پاکستان میں مذہبی سیاست کا عنصر کیسے داخل ہوا؟


\"wajahat1\"مسلم لیگ معروف معنوں میں کبھی عوامی اور مقبول جماعت نہیں تھی۔ انگریزوں نے بڑھتی ہوئی آبادی کو جواز بنا کر بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ اس اقدام کا ایک ذیلی مقصد بنگال کے تعلیم یافتہ طبقے میں پائے جانے والے حکومت مخالف رحجانات کو کمزور کرنا بھی تھا۔ کانگریس نے اس کی مزاحمت کی تو وائسرائے نے اسے مغربی بنگال کی متمول ہندو اکثریت اور مشرقی بنگال کی غریب مسلم اکثریت کے تنازع میں بدل کر اس خالص انتظامی فیصلے کو فرقہ وارانہ کشمکش کی صورت دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ نوآبادیاتی حکمرانوں کا ایک خطرناک کھیل تھا۔ اس امر کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ وائسرائے لارڈ منٹو کو 1906ءمیں ڈھاکہ میں قائم ہونے والی نو زائیدہ مسلم لیگ کے وفد کی طرف سے جو محضر نامہ پیش کیا گیا تھا، اس کا مسودہ خود وائسرائے کے عملے نے تیار کیا تھا۔ تقسیم بنگال کے تنازع کو فرقہ وارانہ رخ دینے سے ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد پر گہری ضرب لگی۔ میثاق لکھنو دونوں گروہوں کے سیاسی خدشات دور کرنے کی ایک بالغ نظر کوشش تھی تاہم کانگرس میں بھی ایسے عناصر کی کمی نہیں تھی جو مذہبی تعصب کے باعث اپنی عددی برتری کے بل پر مسلمان اقلیت کو کچل کر بزعم خود گویا صدیوں کا حساب چکانا چاہتے تھے۔ شدھی اور سنگھٹن جیسی تحریکوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ تحریک خلافت داخلی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کی ایک اچھی کوشش تھی لیکن بدقسمتی سے سیاسی اور معروضی سطح پر اس تحریک کا کوئی اور چھور نہیں تھا اور اسے بہرصورت ناکام ہونا تھا۔

محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے۔ نہرو رپورٹ نے ان کے سیاسی خیالات تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1937ء کے بعد تشکیل پانے والی کانگرس وزارتوں کے رویے نے تو گویا لٹیا ہی ڈبو دی۔ دراصل قائد اعظم جناح سیاست میں گوپال کرشن گوکھلے کی دستوری، اصلاح پسند، روادار اور روشن خیال سیاست کے پیرو کار تھے۔ گوکھلے کا انتقال 1915ء میں ہوا۔ ان کے بعد کانگرس کی قیادت میں اس نقطہ نظر کی نمائندگی دیش بندھو چتررنجن داس (سی آر داس ) کرتے تھے کہ ہندوستان کی مسلم آبادی کو محض ایک اقلیت اور اس سے بھی زیادہ ہندوستان کی آزادی میں رکاوٹ سمجھنے کی بجائے اس کے تحفظات اور خدشات کو سمجھنے \"liaqatکی ضرورت ہے۔ مانٹیگو چیمس فورڈ اصلاحات کے تحت ہندوستان کے منتخب اداروں میں شرکت کے سوال پر سی آر داس اور گاندھی جی میں شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ اگرچہ بعد ازاں کانگرس نے چتررنجن داس کی تجویز کردہ حکمت عملی ہی اختیار کی لیکن 1925ءمیں سی آر داس کے انتقال کے بعد کانگرس میں اعتدال پسند نقطہ نظر مستقل طور پر پس منظر میں چلا گیا۔ موتی لعل اور گاندھی جی کے زیر اثر کانگرس میں بنیادی دھڑے بندی قوم پرست اور سوشلسٹ خطوط پر تھی۔ کانگرس کی سیاست میں وہ عنصر رفتہ رفتہ ختم ہوتا گیا جو ہندوستان کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا کر سکتا تھا۔ یہ درست ہے کہ ایک طویل مدت تک مسلم لیگ کی سیاست میں استخلاص وطن کی جدوجہد کو کوئی خاص مقام حاصل نہیں تھا تاہم مسلم لیگ اور ہندوستان کی مسلم آبادی کو خلط ملط کرنا درست نہیں تھا۔ آخری تجزیے میں غیر ملکی حکمرانوں سے آزادی کے بعد ہندوستان کے سب فرقوں کو بہر صورت ایک ہی ملک میں رہنا تھا۔ ہندوستان کی جد و جہد آزادی کے آخری 25 برس میں اگر مسلم لیگ کی سیاست پر ”مسلم شناخت پر اعتدال سے زیادہ اصرار “ کا عنوان جمایا جا سکتا ہے تو کانگرس کی سیاست کو بھی ”حجم کی رعونت “ سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔ اپنی سیاسی قوت کا یہ غیر معتدل احساس صرف ولبھ بھائی پٹیل جیسے تنگ نظر رہنماﺅں ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ پنڈت نہرو جیسے روشن خیال کانگرسی رہنماﺅں میں بھی اس کی جھلک پائی جاتی تھی۔ کیبنٹ مشن پلان ہندوستان کو ایک رکھنے کی آخری امید تھا۔ پنڈت نہرو نے ایک غیر ذمہ دار بیان سے یہ امید ختم کر دی۔

جہاں تک انگریز حکمرانوں سے درپردہ ساز باز کا تعلق ہے تو اس الزام سے کانگرس اور مسلم لیگ کے بیشتر رہنما بری الذمہ قرار نہیں پاتے البتہ مسلم لیگ چونکہ غیرملکی حکمرانوں سے آزادی کی بجائے کانگرس کی مخالفت کو اپنا بنیادی وظیفہ قرار دیتی تھی نیز مسلم لیگ کی قیادت کا بیشتر حصہ عوام دشمن طبقات سے تعلق رکھنے والے سرکار کے حمایت یافتہ افراد کا ٹولہ تھا لہٰذا مسلم لیگ پر یہ الزام عاید کرنا زیادہ آسان تھا۔ اس میں سرحد کے خوانین، پنجاب کے چوہدریوں ، سندھ کے \"kalabagh\"وڈیروں، بلوچستان کے سرداروں اور وسطی ہندوستان کے جاگیرداروں اور نوابین کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ ان اصحاب کی سیاست کا مزاج سمجھنے میں پنجاب کے صرف ایک سیاستدان امیر محمد خان کالاباغ کی شہادت کافی ہو گی۔ امیر محمد خان کے والد دریائے سندھ کے گھاٹ پر کشتیاں چلانے کا ٹھیکہ لیتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں فوجی بھرتی میں مدد دینے پر انہیں خان بہادر کا خطاب دیا گیا تھا۔

الطاف گوہر اپنی کتاب ’لکھتے رہے جنوں کی حکایت‘ میں امیر محمد خان سے روایت کرتے ہیں ، ” ہم لوگ چندہ تو مسلم لیگ کو ادا کرتے تھے مگر ہماری اصل سیاست اپنے کمشنر کی سیاست تھی۔ ایمرسن صاحب (انگریز کو وہ ہمیشہ ’صاحب‘ ہی کہتے تھے) جو کہہ دیتے ہم وہی کرتے تھے۔ لاہور کے ڈپٹی کمشنر کا گھر گورنمنٹ ہاﺅس کے قریب ہی ہوتا تھا۔ یکم جنوری کی صبح ہم لوگ وہاں اکٹھے ہو جاتے تھے۔ بڑے بڑے طرے لگا کر، نیلے گنبد والے کپور تھلہ ہاﺅس کی بنی ہوئی نئی شیروانیاں پہنتے، ہر ایک زمیندار، جس میں ٹوانے، نون، دولتانے اور ممدوٹ سب شامل ہوتے، اپنے ساتھ نذر کی ڈالیاں لاتے۔ ہم سب خاموشی سے شامیانے کے نیچے کھڑے ہو جاتے۔ بات تو کیا، کھسر پھسر بھی نہیں کرتے تھے۔ سب اس انتظار میں کہ ابھی ڈپٹی کمشنر بہادر نمودار ہوں گے تو باجماعت کورنش بجا لایں گے۔ صاحب بہادر نشہ میں مدہوش پڑے ہوتے۔ نئے سال کی آمد کی خوشی میں انھوں نے جام پر جام لنڈھائے ہوتے۔ کوئی گیارہ بجے کے قریب ایک باوردی چوبدار چک اٹھا کر باہر آتا اور اعلان کرتا ”صاحب بولا، سلام ہو گیا“۔ اب ہم بڑے جوش و خروش سے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے اور مبارک سلامت کا غلغلہ مچ جاتا۔ کمشنر بہادر تک ہم زمینداروں کی رسائی مشکل سے ہوتی تھی۔ 1946ءکے آخر میں ہمارے علاقہ کے کمشنر نے ہمیں بلایا اور یہ خبر سنائی کہ انگریز نے ہندوستان چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بس اُس کے بعد ہم لو گ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور پھر ہم نے پاکستان کی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا…. اور ہر طرح کی قربانی دی“۔

تقسیم ہند کے ارد گرد پیش آنے والے یہ واقعات تاریخ کے معمولی طالب علمو ں کو معلوم ہیں۔ مختصر یہ کہ مسلم اور غیر مسلم آبادی کا سرحد کے دونوں طرف تبادلہ کبھی بھی تقسیم ہند کے منصوبے کا حصہ نہیں تھا اور نہ اس کا آزادی کی جدوجہد سے کوئی تعلق تھا۔ زمانہ امن میں انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی نقل مکانی فرقہ \"bukhari\"وارانہ فسادات کا نتیجہ تھی۔ فسادات نے ابتدائی طور پر بنگال اور پنجاب میں مسلم لیگ کی سیاسی مجبوریوں سے جنم لیا تاہم بعد ازاں فسادات پر قابو پانا کانگرس یا مسلم لیگ کی قیادت میں کسی کے لیے ممکن نہ رہا۔ ناخواندہ، سماجی طور پر پسماندہ اور سیاسی تربیت سے عاری عوام کے مذہبی، لسانی یا نسلی تعصب کو بھڑکا دیا جائے تو قتل و غارت گری کا ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے جسے قابو میں رکھنا کسی سیاسی قیادت کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

ہندوستان کے حصے میں آنے والے علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رہنماﺅں کے پاکستان مراجعت کرنے سے بھی نہ صرف ان علاقوں کے مسلمان کمزور ہوئے بلکہ انہیں پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کی تحریک ملی۔ مسلم افسروں اور اہل کاروں کے پاکستان چلے آنے سے بھی یہ تاثر پیدا ہوا کہ نقل مکانی ناگزیر تھی۔ مغربی پاکستان کے اضلاع میں غیر مسلم آبادی قریب 15 فیصد کے قریب تھی جو تقسیم کے بعد صرف ایک فیصد رہ گئی۔ دوسری طرف بھارت کے حصے میں آنے والے علاقوں میں آج بھی مسلمانوں کی تعداد ساڑھے سولہ کروڑ (تقریباً 13.4 فیصد) کے لگ بھگ ہے۔ مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کے علاقوں میں مذہبی شناخت کے اعتبار سے آبادی کے اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ کس فریق نے فسادات میں کیا کردار ادا کیا۔ کانگرس کی قیادت کے معتدبہ حصے نے فسادات روکنے اور مسلم آبادی کو ہندوستان چھوڑنے سے باز رکھنے کی کوشش کی کیونکہ تبادلہ آبادی میں مضمر ایک بڑے انسانی المیے کے علاوہ مسلم اور غیر مسلم کا بالترتیب پاکستان اور بھارت کی طرف مراجعت کرنا کانگرس کے سیاسی موقف کا بھی ابطال تھا۔

دوسری طرف معدودے چند افراد کی نیم دلانہ کوششوں (مثلاً راجہ غضنفر علی ) کے سوا مسلم لیگی قیادت بالخصوص مقامی رہنماﺅں نے فسادات کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ بھارت سے آنے والے رہنما مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو پاکستان لا کر اپنے لیے حلقہ انتخاب تخلیق کرنا چاہتے تھے۔ مقامی قیادت غیر\"shabirahmedusmani\" مسلموں کو باہر نکال کر اپنے لیے معاشی، سیاسی اور معاشرتی بالادستی کا راستہ صاف کرنا چاہتی تھی۔ اس کا ثبوت قیام پاکستان کے فوراً بعد مقامی اور غیر مقامی مسلم لیگی رہنماﺅں کی چپقلش تھی۔ یہ امر کے شواہد موجود ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کے محض قائد اعظم ہی سے سنجیدہ اختلافات نہیں تھے۔ لیاقت علی کے پنجاب میں میاں عبدالباری اور نواب ممدوٹ، سندھ میں ایوب کھوڑو، بنگال میں حسین شہید سہروردی، صوبہ سرحد میں عبدالقیوم خان اور بلوچستان میں خان آف قلات سے بھی تعلقات کشیدہ تھے۔

 لیاقت علی ہندوستان سے آنے والی مسلم لیگی قیادت کے نمائندہ تھے جب کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں کے بیشتر رہنما بنیادی طور پر سرکار نواز سیاست (مثلاً یونینسٹ پارٹی) کی روایت رکھتے تھے۔ مقامی مسلم سیاسی قیادت کی اکثریت نے بہت تاخیر سے تقسیم ہند کو ناگزیر جان کر مسلم لیگ کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں آنے والے علاقوں کی جس سیاسی قیادت نے غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں حصہ لیا تھا، انہیں بیک جنبش قلم غدار قرار دے دیا گیا۔ جواز یہ کہ انہوں نے تقسیم ہند کے مطالبے کی حمایت نہ کر کے گویا مسلمان ’قوم‘ سے غداری کی تھی۔ ان سیاسی قوتوں میں عبدالغفار خان کی سرخ پوش تنظیم کے علاوہ مجلس احرار بھی شامل تھی۔ مجلس احرار نے تو جلد ہی بدلے ہوئے حالات میں مذہب کا چولا اوڑھ کر گویا خود پر پاکستانی سیاست کے دروازے کھول لیے لیکن سرخ پوش تنظیم (بعد ازاں نیپ اور پھر اے این پی) کو آزادی کی لڑائی میں پٹھو سیاست نہ کرنے کی سزا کئی دہائیوں تک بھگتنا پڑی۔ دوسری طرف جو لوگ مولوی ظفر علی خان کے الفاظ میں انگریز کے ’کاسہ گدایانِ ازلی‘ تھے، وہ محض مسلم لیگ سے سطحی وابستگی کی بنا پر ’مجاہدین آزادی‘ کے لقب سے سرفراز ہو گئے۔

قیام پاکستان کے بعد مجلس احرار کے مرکزی رہنما عطااللہ شاہ بخاری اپنی نجی مجلسوں میں کھلے بندوں کہا کرتے تھے کہ ”ہم تو56 فیصدی کی سیاست کرنے والے لوگ تھے۔ (متحدہ پنجاب میں مسلمانوں کی تعداد 56 فیصد تھی۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے ملازمتوں میں 56 فیصد کوٹے کا مطالبہ ”56 فیصدی کی سیاست“ کہلاتا تھا۔ ) لیکن جب مسلم لیگ کے جدید تعلیم یافتہ رہنماﺅں نے مذہب کا نام لے کر ہمیں سیاسی شکست دی تو ہم نے سوچا کہ مذہب تو گویا ہمارا اپنا میدان ہے۔ مسلم لیگ یہاں اپنا زور بازو آزما سکتی ہے تو ہم تو اس میدان میں اسے مفلوج کر کے رکھ دیں گے“۔

درحقیقت سیاسی سطح پر قوم پرست نقطہ نظر سے کانگرس کی حمایت سے قطع نظر مجلس احرار کی سیاست کے دیگر خدوخال کچھ ایسے خوشگوار نہیں تھے۔ ان کے \"maudoodi\"سماجی خیالات رجعت پسند تھے۔ انگریز استعمار سے دشمنی ان رہنماﺅں کے لیے گویا جدیدیت کی مخالفت کے مترادف تھی۔ اپنی مذہبی شناخت کے علی الرّغم عوامی اجتماعات میں ان کی زبان مبتذل اور دلائل اشتعال انگیز ہوتے تھے۔ معدودے چند رہنماﺅں کے سوا یہ لوگ مالی طور پر شفاف شہرت نہیں رکھتے تھے۔ 1931ءکی کشمیر تحریک ہو یا فرقہ وارانہ تنازعات، یہ حضرات عوامی جذبات بھڑکا کر خون خرابہ کرانے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ تقسیم ہند سے کچھ عرصہ قبل جب یہ واضح ہو گیا کہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جا رہا ہے تو مجلس احرار نے پنجاب کی سطح پر ’حکومت الہیہ‘ کا شوشا چھوڑ دیا۔ بظاہر مسلم عوام کے سامنے ’حکومت الہیہ‘ کا تصور پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی لیکن احرار کا درپردہ مقصد مسلم لیگ کی قیادت کو زچ کرنا تھا۔ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا نام استعمال کرنے والی مسلم لیگی قیادت کے لیے ’حکومت الہیہ‘ کے ’نیک نصب العین‘ کی مخالفت کرنا آسان نہیں تھا۔ 1947ءکے نصف اول میں پنجاب کے سیاسی حلقے بخوبی آگاہ تھے کہ مجلس احرار کی طرف سے ’حکومت الہیہ‘ کے اشقلے کو کانگرس قیادت کی خفیہ حمایت حاصل تھی۔ سیاست کے میدان میں مسلم لیگ نے مذہب کا جو پیادہ اتارا تھا وہ گویا پورس کے ہاتھیوں کی طرح اس کی اپنی صفیں کچلنے کے درپے ہو رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments