یہ غازی یہ ہمارے خودکش بچے


\"saleem

شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ واہ واہ واہ۔ بچوں کو یہ نہ بتاؤ کہ ایسے نعرے صدیوں پہلے بادشاہوں نے اپنے تاج بچانے کے لئے گھڑے تھے۔ ایسے جملوں سے وہ رعایا کو بے وقوف بناتے تھے۔ غریب نوجوان جوش میں آ کر میدان جنگ میں بے دردی سے مارتے اور مرتے تھے۔ غریب لوگ دونوں جانب بادشاہوں کے تاج کی حفاظت کر رہے ہوتے تھے جس کا فائدہ صرف اور صرف بادشاہوں کو ہی ہوتا تھا۔ بادشاہ اور اس کے حواری غریب لوگوں کو مرنے اور مارنے پر تیار کرنے کے لئے کھوکھلے نعرے دیتے تھے۔ ایسی باتیں تو وہ لوگ کرتے ہیں جو ٹیپو سلطان کو پاکستانی بادشاہ نہیں سمجھتے اور اس کی بہادری پر فخر نہیں کرتے۔ وہ غدار ہیں۔

اپنے بچوں کو یہ نہ سکھاؤ کہ سارے مذہب اور عقیدے قابل احترام ہیں اور یہ لوگوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ کوئی بھی مذہب یا عقیدہ رکھیں۔ یہ بھی نہ بتاؤ کہ ہم سے دوسروں کے عقیدے کے بارے میں سوال نہیں ہو گا۔ ہم دوسروں کے مذہب اور عقیدوں کے ٹھیک یا غلط ہونے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ بچوں کو اس علم سے بھی دور رکھیں کہ انسانی جان کا احترام ہر چیز سے زیادہ ہے۔ کیونکہ ایسی باتیں تو سیکولر لوگ کہتے ہیں اور سیکولر لوگ تو لادین ہوتے ہیں۔ وہ تو دشمنوں کے پٹھو ہیں اور ہمارے مذہب کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔

\"suicide-bomber-child-boy-2\"

بچوں کو یہ نہ بتائیں کہ عقیدے کی بنیاد کسی منطق پر نہیں ہوتی ہے۔ ہمارے سنی، شیعہ، دیوبندی یا اہل حدیث ہونے کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم جس گھر پیدا ہوئے یا پلے بڑہے اس کے لوگ اسی عقیدے سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے ہمیں بھی وہی بنا دیا ہے۔ رام چند کے گھر میں مودودی پیدا نہیں ہوتا اور نور محمد کے گھر میں مودی جنم نہیں لیتا۔ بالکل ایسے ہی کوئی شیعہ ماں باپ کسی دیوبندی کو جنم نہیں دیتے اور کسی دیوبندی گھر میں پیدا ہونے والا محرم میں اپنے آپ کو زنجیروں سے لہولہان کر کے ثواب نہیں کماتا۔ اس لئے ہمارے سنی، شیعہ یا دیوبندی ہونے میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔ کس گھر میں پیدا ہونا ہے یہ ہمارے بس میں نہیں تھا۔ جو لوگ ہمارے عقیدے والے گھر میں پیدا نہیں ہوئے اس میں ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔ اس لئے کسی کو سنی، شیعہ یا دیوبندی ہونے کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ لیکن ایسی باتیں تو سوچنا بھی گناہ ہے۔ ایسی باتیں تو وہ لوگ کرتے ہیں ناں جن کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ وہ سیکولر لوگ کرتے ہیں کافر ہوتے ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا۔

ہم نے بچے کو عقیدے کا احترام سکھانا ہے انسانی جان کا نہیں۔ کیونکہ سارے انسان قابل احترام نہیں ہوتے۔ کئی انسان تو درباروں پر جاتے ہیں اور شرک کرتے ہیں، قوالیاں گاتے ہیں، ناچتے اور دھمالیں ڈالتے ہیں۔ وہ اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں۔ رب کے علاوہ بھی لوگوں سے مدد مانگتے ہیں۔ اب ایسے انسانوں کا تو احترام نہیں کیا جا سکتا۔ یہ گناہ گار لوگ ہوتے ہیں۔ اسلام کے نام پر دھبہ ہیں اور ان کی سزا قتل ہی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے واجب القتل ہونے کے اشارے ملتے ہیں۔ مارنے والے بتاتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو قتل کرنے والوں کو جنت کی بشارت بھی دی گئی ہے۔ یہ بھی بچوں کو نہیں سکھانا کہ گناہ اور ثواب بندے کا ذاتی معاملہ ہے۔ گناہ اور جرم میں فرق ہے اور یہ کہ جرم کا سدباب حکومت کا کام ہے اور قانون ہاتھ میں لینا بھی جرم ہے۔ یہ باتیں تو سیکولر کرتے ہیں۔ جو معاشرے میں بے راہروی پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہ مادر پدر آزادی چاہتے ہیں۔

\"suicide-bomber-child-boy-1\"

ہم نے بچوں کو یہ نہیں سکھانا کہ زندگی اہم ہے اور کسی بھی طرح کی خودکشی حرام ہے۔ اور خود کشی پر اکسانا بھی جرم ہے۔ شہادت کو مجبوراً گلے لگانا پڑ سکتا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ زندگی کو جیا جائے۔ یہ بات بچوں کو نہیں بتانی۔ یہ باتیں تو سیکولر لوگ کرتے ہیں جنہیں دنیا سے پیار ہے اور اسے جنت بنانا چاہتے ہیں۔ یہ تو ہمیں اصلی جنت سے محروم کر دیں گے۔ ایسے کافروں سے بچوں کو دور رکھو۔

ہم نے اپنے بچے کو سکھانا ہے کہ یہ دنیا اچھی جگہ نہیں ہے۔ اس دنیا میں کامیابی کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ دنیاوی کامیابی تو ایک دھوکہ ہے۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔

ایک خود کش بمبار بچہ بھی انہی ساری باتوں پر یقین رکھتا ہے جو ہمارے سارے بچوں کے ایمان کا حصہ ہیں۔ ہم اپنے بچوں کی پرورش ایک خودکش بمبار کے طور پر ہی کرتے ہیں۔ لہذا جب بھی کوئی بچہ کسی دہشت گرد گروپ کے ہتھے چڑہتا ہے تو اس سے خودکشی کا عمل کرانے میں کچھ زیادہ محنت نہیں لگتی۔ بنیاد تو پہلے ہی بنی ہوتی ہے۔

اگر ہم اپنے بچوں کو انسانیت کا احترام سکھائیں تو ہمارے بچے موت کی بجائے زندگی سے پیار کرنا سیکھیں گے۔ اگر ہم نے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے طریقے نہ بدلے تو ہمارے بچے اور ہم خود کش بمبار حملوں سے یونہی مرتے رہیں گے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments