آصف فرخی: کیا آدمی تھے وہ، کیسے چلے گئے!


”آپ وہیں ٹھہریں میں فوراً ہی آ رہا ہوں۔“ سجاد نے کہا تھا۔ میں نے اسی وقت عرفان خان کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ آصف دنیا سے چلے گئے ہیں۔ انہیں بھی یقین نہیں آیا تھا، کیسے آتا ان سے ان کی روز ہی بات ہو رہی تھی۔ انہوں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ وہ طارق فضلی کو فون کر کے انہیں رب میڈیکل سینٹر پہنچنے کو کہیں، میں اور سجاد یہاں سے نکل رہے ہیں۔

میں نے پھر سلمان کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ وہ لوگ رب سینٹر کے بجائے صمدانی ہسپتال آ گئے ہیں اور یہاں پر ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ آصف صاحب کا انتقال ہوچکا ہے۔

میں دوبارہ سے سن سا ہوگیا تھا۔ ”اچھا سلمان ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنواؤ اور بتاؤ کہ اب کیا کرنا ہے؟“ میں نے پوچھا تھا۔

”کیا کرنا چاہیے؟“ اس نے پوچھا تھا۔ ”کیا لاش کو گھر لے جائیں؟“
”طارق کیا کہہ رہے ہیں؟“ میں نے سوال کیا تھا۔
”ان کی تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔“ سلمان نے جواب دیا تھا۔

”میرا خیال ہے انہیں قریب ہی سہراب گوٹھ پر ایدھی سینٹر میں لے چلتے ہیں۔ غسل دے کر برف خانے میں رکھوا دیتے ہیں پھر فیصلہ کرلیتے ہیں کہ کب دفن کرنا ہے۔ ان کی بیٹیوں کا پتہ کرنا ہوگا، وہ آ سکیں گی کہ نہیں؟“ میں نے کہا تھا۔

”ٹھیک ہے، کیا آپ ایدھی سینٹر کا انتظام کردیں گے۔“ سلمان نے پوچھا تھا۔
”میں ایدھی والوں سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔“ میں نے جواب دیا تھا۔

ٹاور پر ایدھی سینٹر کے بلال کو فون کیا تو بلال نے فوراً ہی ایمبولینس کا انتظام کر دیا تھا اور کہا تھا کہ آدھے گھنٹے میں ایمبولینس پہنچ جائے گی اور لاش سہراب گوٹھ پر نہلا کر سرد خانے میں رکھ دیں گے جب تک آپ لوگ فیصلہ کر لیجیے گا۔

بلال نے آواز دے کر فیصل ایدھی کو بتایا کہ آصف اسلم انتقال کر گئے ہیں۔ فیصل نے فون لے کر پوچھا تھا ”کیا یونیسیف والے آصف اسلم انتقال کر گئے ہیں۔“ میں نے آہستہ سے کہا تھا ”ہاں۔“

ساتھ ہی میرے دوسرے فون پر وائبریشن شروع ہو گئی تھی۔ دوسری طرف طارق فضلی تھے جو کہہ رہے تھے کہ ”رب میڈیکل سینٹر پر تو کوئی نہیں ہے۔“

”آپ صمدانی اسپتال چلے جائیں وہ سب وہاں ہیں۔ میں اور سجاد بھی آرہے ہیں۔ طارق اور سلمان وہاں اکیلے ہیں انہیں مدد کی ضرورت ہوگی، ایدھی ایمبولینس پہنچ رہی ہے لاش کو لے جانے کے لیے۔“ میں نے جواب دیا تھا۔

بندر روڈ پرانی سبزی منڈی سے گلشن اقبال میں صمدانی ہسپتال پہنچنے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ لگ گیا تھا، گاڑی سے ہی میں نے کراچی یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر صدف احمد کو فون کر کے کہا کہ فیس بک پر آصف کی بیٹیوں کو ایک پیغام ان کی موت کا لکھ دیں، اس سے پہلے کہ ان کی بیٹیوں کو کسی اور جگہ سے پتہ لگے۔ ایک بیٹی ہانگ کانگ میں تھی اور دوسری سنگاپور میں، نہ جانے کیا قیامت گزرے گی۔ میں نے سوچا تھا۔

صمدانی ہسپتال پہنچنے تک یادوں اور ان کی باتوں کی گھٹا سے اندھا دھند بارش ہو رہی تھی۔ کیا نہیں تھے وہ، اچھے دوست، بچوں میں بچوں کی طرح گھل مل جاتے۔ بزرگ انہیں تلاش کر کر کے ملتے تھے۔ ادیبوں، فنکاروں، شاعروں میں مقبول۔ حبیب یونیورسٹی کے طلبا و طالبات شہد کی مکھی کی طرح ان کا طواف کرتے تھے۔ نقاد ایسے کہ قلم کی نوک تلوار بھی بن جائے اور گلاب بھی۔ نثر لکھیں تو ایسی کہ پڑھنے والا مدہوش ہو جائے۔ تاریخ پر ان کی نظر، اولیا ، صوفیوں اور پڑھے لکھوں کی تلاش میں ہر وقت رہتے۔ مراکش میں کسی صوفی کی محفل میں، کھٹمنڈو میں مندر کے اندر پنڈت کے ساتھ، کیلاش میں کافروں سے گپ شپ، نیویارک، لندن، جرمنی اور سوئیڈن کی ادبی نشستوں کے مہمان، اردو اور انگلش دونوں میں یکتا۔ سندھی زبان کی روایتوں کے مداح، سرائیکی شیرینی کو سمجھنے والے۔

ترجمے سے لے کر افسانہ جو لکھیں وہ موتی کی طرح۔ نطشے اور کارل مارکس سے اگادانتے کی دیوانگی سے واقف سلویا پلاتھ، ڈاورن ولیمز کی خودکشی کے پس منظر کا علم، عمر میمن، اقبال احمد اور نجیب محفوظ کیا کر رہے ہیں، جامعہ ملیہ دہلی میں کیا ہورہا ہے، کلکتہ یونیورسٹی میں اردو کا شاعر کون ہے، انگریزی ادب پر گہری نظر، نیویارک اور گرانٹا میں کیا چھپ رہا ہے، کینیڈا میں کس خاتون کو ادب کا نوبل پرائز ملا ہے۔ بالی ووڈ، ایران، مصر، چیکو سلواکیہ کی فلموں سے لے کر لندن اور ہائی ووڈ کی فلموں پر نظر۔

کتابیں تو وہ اس طرح سے پڑھتے تھے جیسے بھوکے پرندے دانا چگتے ہیں کسی کی ذاتی لائبریری میں اتنی زیادہ اور نایاب ترین کتابیں ان کے گھر پر دیکھیں جن میں سے بیشتر انہوں نے پڑھی ہوئی تھیں۔ پاکستانی فنکاروں کی قیمتی پینٹنگ کا ذخیرہ ان کے پاس تھا۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے ملانا ضرورت پر کام آنا انہیں ہی آتا تھا۔ علم و ادب کی محفل سے نکلیں تو یونی سیف کے آصف کہلائیں، پبلک ہیلتھ، عورتوں اور بچوں کی صحت پر ایسا کام کے دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں کئی مڈوائفری کے اسکولوں کو کھلوانے میں ان کا کردار رہا۔ کیا آدمی تھے وہ! سوچ کہیں پر رک نہیں رہی تھی۔

دروازہ در دروازہ وہی موجود تھے کہ صمدانی ہسپتال آ گیا تھا۔ وہاں سے پتہ چلا کہ ایدھی ایمبولینس لاش کو لے کر سہراب گوٹھ پر ایدھی سینٹر پہنچ گئی ہے۔ صمدانی ہسپتال سے ایدھی سینٹر کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ ہم دونوں پندرہ منٹ میں ایدھی سینٹر پہنچ گئے تھے۔ سلمان اور طارق باہر ہی کھڑے تھے کہ اندر سے آواز آئی کہ لاش تیار ہے۔ میں طارق کے ساتھ اندر چلا گیا تھا۔

آصف صاحب صاف ستھرے سفید براق کفن میں لپٹے لپٹائے سرد خانے میں جانے کو تیار تھے۔

1979 میں اکتالیس سال پہلے جب میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں آخری سال کا طالب علم تھا تو آصف سے کالج کینٹین میں کونے والی کھڑکی کے ساتھ والی میز پر ملاقات ہوئی تھی۔ کھلا کھلا مسکراتا ہوا چہرہ انتہائی چمکدار شرارت سے بھری ہوئی ذہین آنکھیں۔ کراچی تعلیمی بورڈ میں اول آنے کے بعد ان کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوا تھا۔ مجھے بحیثیت سینئر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے رکن کی حیثیت سے ان سے ملایا گیا تھا۔

ان سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ مسکراتا ہوا وہ چہرہ، وہ پیشانی، وہ چمکدار ذہین آنکھیں میری نظر کے سامنے آ گئی تھیں۔

وہ بہت خوبصورت، جاذب نظر اور پرکشش انسان تھے۔ میں نے انہیں ہمیشہ جمگھٹوں کے مرکز میں ہی دیکھا ہے، قاہرہ سے انڈونیشیا کے جزیرے اڈنگ بڈانگ تک۔ چند گھنٹوں میں وہ آصف سے آصف مرحوم ہو گئے۔ ان کی لاش میری نظروں کے سامنے سے سرد خانے میں کئی اور لاشوں میں گم ہو گئی تھی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments