بات سن کر ہم نے کہا۔ میاں جب آپ میاں بیوی اگلے پہیے ہیں تو گاڑی آپ دونوں کی مرضی سے ہی چلنی چاہیے۔ چاہے سیدھے جائیں یا دائیں بائیں۔

کہنے لگے آپ کو تو پتہ ہے۔ ٹائر پنکچر بھی ہوتے رہتے ہیں اوربعض شریر لوگ تو ہوا بھی نکال دیتے ہیں۔ اب ایسی صورتحال میں گاڑی چلتی تو ہے لیکن اٹک اٹک کر! ہم نے کہا۔ پھر آپ میاں۔ بیوی خود خیال رکھیں کہ کوئی شرارت نہ کرے۔ بولے ہم میاں بیوی تو اپنے تئیں یہی کوشش کرتے ہیں کہ زندگی کا سفر پر سکون طریقے سے طے ہوتا رہے لیکن سفر میں رکاوٹ اکثر و بیشتر پچھلے ٹائروں کی وجہ سے آرہی ہے۔ اب کل کے ہی واقعے کو لے لیں۔ ہم میاں بیوی معاملے کو کسی طور خود ہی سلجھا لیتے لیکن ہوا یہ کہ ہماری ساس صاحبہ کا فون آیا اور انہوں نے پوچھا بیٹی شاپنگ کیسی چل رہی ہے۔ بیگم تو تھیں ہی غصّے میں۔ انہوں نے شاپنگ پر نہ جانے کی وجہ بتائی اور کہا خاک شاپنگ میں تو ہانڈی بھوننے جارہی ہوں۔ سوچا تھا۔ رات کا کھانا باہر کھالیں گے لیکن میری ایسی قسمت کہاں۔ !ساس صاحبہ نے فرمایا۔ یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ بابر تو ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہے۔ آج تک تو کبھی وقت پر آیا نہیں۔ سنا بھائی صاحب یہ پھلجھڑی تو بیگم کی والدہ محترمہ کی طرف سے چھوڑی گئی۔

دوسری پھلجھڑی اس طرح چُھوٹی کہ جب ہماری والدہ محترمہ نے بیگم کا مزاج خراب دیکھ کر غصّے کی وجہ پوچھی جو بیگم نے بلا تردد بتادی۔ والدہ صاحبہ نے ہماری سرزنش کرتے ہوئے کہا بابر یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا۔ اس موقعے پر ہماری بیگم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں نظر آئی۔ ہم نے فورا دیر سے پہنچنے کی وجہ بتادی تو ہماری والدہ محترمہ نے فرمایا۔ میں یہی سوچ رہی تھی بابر کبھی ایسا کرتا تو نہیں ہے۔ ضرور کوئی وجہ رہی ہوگی جو میرا بیٹا وقت پر نہ پہنچ سکا۔ بہو بس کرو اب بہت ہوگیا غصّہ۔ اب بیگم کا غصّہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا۔

آپ بتائیں اس صورتحال میں۔ میں کروں تو کیا کروں؟ ہم نے بابر میاں کے گھریلو تنازعے کی پوری روداد سنی توبس کف افسوس ہی ملتے رہ گئے اور سوچا۔ واقعی اس طرح کے مسائل ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ جہاں قریبی رشتہ داروں اور دیگر افراد کی بے جا مداخلت اور مشوروں سے میاں بیوی کا رشتہ مزیدکمزور ہوجاتا ہے یا بالکل ختم ہوجاتا ہے اور یہ اسی صورت میں ہوتا ہے کہ جب میاں بیوی اپنے گھریلو جھگڑے اور ازدواجی مسائل خود حل کرنے کی بجائے۔ اپنے معتمد دوستوں اور عزیز و اقرباء کو بتاتے ہیں۔ اس سے مسائل حل ہونے کی امید کم ہوتی ہے بلکہ مشاہدہ یہی کہ مسائل مزید گمبھیر صورت اختیار کرجاتے ہیں لہٰذا تمام شادی شدہ مردو خواتین کو چاہیے کہ اپنے گھریلو جھگڑے اور ازدواجی مسائل۔ آپس میں بیٹھ کر خود حل کریں اور کسی اورشخص کو۔ اپنی شادی شدہ زندگی میں مداخلت کا موقع نہ دیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments