جنت کی چڑیا


\"farrah-ahmad\"آیئے آج میں تھوڑی دیر کو آپ کو اپنی جگہ لے کہ چلتاہوں/چلتی ہوں۔ یہ کنفیوژن آپ کی پیدا کردہ ہے ورنہ مجھے تو اپنے لیے چلتی ہوں آتی ہوں جاتی ہوں۔ مونث الفاظ زیادہ پسند ہیں۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی میں آج آپ کو اپنی جگہ لے کہ چلتی ہوں۔ آج میرے کہنے پر تھوڑی دیر تصور کریں آپ میری جگہ ہیں۔ میں پیدا ہوئی اسی طرح جس طرح ایک نارمل بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح انتظار کی گھڑیاں دیکھی گئی اور خوشیاں منانے کی تیاریاں کی گئی۔ میں اس دنیا میں آئی تو اردگرد اپنوں سے بھری دنیا کو دیکھا چمکتے چہرے خوشیوں سے دھمکتے ہوئے۔ــ’’ ارے بیٹا آیا ہے‘‘ مجھے نیلے رنگ کے کپڑوں میں لپٹا گیا اور پھر اس کے بعد ہر بار میرے لیے ہلکے رنگوں کا انتخاب کیا گیا، میں تھوڑی بڑی ہوئی تو بیٹا گاڑی لے لو۔ بندوق لے لو، ٹرین لو، جیسے کھلونوں کا انتخاب کیا گیا۔ مجھے پہلی بار لگا مجھے رنگ برنگی گڑیا اچھی لگتی ہے مگر مجھے بتایا گیا نہیں لڑکے گڑیا سے نہیں کھیلتے۔ ایک بار امی کی نیل پالش اٹھا کر ناخنوں پر لگائی تو امی سے زور کی چپت پڑی کہ لڑکے نیل پالش نہیں لگاتے۔ مجھے لڑکے اور لڑکی کا فرق کہاں سمجھ آتا تھا بس رنگ بھاتے تھے۔ رنگ برنگی چیزیں اپنی طرف بلاتی تھیں مگر جوں ہی میں اپنی اس خواہش کا اظہار کرتا مجھے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ میرے ہم عمر ساتھیوں اور میرے رشتہ داروں نے میرے اندر وہ وہ تبدیلیاں محسوس کی جو میں نے تصور نہیں کی تھی۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ ایک دن امی کو بہت روتے دیکھا۔ ابو کو چلاتے دیکھا کہ ایسا ہمارے گھر میں کبھی نہیں ہوا۔ ہمارے گھر میں سب نارمل پیدا ہوئے یہ کہاں سے آگیا۔ میں سناٹے میں آگئی کہ مجھ میں ابنارمل کیا ہے۔ میری حرکات و سکنات سے میرے بھائیوں بہنوں کو شرمندگی ہونے لگی رفتہ رفتہ وہ مجھے لوگوں سے چھپانے لگے وہ کہتے میں ان جیسی نہیں ہوں۔

پھر ایک بار علاقے کے دربار پر عرس لگا وہاں کچھ ایسے افراد سے ملاقات ہوئی جو بظاہر مرد تھے مگر وہ رنگوں سے کھیل سکتے تھے۔ مجھے اپنے جیسے لگے میں اس دن ان کے ساتھ رنگوں کا سب کھیل کھیلا گھر آیا تو کہرام برپا ہوگیا۔ ابو بہت ناراض ہوئے۔ ماں نے الگ ڈانٹا۔ آہستہ آہستہ جیسے گھر والوں سے دوری ہوتی گئی اور اپنے جیسے رنگوں سے کھیلنے والوں کی صحبت بڑھتی گئی۔ ایک دن تو ابو نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور گھر سے نکالنے کی دھمکی دی۔ ماں بولی کمبخت تیری وجہ سے تیری بہنوں کی شادی نہیں ہو پا رہی۔ میں نے گھر سے غائب رہنا شروع کردیا اور پھر یہ دوری ایسی بڑھی کہ پھر گھر جانا ہی نہ ہوا۔

سنگت کاروں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کیا ناچ گانا کیا، رنگوں سے خوب کھیلا مگر پھر اکتا گئی۔ گھر واپس جانا چاہا تو پتہ چلا اب گھر کے دروازے

\"In

مجھ پہ بند تھے۔ سوچا ’’اپنے ‘‘ ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟ مگر واپسی پھر اسی رنگوں کی دنیا میں ہوئی۔ لوگ مجھے چھیڑتے آوازیں کستے تھے تو سوچتی تھی ان کو بتائوں میرا کوئی قصور نہیں اسی خدا نے مجھ کو بنایا ہے جس نے تم کو مگر وہ نہ سمجھتے۔ لوگ مجھ سے سوال پوچھتے تھے سنو تم لوگوں کا جنازہ نہیں ہوتا۔ نہ تم لوگوں کو قبروں میں سیدھا کھڑا کرتے، نہ تم لوگوں کی بددعا لگتی ہے نا؟ سوچا آج تو جواب دے ہی دوں ہمارا جنازہ تم لوگ اس لیے نہیں دیکھ پاتے کہ ہم اپنے گھروں سے میلوں دور انجان لوگوں میں انجان علاقوں میں بستے ہیں پھر جب اچانک مرجاتے ہیں تو ہمارے لاشیں ہمارے آبائی علاقوں میں ماں باپ کو دی جاتی ہیں وہ ماں باپ جو سارے عمر ہماری پہچان کو چھپاتے رہے رات کے اندھیروں میں ہمیں دفن کر دیتے ہیں۔ ہم قبروں میں کھڑے نہیں ہوتے اسی طرح پرسکون لیٹتے ہیں جسے تم۔ سزا تو وہی تھی جو ہم دنیا میں کاٹ آئے۔ خدا تو مہربان ہے۔ ہماری بدعا۔ ارے بھئی ہر مظلوم کی بددعا لگتی ہے۔ تو میری جگہ آکے دیکھ؟ سوچو کیا آسان ہے اپنوں سے دور رہنا جہاں نہ ماں کی دعا ہو نہ باپ کی شفقت نہ بہنوں کے لاڈ ہوں اور بھائیوں کا مان۔ تنہائی ہی تنہائی ہو۔ نفرتیں ہی نفرتیں ہوں۔ ’’بس اب مجھے رنگ اچھے نہیں لگتے ـ‘‘ہاں مگر تم کو ایک اچھی بات بتائوں مرنے کے بعد پتہ ہے ہمارا درجہ کیا ہوگا؟’’ارے ہم تو جنت کی چڑیاں ہیں‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments