قانون برائے تحفظ مرداں


\"cii\"کون کہہ سکتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ملک میں ’ناانصافی‘ کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ اب تو اس نے معاشرے میں مردوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا بھی نوٹس لے لیا ہے اور اس سوال پر غور کرنے والی ہے کہ ملک کے ’مظلوم‘ مردوں کے تحفظ کے لئے قانون حکومت کو تجویز کیا جائے۔ یہ ’اہم‘ مسئلہ سامنے لانے والے کونسل کے فاضل رکن اور پاکستان علما کونسل کے جنرل سیکرٹری صاحبزادہ زاہد قاسمی ہیں۔ انہوں نے چئر مین اسلامی نظریاتی کونسل کے نام ایک خط میں اس ’اہم‘ مسئلہ پر فوری غور کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور انہیں امید ہے کہ 14 نومبر کو کونسل کے اجلاس میں ان کے خط کی بنیاد پر یہ معاملہ ایجنڈے پر رکھا جائے گا۔ امید ہے کہ’ مظلوم طبقات ‘ کی اعانت کے لئے بے چین اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ اور دیگر ارکان ضرور اس معاملہ پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے ملک و قوم پر واضح کردیں گے کہ ان کا ادارہ کس قدر غیر سنجیدہ، متعصب اور غیر ضروری ہے۔

’کاروان‘ کے صفحات پر متعدد بار پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا چکا ہے۔ اس کی واحد اور سادہ سی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ معاشرے میں مثبت رویوں کے فروغ میں معاون نہیں ہے۔ اجتہاد کا راستہ اختیار کرکے درپیش مسائل کا صائب حل تجویز کرنے کی بجائے ، فروعی اور غیر ضروری مسائل پر وقت اور صلاحیتیں صرف کی جاتی ہیں۔ اسی لئے حکومت اور پارلیمنٹ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں لیتی اور نہ انہیں قانون سازی کاحصہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کونسل گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں متعصبانہ اور ناانصافی پر مبنی مؤقف اختیار کرچکی ہے۔ یہی کونسل جنسی تشدد کا شکار خواتین کو انصاف فراہم کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی مخالفت کر چکی ہے۔ ملک کے مختلف صوبوں میں جب خواتین کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی جا رہی تھی تو کونسل کے فاضل ارکان نے ان کوششوں کی شدید مخالفت کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ کونسل خود اس بارے میں رہنما اصول متعین کرے گی۔

 \"ricksha\"

اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جب یہ تجاویزسامنے آئیں تو تحفظ کے نام پر مردوں کی طرف سے عورتوں کو زد و کوب کرنے کی تجویز پیش کرکے کونسل نے خود اپنے ارادوں اور کور مغزی کا بھانڈہ پھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح کونسل کے چئرمین مولانا محمد خان شیرانی کم سن بچیوں کی شادیوں کے حوالے سے متنازعہ تجاویز دینے کے علاوہ ملک میں درست عقیدہ کا تعین کرنے کے لئے کونسل کو با اختیار بنانے کی بات بھی کر چکے ہیں۔ ان سے جب ملک میں نافذ توہین مذہب قوانین میں اصلاح کی بات کی جاتی ہے تو وہ طرح دے جاتے ہیں۔ وہ اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں متعارف ہونے والی ترامیم کی وجہ سے ملک میں کئی بے گناہوں کو کسی مقدمہ اور عدالتی کارروائی کے بغیر موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے ۔ کیوں کہ توہین مذہب کا الزام عائد کرنے کے بعد کسی مذہبی رہنما کے بھڑکانے پر مشتعل گروہ ایسے مظلوم شخص کو موقع پر ہی ’انصاف ‘ فراہم کرنے سے گریز نہیں کرتا۔

یہ حقائق بھی سامنے آچکے ہیں کہ انتہا پسند مذہبی تنظیمیں توہین مذہب کے الزام میں ملوث لوگوں کو انتہائی سزا دلوانے کے لئے عدالتوں پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ متعدد معاملات میں ذاتی جھگڑوں یا جائیداد کا تنازعہ طے کرنے کے لئے مخالفین کو توہین مذہب کے معاملہ میں ملوث کروایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے جب کونسل کو تجویز پیش کی گئی کہ جو لوگ توہین مذہب کے غلط استعمال کا ارتکاب کرتے ہیں ، ان کا جرم ثابت ہونے پر ان کے خلاف توہین مذہب کی اسی شق کے تحت مقدمہ چلانے کی سفارش کی جائے تاکہ قانون کے غلط استعمال کا تدارک ہو سکے تو اسے مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ملک کے قانون ایسے قانون شکنوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس بات کا کوئی جواب موجود نہیں ہے کہ پھر توہین مذہب کا قانون ایک آمر کی انتہا پسندانہ ترامیم کے بغیر کیوں انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے۔

 \"acid-attack-in-pakistan\"

پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پر ایک ہزار خواتین ہلاک کردی جاتی ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں ہر سال سینکڑوں ہندو اور عیسائی لڑکیوں کو اغوا کرکے انہیں ذبردستی مسلمان کیا جاتا ہے ۔ ان کے اہل خاندان عدالتوں کے ذریعے بھی اپنی بچیوں کو واپس لینے میں کامیاب نہیں ہوتے کیوں کہ ایسے معاملات میں عدالتوں کے جج انتہا پسند مذہبی گروہوں کے دباؤ میں ہوتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ان ذیادتیوں کی روک تھام کے لئے قانون تجویز کرنے میں ناکام رہی ہے اور نہ ہی ان اہم معاشرتی مسائل پر آواز اٹھائی گئی ہے ۔ اس کی بجائے ان معاملات کو این جی اوز اور ’موم بتی مافیا‘ کا پروپیگنڈا قرار دے کر معاشرے میں تعصب، ظلم اور تشدد کی راہ ہموار کی جاتی رہی ہے۔

اب یہی کونسل مردوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قانون بنانے کی سفارشات پر غور کرے گی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چئرمین اور اس کے ارکان اپنی کم بینی اور سماجی ضرورتوں سے لاعلمی کا اعتراف کررہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت اس سچ کو قبول کرلے اور ایک ایسے ادارے کو ختم کرے جو اسلام کے لئے ہی تہمت کا سبب بننے لگا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments