ملبوس ہی انسان کا معیار ہے


\"shahidآزادی کے بعد ہوش سنبھالنے والی پہلی پاکستانی نسل کے نمائندہ شاعر محمد جلیل عالی کا شعر ہے :
نزدیک بھی آ ، جھانک کے دل میں بھی ذرا دیکھ
ملبوس ہی انسان کا معیار نہیں ہے
برسوں پہلے عالی صاحب سے ، جو ایک وفاقی تعلیمی ادارے میں درس و تدریس سے وابستہ ہو چکے تھے ، اسی کالج کے ایک سابق طالب علم کے طور پر نیاز حاصل ہوئے تو خیال آیا کہ خدا معلوم ، یہ نیک اطوار ، نرم خو اور خوش پوش آدمی اپنے لباس کے بارے میں ذہنی الجھن کا شکار کیوں ہو گیا ۔ یہ 1970ء کی دہائی کا آغاز تھا اور ان دنوں شہری علاقوں کے بیشتر پڑھے لکھے نوجوان پتلون قمیض ہی پہنا کرتے تھے ۔ جلیل عالی کا ملبوس اس سے مختلف نہیں تھا ۔ اس لئے ان کی یہ خواہش وقتی طور پر میری سمجھ میں نہ آسکی کہ لوگ نز دیک آ آ کر ان کے دل میں جھانکنے کی تکلیف کیوں کریں ۔

یہ نکتہ بہت بعد میں سوجھا کہ لباس کا معیار صرف ذاتی پسند یا نا پسند کا معاملہ نہیں ہوا کرتا ، نہ اس کے بدلتے ہوئے فیشن مختلف علاقوں ، زمانوں اور سماجی طبقوں پر ایک جیسے اثرات ڈالتے ہیں ۔ جن دنوں دل میں جھانکنے کی ترغیب دینے والا یہ شعر کہا گیا اس وقت ہمارے ہاں مردانہ ملبوسات میں شوخ رنگوں ، پھول پتیوں اور بھڑکیلے ڈیزائنوں کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ قمیض اول تو سفید ہوتی تھی ، نہ ہوئی تو زیادہ سے زیادہ نیلی ، ہلکی بادامی یا پنجابی اصطلاح میں کوئی اور ’ صوفیانہ ‘ سا رنگ ۔ ایک کریم کلر بھی ہوا کرتا تھا ، جسے امریکہ کو ’سٹیٹس‘ کہنے والے لوگ ’آف وائٹ ‘ اور مجھ جیسے ’ہاف وائٹ‘ کہنے لگے ۔

اتنا واضح کر دینا البتہ ضروری ہے کہ آزادی کے بعد پتلون قمیض کے رجحان کی مقبولیت متوسط طبقے کی اس پرت میں زیادہ رہی جس نے نو عمری میں سکول کالج میں باقاعدہ تعلیم حاصل کر رکھی تھی ۔ خاص طور پہ وہ جن کے کار ہائے نمایاں اکبر الہ آبادی نے یہ کہہ کر بیان کئے ہیں کہ ’بی اے کیا ، نو کر ہوئے ، پنشن ملی اور مر گئے ‘۔ نوآبادیاتی انگریز کو رول ماڈل سمجھنے والے ان افسر ٹائپ لوگوں ’ عام آدمی ’صاحب‘ کہہ کر مخاطب کرتے یا ’ایک قسم کا افسر‘ ہونے کی صورت میں ’بابو جی‘ کہتے اور صیغہ واحد غائب میں ان کی کلائی گھڑی ، دھوپ کے چشمے اور ’سولا‘ ہیٹ کو یہ کہہ کر داد دیتے کہ ڈپٹی غلام حسین بڑا جنٹل مین آدمی ہے ۔

عمر کے لحاظ سے سرکاری طور پر بزرگی حاصل کر لینے والے ان اصحاب کو جو کسی کامپلیکس کا شکار ہوئے بغیر اچھا حافظہ افورڈ کر سکتے ہیں ، اتنا یاد ہوگا کہ اربنائزیشن یا شہریائے‘ جانے کے اس عمل میں خاندانوں کے اندر بھی طبقاتی چپقلش کے چھوٹے موٹے اشارے دیکھنے کو مل جاتے تھے ۔ جیسے شروع شروع میں مجھے یہ لگا کہ قائد اعظم محمد علی جناح سے میرے ابا اور ان کے انگریزی خواں دوستوں کی گہری انسیت کا ایک سبب ہمارے عہد آفریں قائد کا ’سوٹڈ بوٹڈ‘ سراپا بھی ہے ۔ لیکن اسی گھر میں آج سے ٹھیک پینٹھ سال پہلے ہمارے دادا کے پیر فقیر کو ملنے والے واحد بھائی نے ، جن کا اوڑھنا بچھونا گاندھی جی کی طرح محض ایک دھوتی چادر رہی ، اپنے اسی اکلوتے بھتیجے کی بارات میں یہ سوچ کر شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ اپنے محبوب لباس کو کڑما چاری کی مصلحتوں پر قربان نہیں کر سکتے ۔
\"shahid

نصف صدی پہلے کی پاکستانی آبادی کو صرف دھوتی اور سوٹ میں تقسیم کر دینا ، ممکن ہے ، ایک انتہا پسندانہ تجزیہ قرار پائے ۔ غور کریں تو ان دو زمروں کے بیچوں بیچ وسطی پنجاب کی ’لکدی‘ سے لے کر چادر ، تہبند اور لاچے ، اور خیبر پختون خوا کی ’ہمہ گیر‘ شلواروں تک ذرا ذرا سے فرق کے ساتھ لباس کی بہت سی اور قسمیں تھیں جو ’ اب نقش و نگار تاک نسیاں ہو گئیں ‘ ۔ پھر ہر لباس سے جڑی ہوئی بعض ’لوک‘ سرگرمیاں ۔ جیسے ہمارے آبائی گھر میں کوٹ پینٹ والا کرسی پہ بیٹھ کر الگ الگ بنی ہوئی چائے چینی کے کپ میں پیتا اور دھوتی پوش کو دیگچی میں پکائی گئی چاء مٹی کے گجراتی پیالے میں ملتی ۔ گھونٹ بھرنے سے پہلے وہ چائے میں ایک بھر پور پھونک مارتا اور پہلی چسکی لے کر مزے سے پچک پچک کی آواز نکالتا ۔ شلوار قمیض والے حضرات یہ حرکت تو نہ کرتے ، مگر کبھی کبھار وقت بچانے کے لئے چائے طشتری میں الٹ کر ٹھنڈی کر لیتے ۔

ماضی میں چائے کی طرح تمباکو نوشی کی زمرہ بندی کا ملبوساتی حوالہ بھی خاصا مضبوط تھا ۔ چنانچہ پینٹ کوٹ والوں میں لباس کی تراش خراش ، کپڑے کی کوالٹی اور بوٹوں کی چمک کے حساب سے سٹیٹ ایکپریس ، اصلی گولڈ فلیک اور پھر تھری کاسل ، کسی زمانے میں پچاس کے ڈبے اور بعد ازاں بیس بیس کے پیکٹ یا سگریٹ کیس میں ۔ ۔ ۔ لیکن گھر کے اندرونی صحن میں شلوار قمیض پہننے والے عزیز و اقارب کو بزرگوں کے ساتھ عمدہ دھات کے پیندے والے اسی حقہ کی شراکت داری کرتے دیکھا جو جامع مسجد کے مائیکرو فون اسٹینڈ سے حیرت ناک حد تک مشابہہ تھا ۔ اس کے بر عکس نواحی گاؤں سے آنے والے ہمارے رشتہ دار وں کے ہاتھ خود بخود اس پینڈو گڑگڑی کی طرف بڑھنے لگتے جو دیکھنے میں ’کاٹھے‘ گنے اور طیارہ شکن توپ دونوں کے بہت قریب تھی ۔ ایک فرق یہ بھی تھا کہ ہنجاب کے بیشتر شہری لوگ عام طور پہ ’بنا ہوا تمباکو‘ پیتے ، جبکہ دیہاتیوں میں سوکھے تمباکو اور گڑ کی کاک ٹیل زیادہ مقبول تھی ۔

کوٹ پینٹ پہننے والوں میں گرمی کے موسم میں یہ تبدیلی دیکھنے میں آتی کہ دفتر میں مغربی لباس اور گھر میں ململ کا کرتہ ۔ ہاں ، انگریز کے چلے جانے کے بعد سمر سوٹ کی جگہ قمیض اور قدرے عمر رسیدہ لوگوں میں بش شرٹ کی مانگ بڑھنے لگی تھی ۔ مگر آج کل کی طرح اتنا فرق نہیں تھا کہ شام کی سیر کے دوران رنگین ٹی شرٹ میں ملبوس جو طرحدار نوجوان دور سے آپ کی تو جہ کا مرکز بن جائے ، قریب آنے پہ سپریم کورٹ کا ایک نو ریٹائرڈ چیف جسٹس نکلے ۔ یہی نہیں ، لباس کی تازہ اقسام کی بدولت ، جسے بازاروں میں ’نئی زنانہ اور مردانہ ورائٹی ‘ کا نام بھی دیا گیا ہے ، اسی روزانہ سیر کے دوران کئی غیر جج حضرات کے بارے میں پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کے نچلے دھڑ کے ملبوس کا تعلق کون سی صنف سخن سے ہے کیونکہ نثری نظم کی طرح یہ لباس گھٹنوں سے نیچا اور ٹخنوں سے اونچا دکھائی دیتا ہے ۔

وقت نے جہاں ملبوسات کی تراش خراش ، ڈیزائن اور رنگ بدل ڈالے ہیں ، وہیں پارچہ فروشوں اور درزی خانوں کی ٹرمینولوجی میں بھی انقلاب برپا ہو گیا ہے ۔ مثال کے طور پہ خواتین کے لباس کے حوالے سے روائتی اردو الفاظ کے مقابلے میں ’چیسٹ‘ اور ’ویسٹ‘ کی اصطلاحات تو سمجھ میں آتی ہیں کہ ان میں پردہ داری کا پہلو ہے ، لیکن ’بازو‘ کی جگہ ’سلیو‘ ، ’پیٹی‘ کو چھوڑ کر ’بیلٹ‘ ، اور ’کندھے‘ کی جگہ ’گول‘ یا ’آرم ہولڈ‘ ۔ ۔ ۔ بھلا ، اس میں قومی فلاح کا کون سا پہلو چھپا ہوا ہے ؟ ان معلومات کے لئے میں اپنی ایک عزیزہ کا شکر گزار ہوں جو لسانی تحقیق دانوں میں مستند مقام رکھتی ہیں ۔

بدلتے ہوئے ملبوسات کے موسموں میں خود میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ بھی ایک سبق آموز تجربہ تھا ۔ چند مہینے ہوئے میں نے بڑے چاؤ سے کھلے موسم میں پتلون کے ساتھ پہننے کے لئے چیک ڈیزائن کا ایک ملبوس سلوایا ، لیکن ٹیلر ماسٹر نے اس کی لمبائی گوڈے گوڈے دی ، اور شکایت کرنے پر میری کم علمی کا یہ کہہ کر ’توا‘ بھی لگا دیا کہ پتلون کے ساتھ ہمیشہ ’شرٹ‘ پہنی جاتی ہے اور آپ نے ’قمیض ‘ کہا تھا ، جو اتنی ہی لمبی ہوتی ہے ۔ یہ سن کر میری اردو اور انگریزی گڑبڑا گئی کیونکہ معاملہ ہمارے اس پوٹھوہاری دوست کا سا تھا جسے سالہا سال کے دیوانی مقدمے کی پیروی کرنے پر بھی جب پیو دادا کے وقتوں کی زرعی اراضی نہ ملی تو اس نے کہا : ’زمین تے نئیں ملی ، پر قانونے نیں واقف ہوئی گچھے آں ‘۔ یعنی اراضی تو نہیں ملی مگر الحمد للہ ہم قانون سے واقف تو ہو گئے ہیں ۔ اس وضاحت کی روشنی میں آجکل اس امکان پہ غور کر رہا ہوں کہ بارشیں ہونے سے ذرا ’سموگ‘ کی شدت کم ہو جائے تو سفید شلوار کے ساتھ ہرے اور لال ڈبوں والی گوڈے گوڈے لمبی نئی قمیض پہن کر پہلے تو نئی نسل کی خاطر ایک اہم پیغام کے طور پر اپنی سیلفی کھینچوں اور پھر باغ میں جا کر دیکھوں کہ ان دنوں سیر کرنے کے لئے جج صاحب نے کیا پہن رکھا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments