مناسب نظام معیشت کیا ہے؟


\"mujahid

چند روز پیشتر تحقیق کے بعد بتایا گیا ہے کہ دنیا کی 0004۔ 0 فیصد آبادی تین سو کھرب ڈالر کے مساوی دولت کی مالک ہے۔ اگر دنیا کی آبادی چھ ارب افراد فرض کر لی جائے، جس میں بچے بھی ہیں، ازکار رفتہ بزرگ بھی۔ گھریلو خواتین بھی ہیں، معذور افراد بھی۔ قید گھروں میں محبوس بے کار افراد بھی ہیں اور بے گھر و بے روزگار افراد بھی۔ ان سب کا ایک فیصد ساٹھ لاکھ افراد ہوں گے۔ 01۔ 0 فیصد چھ لاکھ ہوں گے۔ 001۔ 0ساٹھ ہزار ہوں گے۔ 0001۔ 0 چھ ہزار ہوں گے اور 0004۔ 0 فیصد چوبیس ہزار افراد ہوں گے۔

اب آتے ہیں 300 کھرب ڈالر کی جانب۔ یہ تیس ہزار ارب ڈالر بنتے ہیں جو تیس لاکھ کروڑ ڈالر ہیں۔ ایک کروڑ ڈالر ایک ارب روپے ہوتے ہیں۔ اگر ایک عام شخص کا محنتانہ دس ہزار روپے ماہانہ ہو تو یہ ایک لاکھ افراد کی ایک ماہ کی تنخواہ ہے۔ یوں اگر ان چوبیس ہزار افراد کے پاس فرض کر لیں کہ برابر کی دولت ہے تو ان میں سے ہر ایک کے پاس ڈیڑھ کروڑ مزدوروں کی ایک ماہ کی تنخواہ جمع ہے۔ اس طرح فرضی طور پر دنیا کے تمام لوگ ایک ماہ کی تنخواہ سے محروم ہوئے جن میں وہ سب لوگ شامل تھے جو کما نہیں رہے اور یہ چوبیس ہزار امراء خود بھی۔ یعنی ایک ماہ کے لیے نہ سہی تو دس سے بیس دنوں کے لیے سب لوگ ماسوائے ان چوبیس ہزار کے اگر باقی سب دہاڑی دار مزدور فرض کر لیے جائیں تو کھانے سے محروم ہو گئے۔ اس فرضی مثال میں کیا کوئی بتا سکے گا کہ دس سے بیس روز کی خالص بھوک سے کتنے آدمی زندہ بچ پائیں گے؟

یہ سب لوگ اس لیے نہیں مرتے کہ ان کے لیے پوری دنیا کی دولت کا ایک تہائی استعمال کیا جاتا تاکہ وہ مریں نہ اور کام کرتے رہیں۔ کچھ خود کو متموّل سمجھتے رہیں۔ کچھ کھاتا پیتا سمجھتے رہیں۔ کچھ خود کو سفید پوش جان کر خاموش رہیں۔ ایک بہت بڑا حصہ غربت میں پستا رہے اور چپ رہے۔ بہت زیادہ لوگ ایک سے تین دن کے فاقے کاٹتے رہیں اور قسمت سمجھ کر آنسو بہاتے رہیں۔
دنیا میں معیشت کے دو نظام ہیں۔ ایک کو سرمایہ دارانہ نظام معیشت کہا جاتا ہے اور دوسرے کو اشتراکی نظام معیشت۔ سرمایہ داری کا دعوٰی ہے کہ وہ نیچے سے اوپر تک سبھوں کے لیے ان کی صلاحیت، پیشہ ورانہ علم، ذہانت اور استعداد کے مطابق روزگار کے مواقع مہیا کرتی ہے۔ روزگار فراہم کرنے والے ذہین ہونے سے بڑھ کر فطین ہیں۔ اس لیے ان کا حق ہے کہ سب کی آمدنیوں میں سے مناسب حصہ اپنے لیے رکھیں کیونکہ انہوں نے وسائل کی فراہمی کے لیے سرمایہ لگایا ہے۔ درحقیقت جو سرمایہ لگانے کی دعوے داری کی جاتی ہے وہ بھی بینکوں سے لیا گیا سرمایہ ہوتا ہے۔ بینکوں میں جمع سرمایہ انہیں لوگوں کی جمع کردہ پونجی ہوتی ہے جو اس نطام کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں روزگار فراہم کرنے والے یعنی سرمایہ دار اور حکومت، جو سرمایہ داروں کی ہی ہوتی ہے، منافع اور محصولات کی شکل میں ہر ماہ یا ہر سال ویسے ہی لے لیتے ہیں۔

دوسرا نظام معیشت اشتراکی ہے جس میں تمام لوگوں کی محنت کا اجر حکومت کے پاس چلا جاتا ہے، جس میں سے ایک حصہ وہ ماہوار اجر کے طور پر کام کرنے والوں کو دے دیتی ہے۔ باقی سے وہ سبھوں کے لیے مساوی سہولتیں بشکل مکان، شہری خدمات بجلی، پانی، تعلیم، صحت وغیرہ، پیدا کرتی ہے۔ بینک لوگوں کی بچت کے لیے ہوتے ہیں، جو اول تو قرض دیتے نہیں اگر دیتے ہیں تو وہ حکومت کو ہی دیتے ہیں جو قرض کی بجائے عارضی اعانت تصور ہوگا۔ دیکھنے میں یہ نظام بہت انسانی لگتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں انسانی خواہشات کو کھلی چھوٹ حاصل ہوتی ہے اور انسانی خواہشات کو بڑھانے کی خاطر پرچار کی بھی کھلی آزادی ہوتی ہے۔ بنیادی سہولیات جیسے صحت و تعلیم معاوضہ دے کر حاصل کرنی ہوتی ہے۔ تنوع کی عام اجازت ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں کا معیار مختلف ہو سکتا ہے اور معاوضہ بھی، چنانچہ خواہشات کی تکمیل کی خاطر حصول دولت کے لیے تمام جائز و ناجائز طریقے اختیار کر لیے جاتے ہیں۔

آج جن ملکوں میں ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ نظام وجود رکھتا ہے۔ وہاں کے شہریوں نے سماجی شعور کی بلندی کے تحت مسلسل جدوجہد کے ذریعے، حکومت کو اس سطح پہ پہنچا دیا ہے جس سطح پر آبادی کے بہت بڑے حصے کی فکر اور خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس جن ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام ترقی کی ابتدائی اور وسطی سطوح پر ہیں وہاں حکومتیں خالصتا“ سرمایہ داروں یا مراعات یافتہ لوگوں کے مفادات کو عام لوگوں کے مفادات پر ترجیح دیتی ہیں۔ اس وجہ سے نابرابری جنم لیتی ہے۔

اشتراکی نظام معیشت میں مسابقت نہیں ہوتی۔ تنوع سے گریز کیا جاتا ہے۔ انسانی خواہشات کے بے لگام ہونے کا خیال رکھے بغیر، انہیں یکسر معدوم تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اشتراکی نطام کی افسر شاہی، اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ”کچھ زیادہ ہی برابر“ ہوتی جاتی ہے۔ عوام کو بہت زیادہ سبسڈیز دیے جانے سے جہاں حکومت کے خزانے پر بوجھ پڑتا ہے وہاں اتنی تنخواہ ملنے کے یقین کے ساتھ جس کی بنیاد پر زندہ رہا جا سکے، انسان کام کرنے سے گریزاں ہونے لگتا ہے۔ تنوع کی عدم موجودگی سے اکتاہٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔ اکتاہٹ سے احتجاج کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ احتجاج کے لیے اختلاف کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن اس معاشی نظام کی بقا کے لیے موجود حکومت اختلاف برداشت نہیں کر سکتی اور اختلاف کرنے والے لوگوں پر، انہیں اشتراکیت مخالف کہہ کر جبر روا رکھنے لگ جاتی ہے۔ بالآخر لوگوں میں ایسے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جو سرمایہ دار مسابقت خواہ نظام کے پروردگان کی مدد سے اس نظام معیشت کے تحت قائم حکومت کا تختہ الٹنے کی سعی کرنے لگتے ہیں اور اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔

تو پھر وہ کونسا نظام معیشت ہے جو بہت زیادہ انسانی ہو اور بہت زیادہ انسان دوست۔ اول تو ایسا کوئی نظام ہے ہی نہیں، دوسرے یہ کہ اگر مذہبی بنیاد پر قائم کسی معاشی نظام کے انسان دوست ہونے کا دعوٰی کیا بھی جائے تو وہ اس لیے غلط ہوگا کہ مذاہب نے اس ہی معیشت اور معاشی حالات کو درست کرنا مقصد بنایا تھا جو کسی خاص مذہب کے وجود میں آنے اور فروغ پانے کے وقت تک موجود تھے۔ صنعتی انقلاب کے بعد کی معیشت اور معاشی حالات تب تھے ہی نہیں تو ایسی معیشت اور معاشی حالات کو درست کیے جانے کی بات کیسے کی جا سکتی تھی؟ بہر حال بہتر یہی ہو اگر ان تمام معاشی نظاموں کے بہتر حصوں کو لے کر ایک مخلوط معاشی نظام وجود میں لایا جائے۔ اس کی ایک مثال تو یورپ اور خاص طور پر سکنڈے نیویا کی فلاحی ریاستوں میں پیش کی جا چکی ہے جہاں سرمایہ دارانہ نطام میں اشتراکی نظام کے انسانی پہلووں کو ضم کر دیا گیا ہے۔ دوسری مثال سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کی ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام میں اسلامی اعمال کی بہتریوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ تاہم ان دونوں سے بہتر وہ نظام معیشت ہوگا جس میں انسان کو انسان بننے کا حق دیا جائے اور اس پر اشتراکیت، بادشاہت یا کسی اور قسم کا جبر نہ ٹھونسا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments