سزائے موت پانے والی معصوم امریکی ایان علی


\"husnain

وہ ایک قاتل تھی یا نہیں، اس پر بہت بحث ہوئی، پورے پورے اخبار اس کے مقدمے کے لیے وقف ہوا کرتے تھے، پریس کوریج عین اس طرح ہوتی جیسے شاید دوسری عالمی جنگ کی ہوئی ہو گی۔ وہ پیشہ ور چور تھی۔ سیکس ورکر تھی، معمولی چوری چکاری، دھوکہ دہی اور فراڈ میں ملوث رہتی تھی۔ جیل کی سیر اسی چکر میں کئی بار کی۔ پھر یہ ہوا کہ اس نے اس دھندے سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا اور شادی کی ٹھانی۔ شادی وہ تین مرتبہ پہلے بھی کر چکی تھی لیکن ناکام رہی تھی، اس بار بھی کر تو لی مگر انتخاب غلط نکلا۔ اس کا یہ شوہر منشیات کا عادی تھا، روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر اس نے فیصلہ کر لیا کہ دوبارہ اپنی پرانی زندگی کی طرف لوٹ جائے۔ اس دوران وہ ایک بچے کی ماں بھی بن چکی تھی لیکن ایسی روزی روٹی کے چکر میں بچہ ساتھ ساتھ لیے کہاں گھوم سکتی تھی۔ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ بچہ اپنی نانی کے رہے گا اور وہ دوبارہ چوری چکاری یا دوسرے دھندوں کی راہ پکڑ لے گی۔ بچے کو چھوڑا اور خود بھٹکنے لگی۔

\"barbara-graham-4\"

اس دوران اس کا رابطہ اپنے دو پرانے ساتھیوں سے ہو گیا، ابھی انہوں نے کوئی لمبا ہاتھ مارنے کا سوچا ہی تھا کہ وہ ان کے ساتھ قتل کے الزام میں گرفتار ہو گئی۔ پرانے ساتھیوں کا خیال تھا کہ مخبری اس نے کی ہے اور ان کی گرفتاری میں اس کا ہاتھ بھی ہے اس لیے انہوں نے اس کے خلاف بھی گواہی دے دی۔ یوں وہ قتل کے مقدمے میں پوری طرح پھنس چکی تھی۔

پریس کے ساتھ اس کا پہلا سامنا تب ہوا جب سرنڈر کر کے ان تینوں نے باہر آنا تھا۔ جس جگہ وہ موجود تھے، وہاں کا گھیراؤ ہو چکا تھا، پولیس سے زیادہ کیمرہ مین اور رپورٹر تھے، لوگ تفریح کے لیے جمع تھے، جیسے ہمارے یہاں ہوتے ہیں، دونوں مرد جب ہاتھ اٹھائے باہر آتے ہیں تو کچھ زیادہ ہلچل نہیں مچتی، جیسے ہی وہ آئی تو جھما جھم فلیش لائٹیں چمکنے لگیں، رپورٹر اس کے گرد جمع ہو گئے، بہت مشکل سے پولیس اسے نکال کر ساتھ لے گئی۔

اب مقدمے کی کارروائی چلنے لگی، وہ سیدھے منہ پریس سے بات نہیں کرتی تھی، کرتی بھی کیسے، سوال ہی اس قسم کے پوچھے جاتے کہ، اب آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں؟ آپ بچے کے بغیر ہیں، وہ کس کے پاس رہ رہا ہے؟ آپ کو بچہ یاد نہیں آتا؟ اور یوں اسے ”Bloody Babs“ کا خطاب حاصل ہوا۔ اس کا نام باربرا گراہم تھا، یہ امریکہ تھا اور 1953 چل رہا تھا۔

\"barbara-graham-1\"

میڈیا کے لیے یہ ایک شاندار کیس تھا۔ اسے برفیلی بلونڈ، پتھر دل حسینہ اور نہ جانے کون کون سے دوسرے نام دیے گئے۔ یہ کیس لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا اور رنگی برنگی خبریں آئے روز اخباروں کی زینت بن رہی تھیں۔ نوے کی دہائی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق گراہم کے معاملے میں لاس اینجلس کے پانچ بڑے اخبار معروضیت کھو چکے تھے۔ پانچوں کے پانچوں اخبارات کا زور اس کے لباس، اس کی ذاتی زندگی اس کے جسم اور دیگر غیر ضروری تفصیلات پر رہتا تھا۔ مقدمے کی کارروائی کو ایک طرف رکھ کر ان کی ذاتی کوشش یہی ہوتی تھی کہ ہر خبر اس طرح لگائی جائے جس سے بلڈی بابس قاتل ثابت ہوتی ہو۔ شام کے اخبارات میں اس کی بڑی بڑی تصاویر لگائی جاتیں جب کہ باقی دو مجرموں کو بالکل بھلا دیا گیا تھا۔ اس کا پرکشش چہرہ اور جسم سب سے بڑی خبر بن چکے تھے۔ خبروں میں اس چیز کی تفصیل بیان کی جاتی کہ وہ انگڑائی کیسے لیتی ہے، کس طرح وہ مقدمے کے دوران اپنے نیل پالش لگے ناخنوں سے کھیلتی رہتی ہے، اس کے بالوں کا رنگ کیا ہے اور اس رنگ کے بالوں والی خواتین کا کردار کیسا ہوتا ہے، اس کی ٹانگیں کیسی پرکشش ہیں اور دیگر اداؤں کی تفصیلات کیا ہیں۔ یہ بات بھی کمال ہے کہ باقی دو مردوں کا چہرہ، بال، جسم، کپڑے، حرکات، رویہ کیسا تھا، اس بارے میں ہمیں کوئی خبر دکھائی نہیں دیتی۔

\"barbara-graham-5\"

پھر اسے موت کی سزا ہو گئی۔ وہ تیسری امریکی عورت تھی جسے گیس چیمبر میں موت کا سامنا کرنا تھا۔ جیل میں بھی پریس نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

اس کے بچے کی تصویریں اخبار میں چھپنی شروع ہو گئیں، بچے کو ملاقات کے لیے لایا جاتا تو پریس والے وہاں بھی موجود ہوتے۔ وہ لوگ ایسے چبھتے ہوئے سوال کرتے کہ برفیلی بلونڈ پاگل ہونے کے قریب ہو جاتی۔ وہ ڈیتھ سیل میں تھی، اس نے اپیل کی اور اس بات کو بنیاد بنایا کہ میڈیا کوریج متعصبانہ تھی اور اس کے حق میں نہیں تھی۔ اپیل خارج کر دی گئی۔ اس نے دوبارہ درخواست کی کہ اس کا کیس باقی دو مجرموں سے الگ رکھ کر دوبارہ دیکھا جائے کیوں کے اس کے دعوے کے مطابق وہ وہاں موجود ہی نہیں تھی، لیکن کوئی گواہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی خارج کر دی گئی۔ 3 جون 1955 کو صبح دس بجے اسے گیس چیمبر میں موت کی سزا دی جانا تھی لیکن یہ معاملہ دو بار ملتوی ہوا۔ پہلے گورنر آفس سے حکم آیا کہ اپیل کا جائزہ لیا جا رہا ہے، پھر وہ خارج کر دی گئی اور وقت 10:30 مقرر ہوا۔ پھر ایک گھنٹہ مزید بڑھایا گیا اور بالاخر ساڑھے گیارہ بجے کا وقت مقرر ہوا۔ اس کے اعصاب چٹخ چکے تھے، میڈیا میں خبر لگی، ”یہ مجھ پر ذہنی تشدد کیوں کر رہے ہیں، میں دس بجے بھی مرنے کو تیار تھی“۔

\"barbara-graham-3\"

اس کی موت کے وقت وہاں سولہ رپورٹر موجود تھے۔ اس نے آنکھوں پر پٹی چڑھانے کی درخواست کی تاکہ کسی تماشبین کی شکل اسے نظر نہ آئے۔ خبریں لگیں، ” بتیس سالہ قاتل حسینہ کے بال اس وقت بلونڈ سے اپنے قدرتی رنگ براؤن ہو چکے تھے اور وہ ایسے کپڑوں میں ملبوس تھی جیسے وہ شاپنگ کرنے نکلی ہے۔ “ آنکھوں پر بندھی گئی پٹی کو بھی فیشن کا رنگ دیا گیا اور تبصرے ہوئے کہ وہ اپنی تھکی ہوئی آنکھیں دنیا کو دکھانا نہیں چاہتی تھی۔ یوں سولہ افراد کی موجودگی میں باربرا گراہم نے موت کو قبول کر لیا۔

اس واقعے پر ایک فلم بنی، I want to live کے نام سے، یہ فلم ایک صحافی ایڈورڈ منٹگمری نے مختلف طریقوں سے ایک پروڈیوسر کو قائل کر کے بنوائی۔ شروع میں اس نے بھی باربرا کے خلاف رپورٹنگ کی لیکن کیس کے دوران اسے احساس ہو گیا تھا کہ باربرا بے قصور ہے۔ وہ اسے بچا نہیں سکا لیکن اس کی موت کے بعد شاید خود کو اور اپنے ضمیر کو کلین چٹ دینے کے لیے یہ فلم بنوائی۔ فلم سپر ہٹ تھی۔ باربرا ایک مرتبہ پھر کیش ہوئی۔ اس فلم کی چھ کیٹیگریز میں آسکر نامینیشنز ہوئیں، بہترین ہیروئین کا آسکر ایوارڈ اس فلم کی ہیروئین کے حصے میں آیا لیکن یہ کیس امریکا کی کرائم کیسز ہسٹری میں بہت سے سوال چھوڑ گیا۔

\"barbara-graham-2\"

یہ پچاس کی دہائی کا امریکا تھا، آپ یہ کیس انٹرنیٹ پر پڑھیں یا اس پر بنی فلم دیکھیے، آپ کو لگے گا کہ آپ آج بھی اسی دور میں جی رہے ہیں۔ بے نظیر کا دوپٹہ سر سے کب اترا، ان کے ہاتھ میں تسبیح کیوں ہوتی تھی، وہ بچوں کے ساتھ کیسے وقت گزارتی تھیں، زرداری ان کے شوہر کیوں تھے، کشمالہ طارق کیا کرتی تھیں، ان کا لباس کیسا تھا، فردوس عاشق اعوان کیسی دکھتی ہیں، ہمارے سوال آج بھی یہی ہوتے ہیں۔ حنا ربانی کھر کا نام باقاعدہ بدنام کرنے کی کوششیں ہوئیں، شیری رحمن کے نشست و برخاست و عادات پر سوال اٹھے، شیریں مزاری کو نہیں بخشا گیا، جمائما، ریحام دونوں کے ساتھ یہی ہوا، مریم نواز کی شادی اور ان کے لباس پر باتیں ہوئیں، تحریک انصاف کے دھرنوں کے اگلے دن اخبار شریک خواتین کی تصویروں سے بھرے ہوتے تھے اور یہ سب تو سیاست دانوں کے ساتھ تھا۔ یہ سب چھوڑ دیجیے۔

یہ کیس آپ کو ایان علی کی یاد دلائے گا۔ کس طرح عدالت کے ساتھ ساتھ وہ صحافیوں کے کٹہرے میں بھی کھڑی تھیں، کیا کیا باتیں نہیں اچھالی گئیں، یہاں اگر ایک مرد ماڈل ملوث ہوتا تو کیا یہ قصہ اتنا چٹپٹا ہو سکتا تھا؟ شاید اتنا سا بھی نہ ہوتا کہ آپ یوں عنوان دیکھ کر کھچے چلے آتے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments