علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اگلے امتحان کے لیے کچھ اور منتخب سوال


\"hashir\"علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نےیہ کیا غضب کیا کہ غیرت کا پردہ فاش کر دیا۔ لٹھ نکل آئے ہیں۔ تلواریں برہنہ ہیں۔ کمانیں کسی ہوئی ہیں۔ ادھر منبر سےآوازاٹھ رہی ہے، ادھر مدرس شعلہ بجاں ہیں۔ طالب علم سر مانگتے ہیں، استاد نوحہ کناں ہیں۔ اقدار مٹی میں رلتی پھر رہی ہیں، ردائیں گلیوں میں اڑ رہی ہیں۔ سر برہنہ ہو گئے ہیں، آنکھیں شرم سےجھک گئی ہیں۔ ایک سوال کیا ہوا کہ عزت، توقیر، حمیت سب پرسوال اٹھ گیا ہے۔

غیرت ٹوٹ کر برسی ہے۔ کف منہ سے اڑتا ہے۔ دانت بھنچےہوئے ہیں۔ ہاتھ اٹھنے کو بے قرار ہیں۔ جبے چاک کر دیے گئے ہیں۔ دستار پٹخ دی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پرشعلے رقصاں ہیں۔ غصہ ہے، رنج ہے، دکھ ہے، ماتم ہے۔ جدید تعلیم کی بلی مانگی جا رہی ہے۔ جامعات پر کیچڑ اچھل رہی ہے۔ سازش کی ڈورکھینچی جا رہی ہے کہ دوسرے سرے پہ کوئی نصرانی، کوئی یہودی، کوئی ہندو مل جائے۔ ثقافت کے بخیے ادھیڑ کر پھر نئی سلائی کی مشق جاری ہے۔ مزہب سے دوری، مغرب سے مرعوبیت، دجالی میڈیا اور لبرل ایجنڈے سے خبرداری کےمنجن منڈی میں ہاتھوں ہاتھ بک ر ہے ہیں۔

طوفان چائے کی پیالی کے کناروں سے باہر نکل آیا ہے۔ بادبان لرز رہے ہیں، کشتیاں الٹنے کو ہیں، پشتوں کی مٹی کھسک رہی ہے۔ یہ قیامت ایک چھ سطر کا سوال لے آیا ہے۔ اچھا ہے، بہت اچھا ہے۔ اسی بہانے بھائیوں کو پتہ لگ گیا کہ بہنوں کی عزت کی جاتی ہے۔ اسی بہانے مردوں کو پتہ لگ گیا کہ عورت کوجسمانی زاویوں کے علاوہ بھی پرکھا جاتا ہے۔ اسی بہانے زبان کی اصلاح ہو گئی کہ بہن کا رشتہ مغلظات اور گالیوں کےعلاوہ بھی مطلب رکھتا ہے۔

ایک پرچے میں سوال لکھا گیا، شاید کسی ایک مرتب کی غلطی سے۔ سوال غلط ہےکہ صحیح، بات ہونی چاہیے۔ امتحان گاہ میں کیا پوچھنا مستحسن ہے کیا نہیں، اس پر بھی کلام ہونا چاہیے۔ کون ذمہ دار ہے، اس کا بھی تعین ہونا چاہیے پراب جب انصاف کی دہائی دے ہی دی گئی ہے اور ہر منبر پرایک تازیانہ بردار منصف متمکن ہو ہی گیا ہے تو کیوں نہ کچھ اور سوال بھی اٹھا دیے جائیں۔ وہ سوال جن پر بہنوں اور ماؤں کی محافظ یہ آوازیں کل بھی چپ تھیں اور آنے والے کل میں بھی خاموش رہیں گی تو ہوسکے تو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ہی کیوں نہ کچھ اور سوال پوچھ لے۔

کیوں نہ پوچھا جائے کہ کئی دہائیوں سے اپر اور لوئر دیر میں بہنوں اور ماؤں کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رکھنا کونسی غیرت کا تقاضا ہے؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ معاشرے میں مستعمل ہرگالی باپ اور بھائی کے بجائےماں اور بہن سے کیوں منسوب ہے؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ جرگوں اور پنچایتوں میں بہنیں اور بیٹیاں ہی کیوں ونی ہوتی ہیں؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ قرآن کی جب کوئی جنس نہیں ہے تو کبھی بیٹوں اور بھائیوں کی اس سےشادی کیوں نہیں کرائی جاتی۔ یہ فضیلت بہنوں اور بیٹیوں کے حصے میں \"aiou-matric-exam\"ہی کیوں آتی ہے؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ بیٹی کے نوالے بیٹے کے منہ میں کیوں ڈالے جاتے ہیں؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ تیزاب بہنوں اور بیٹیوں کے منہ پر ہی کیوں پھینکا جاتا ہے؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ ساٹھ سال کےبوڑھے سے دس دس سال کی کسی کی بہن اور کسی کی بیٹی کیوں بیاہ دی جاتی ہے؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ اگر ماڈل اور اداکارہ کے بھائی کی غیرت جاگنا منطقی ہے تو ماڈل اور اداکار کی بہن کی غیرت کیوں ہمیشہ سے محو خواب ہے؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ عزت اور غیرت صرف مردوں کی ہی کیوں داؤ پر لگتی ہے؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ غصہ ہو یا بےتکلفی کا اظہار، جملہ ماں یا بہن کی گالی کے بغیر بے اثر کیوں لگتا ہے؟

کیوں نہ پوچھاجائے کہ بازار ہو یا سڑک، بہن یا بیٹی ہی کیوں نظروں سے چھیدی جاتی ہے؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ جب ایک دانشور اپنی بیٹی کی عمر کی بچیوں کے کھیل سے بھی جنسی تلذز کے زاویے برآمد کر لیتا ہے تو بھی قوم اسے کیسے سراہتی رہتی ہے؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ راتوں کو گھر سے باہر بہنوں اور بیٹیوں کو عدم تحفظ کا احساس دلانے والے کن بہنوں کے بھائی اور کن ماؤں کے بیٹے ہوتے ہیں؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ نظریاتی کونسلوں میں اخلاقیات کے گوشوارے صرف عورت کے کردار کے لیے کیوں تحریر ہوتے ہیں؟

کیوں نہ پوچھا جائے کہ بہن کو جائیداد کے حصے، تعلیم میں فضیلت، رشتے کے انتخاب اور فیصلوں میں مشورے کے حوالے سے مضمون لکھنا پڑ جائے تو اس میں شرمندگی کے علاوہ اور کیا ملے گا؟

یہ سچ ہے کہ اپنی بہن کے قد بت، جسمانی ساخت، عمر، احساسات اور جزبات پر بات کرنا بھائیوں کو اچھا نہیں لگے گا پر یہ مت بھولو کہ یہی اصول دوسروں کی بہنوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ شور مچانے سے پہلے اپنے گریبان پر نظر کر لو اور پتھر اٹھانے سے پہلے اپنے گناہوں کا حساب کر لو۔ پھر میدان بھی حاضر ہے اور مجرم بھی۔ پرخیال رہے کہ آئینے پر پتھر مارنے سے آئینہ ٹوٹ جاتا ہے اور اپنا ہی چہرہ شکستہ ہو جاتا ہے۔ اس عکس کو دیکھو گے تو اچھا نہیں لگے گا پر سچا ضرور لگے گا۔


میری بہن بہت پیاری ہے
حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments