اسد اللہ غالب بنام ظفر اقبال


جمیل المناقب و بلند اقبال عزیزی ظفر اقبال کو خلد بریں سے غالب کا سلام نیاز پہنچے۔\"waqar

دلنوازم ! بعد دعائے دوامِ حیات و ترقی درجات تمہیں معلوم ہو کہ دنیائے فانی میں میر کے بعد میر ہونے کی خواہش میں کئی فقیر ہوئے پَر میر نہ ہوئے۔ غالب کے بعد جس نے بھی غالب بننے کی سعی کی وہ مغلوب ہوا مگر غالب نہ ہوا۔ اقبال کے بعد کوئی وہ اقبال حاصل نہ کر سکا جو اقبال کا خاصہ تھا۔ ہر گلے را رنگ و بُوئے دیگر است، تاریخ میں دور نہ جاﺅ، فیض کے بعد فیض کی مسند پر خود کو فروکش دیکھنے کے کتنے ہی آرزو مند بے فیض ہو گئے مگر فیض نہ ہوئے۔ مختصر کرتا ہوں کہ اور تو اور تمہارے عہد کی بلبل خوش نوا اور حال اس فقیر کی ارادت مند و نورِدیدہ و سرورِ دل پروین شاکر، جس کے خال و خد پر حورانِ بہشت بھی رشک کرتی ہیں، کے بعد جذبہ محبت کی ترجمانی کاوہ فن کسی سخن ور کو آہی نہ سکا، جو پروین کے ہنر کا شاہکار تھا۔ میاں! تمہیں یہ بھی آگاہی ہو کہ یہاں جنت میں جب بھی شہزادگانِ ادب جمع ہوکر محفلِ سخن برپا کرتے ہیں تو کرسی صدارت پر یہ عاجز ہی جلوہ افروز ہوتا ہے۔ گویا غالب یہاں بھی غالب ہی ہے۔

مردمِ چشم جہاں بینِ غالب ! تمہیں اپنے کلام پر اس درجہ متوجہ پاکر اور مائلِ تحقیق و تنقید جان کر مسرور ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ تم کو مجھ سے اتنی ارادت اور محبت کیوں ہے کہ کلام غالب پر تضحیک نما تنقید کے نشتر چلاتے ہو۔ کبھی اسے فارسیت زدہ گردانتے ہو،کبھی کہتے ہو کہ غالب اکثر ایسے اشعار کہنے پر آمادہ رہا جن کا بظاہر کوئی سر پیر ہی نہ ہو۔ کبھی میرے کلام کو لا ینحل معمہ قرار دیتے ہو، کبھی اسے ایسی رسد شمار کرتے ہوجس کی طلب نہ ہونے کے برابر ہے اور ناچیز کی شاعری کے ایک حصے کو مزاحیہ کلام سے بھی تعبیر کرتے ہو۔ گویا تمہارے مقرر کیے ہوئے قاعدے کے موافق مرزا نوشہ متشاعر ہوا۔

\"mirza-ghalib\"پہلے اس قدر افزائی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ حضرت نے اس ہیچ مدان کو قابلِ خطاب اور اس کے کلام کو لائقِ نشتر زنی جانا، پھر عرض کرتا ہوں کہ کاش تمہارے عہد میں جنم لیا ہوتا تو بیدل کی بجائے تم سے رجوع کرتا، صبح شام کورنش بجا لاتا اور اصلاح لیتا۔ اس طرح جہاں غالب بے نوا کے مصرعے ہم وزن ہوتے اور ردیف قافیہ میں بھی کوئی تال ہوتا، وہاں تم اس کی مشکل پسند طبیعت کا بھی کچھ علاج کرتے۔ استادِ ممتاز !عائلہ تکلف و تملق آپ کا کلام معجز نظام ہے۔ ندرت خیال،رچاﺅ، غنائیت اور بالخصوص عام فہمی، اللہ اللہ۔ مشتے نمونہ از خروارے۔

کلیاں بہہ کے کھاندا

ظفرا یار کریلے

اور تمہارے اس شعر کے جمالیاتی حسن، سادگی،گہرائی اور کشادگی فکرو نظر پر تو غالب ناتواں غش کھا گیا کہ

کس جنگل میں کھوئے

اوئے،اوئے، اوئے

بے شبہ کوئی خیال افروز استاد ہی اس معجز نما کلام کا خالق ہو سکتا ہے، پھر شمس الرحمن فاروقی نے کیا غلط کہا کہ ظفر اقبال غالب سے بڑا شاعر ہے؟ تم انتظار حسین اور ساقی فاروقی جیسے حاسدین کی باتوں پر دل چھوٹا مت کروکہ ”یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے“….یاد آیا، مجھے ڈومنی سے عشق کے بھی تم خوب طعنے دیتے ہو۔ بے شبہ غالب خستہ نے اس ستم پیشہ ڈومنی سے عشق کیا مگریاد رہے کہ اب وہ حوروں کے جلومیں رہتاہے۔ میاں! تمہاری تنقید سے توغالب کے مقام میں کوئی فرق آیا ہے یا نہیں، مگر خطرناک بات یہ ہے کہ کچھ سخن شناس حوروں، ملائکہ اورخلد آشیانی سخنوروں کے تیور تمہارے بارے میں مناسب نہیں، جن سے چاروناچار تمہیں آنکھیں چارکرنا ہی پڑیں گی۔

میاں! اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ایک بڑا ہی پیارا شاعر محسن نقوی تمہارے عہدِ علم و ہنر سے مناسب ’قدر افزائی ‘کے سبب یہاں میرے حلقہ رفاقت میں آیا ہے۔ بخدا مائل بہ سخن ہوتا ہے تو ماحول پر وجد آفریں کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ کل سحر دم شہد کی نہر کے کنارے میرے سامنے با ادب، با ملاحظہ، گوش بر آواز بیٹھا تھا کہ میرے افکار و کردار اور شاعری پر تمہارے طعن و تشنیع کا ذکر چھڑ گیا۔ واللہ! پھر کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر اور نہر کی روانی ہم سفر ہوئے تو فقیر و حوروملائکہ ہمہ \"zafar\"تن گوش ہوئے۔ کیا خوب شعر سنائے کہ

مخلوق تو فنکار ہے اس درجہ کہ پل میں

سنگِ درِ کعبہ سے بھی اصنام تراشے

تُو کون ہے اور کیا ہے تِرا داغِ قبا بھی

دنیا نے تو مریم پہ بھی الزام تراشے

یکتائے زمانہ! ہمارے عہد کو بے شک تاریک اور فارسیت زدہ کہو مگر آگاہ رہو کہ غالب مشکل پسند ارفع درجے کی اولڈ ٹام اور کاس ٹیلن کی بوتلیں چوبیس روپے درجن لیتا تھا۔ شنیدم کہ تقسیم ہند کے بعد اب تو تم لوگوں کو مری بروری کے ٹھرے بھی خالص میسر نہیں۔ ایسے ناموافق حالات میں غالب پر تنقید ہو گی یا پھر ایسا ہی ادب تخلیق ہو گا جیسا ہو رہا ہے، جبھی تو عزیزی انور مسعود نے کہا ہے کہ اس دفعہ خربوزے اور شاعر زیادہ ہوئے ہیں۔ الامان! ہاتھی کی ضخامت کی کلیاتِ غزل ظفر اقبال کی چار جلدیں، مضامین نو کے انبار اور ہر روز کالم، آفریں ہزار آفریں۔ بندہ پرور! کچھ تھمنے میں آﺅ، خود بھی سانس لو اور بے چارے قاری کو بھی دم لینے دو۔ آگاہ رہو کہ اس عمر میں رعشہ و ضعف بصر و دماغ، فکر مرگ اور غم عقبیٰ آدمی کو بقائمی ہوش و حواس خمسہ نہیں رہنے دیتے اور وہ خود کو میر و غالب سے بڑا شاعر سمجھنے لگتا ہے۔

ہمہ صفت مصنف کتب کثیرہ! ایک مشورہ دیتا ہوں،اگر خفا نہ ہو جاﺅ گے تو مفاد و حظ اٹھاﺅ گے۔ قبر میں پاﺅں لٹکائے بیٹھے ہو، دو آدمی تمہیں تھام کر اٹھاتے ہیں اور پیرانہ سالی میں ضعف بصارت کا عارضہ بھی لاحق ہے۔ میری مانو تو مشق سخن کی مشقت ترک کرو اور خصائص بالا کی بنیاد پر بے دھڑک رویت ہلال کمیٹی میں شامل ہو جاﺅ۔”دال دلیہ“ بھی چلتا رہے گا اور عید بقرعید قوم کی دعائیں بھی لیتے رہو گے۔

والدعا: تمہارا چچا اسداللہ خان غالب

 یک شنبہ،12صفرالمظفر 1437ھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments