میں اپنی ماں اور بہن سے محبت کرتا ہوں


 \"zafarullah-khan\"بات سوال کی نہیں ہے۔ سوال کو استدلال کی آنچ پر چڑھا کر غلط بھی ثابت کیا جا سکتا ہے اور درست بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اس سماج میں ایسے لوگ موجود ہیں جو تاریخ کی خبر اس استدلال کے ساتھ لائیں گے کہ آپ کو سوال درست تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہاں وہ لوگ موجود ہیں جو مذہبیات کی تاریخ سے وہ استدلال سامنے لائیں گے جس میں باندیوں کا لباس بیان کیا گیا ہے۔ باندیوں کا سراپا کھینچا گیا ہے۔ ان کے اعضائے بدنی کا ذکر اس انداز میں کیا گیا ہے کہ گویا ان کی خرید و فروخت ہوتی ہی جنسی اعضاء کی بنیاد پر تھی۔ وہ حوروں کے سراپے کے بیانات کا حوالہ دیں گے۔ ان کے ساتھ جنسی تعلق کے بیانات کا حوالہ دیں گے۔ وہ ایسی کتابوں کا حوالہ دیں گے جس میں شادی کے بعد مرد اور عورت کے جسمانی تعلق پر مفصل باب لکھے گئے ہیں۔ پھر وہ سوال اٹھائیں گے کہ اگر یہ سب کچھ پڑھنا، پڑھانا اور بیان کرنا ٹھیک ہے تو ایک امتحانی پرچے میں ایک بے ضرر سے سوال پر شور کیوں ہے؟ دوسری طرف ایک گروہ ایک مصلح معاشرے کا سراپا بیان کرے گا۔ مشرقی اقدار کا ایک نقشہ کھینچ لے گا۔ عورت کی عزت و حرمت کے حوالے لے کر آئے گا۔ محمد بن قاسم اور ایک مظلوم لڑکی کے خط کا ذکر کرے گا۔ اپنی بات کو آفاقی اقدار کا حوالہ قرار دے گا۔ آکسفورڈ ڈکشنری سے (Pyhsique) کا مفہوم( The size and shape of a person\’s body) بتائے گا اور پھر سوال اٹھائے گا کہ اس صالح معاشرے میں ایک ممتحن انگریزی کے پرچے میں بڑی بہن کا سراپا بیان کرنے جیسا اخلاق باختہ سوال کیوں پوچھ رہا ہے؟ کچھ لے دے ہو گی۔ ایک دوسرے راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔ انسانیت اور مسلمانی کی بحث ہو گی۔ اپنے اپنے نظریات کا پرچار ہو گا۔ بیچ بیچ میں قومی منظرنامے پر حادثے جنم لیتے رہیں گے۔ کہیں بازار کو بموں سے مسمار کیا جائے گا اور کہیں چند مظلوموں کو دھمال ڈالنے جرم میں لقمہ اجل بنا لیا جائے گا۔ میں، آپ اور باقی سب لوگ دو دن کے لئے فیس بک پر اپنی ڈی پی کالی کر لیں گے اور کسی نئے حادثے یا کسی نئے خط و پرچے کے سوال تک سکون رہے گا۔

مجھے یہ سوال کچھ لکھنے پر آمادہ نہیں کر سکا۔ میں نے سوال دیکھا۔ اس پر ہونے والے تبصرے دیکھے۔ اخبارات کھول کر شاہ نورانی کے مزار پر مرنے والوں کی گنتی معلوم کی اور ایک کپ چائے بنا کر سیگرٹ سلگا لی۔ اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا میں ایک بے حس انسان بن چکا ہوں؟ مجھے جواب نفی میں ملا۔ مجھے خوشی ہوتی اگر میں ایک بے حس انسان ہوتا مگر میری بدقسمتی ہے کہ میں ایک بے حس انسان نہ بن سکا۔ مشکل یہ ہے کہ کچھ کہنے کو ہے نہیں میرے پاس۔ میں شاہ نورانی کے مزار پر مرنے والوں کا کیا نوحہ لکھوں؟ میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری قتل عام پر رویا۔ میں اے پی ایس پشاور پر رویا۔ میں نے باچاخان یونیورسٹی حملے کا نوحہ لکھا۔ میں نے لاہور پارک کے دھماکے کو نوحہ لکھا۔ میں نے کوئٹہ میں وکلاءکے قتل عام پر خون تھوکا۔ میں پولیس کالج پر رویا۔ اب مزید کیا رﺅوں؟ انہی جملوں کو بدل بدل کر کتنی بار لکھوں؟ کتنی یہ بار یہ بیانات سنوں کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ دہشت گردوں نے سافٹ ٹارگٹ پر حملہ کیا۔ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ ایک روٹین پریکٹس ہے جو ہر بار ہوتی ہے۔ اصل مسئلے پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تاریخ کی ڈگدگی کتنی بار بجائیں گے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ شدت پسندی جس بھی شکل میں ہو گی ہمیں قابل قبول نہیں ہو گی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سرحدوں سے نکل کر جو لوگ افغانستان میں خود کش دھماکے کرتے ہیں یا ممبئی میں معصوم انسانوں پر گولیاں برساتے ہیں ان پر ہم خاموش ہیں مگر یہ امید رکھتے ہیں کہ وہاں سے شاید پھول آئیں گے۔

 \"mother-kissing-boot\"

ہم نے طے کر لیا ہوا ہے کہ سماج کی ساری حقیقت آٹھ دس لوگوں یا ایک دو اداروں سے منسوب ہے۔ وہ جو کلام فرمائیں گے اسی کو سچ مانا جائے گا ۔ قومی مفاد کی تشکیل وہ کریں گے۔ حب الوطنی اور قومی مفاد کا فیصلہ انہی کی ذات والا صفات سے صادر ہو گا۔ وہ اپنے ہاں موجود شدت پسندوں کی ہم خواہی کریں گے تو ہم اسی کو سچ مان کر اس پر دانشوری کریں گے۔ وہ افغانی طالبان کی عذرخواہی کریں گے تو ہم اسے قومی خدمت سمجھ کر صفحے کالے کر دیں گے ۔ وہ یہاں موجود مذہبی شدت پسندوں کی خوشہ فروشی کریں گے تو ہم اسے مذہبی فریضہ سمجھ کر داد سمیٹیں گے۔ شدت پسندی کو بڑھاوا دینے جیسے جرم پر سوال اٹھایا جائے گا تو وہ ہمارے بھائیوں کی لاشوں کو کولیٹرل ڈیمیج قرار دیں گے۔ جو ادارے اس شدت پسندی پر آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ان کر کردار پر سوال اٹھانے سے قومی دانشور بدک جاتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فلاں فلاں ادارے پر سوال اٹھانے سے آپ قومی غدار کہلاتے ہیں۔ فلاں فلاں ادارے سے سوال نہیں پوچھا جا سکتا کیونکہ ان سے سوال پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک ریڈ لائن کراس کر لی۔ اچھا بھائی! تو آپ اپنی ریڈ لائن کے اندر محفوظ رہیے۔ عوام جہاں جہاں دہشت گردی کے رحم و کرم پر ہیں ان کو سافٹ ٹارگٹ قرار دیا کیجیے۔ آپ خود کو قلعہ بند کیجیے اور وہاں سے دہشت گردوں کے کمر ٹوٹنے کے بیانات داغا کریں۔ ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ میرے گاﺅں کے مسجد کا مولوی صاحب افغانستان میں خودکش دھماکہ کرنے والے گاﺅں کے نوجوان کی موت پر لوگوں کو مبارکباد دے گا۔ کل کسی صاحب شاہ نورانی کے مزار میں خودکش کرنے والے کے گاﺅں والے کو بھی مبارکباد دی ہو گی۔ ہمارے کاندھوں پر اب اپنی لاش دھری ہے ایک دن آئے گا کہ کسی اور کے کاندھوں پر ہماری لاش ہو گی۔ کچھ لوگ ڈی پیاں کالی کر کے اپنا قومی فریضہ انجام دے دیں گے۔

جہاں تک بہن پر نوٹ لکھنے کے سوال کی بات ہے تو اس پر میں خاموش ہوں۔ میں اس سماج کا حصہ ہوں جہاں بہن، بیٹی اور بھینس کے حقوق برابر ہوتے ہیں۔ سوال اگر یہ ہوتا کہ اپنی بہن اور اپنی بھینس کا موازنہ کیجیے تو میں ضرور کر لیتا مگر یہاں سوال کچھ اور ہے۔ میرے سماج میں بہن ، بیٹی، بیوی حتی کہ ماں تک یہ اجازت حاصل نہیں کہ وہ کسی شدید بیماری کی حالت میں بھی کسی مرد کے بغیر ڈاکٹر کے پاس جا سکے۔ میرے سماج میں بہنوں اور بیٹیوں کے نکاح ان کی مرضی کے بغیر کئے جاتے ہیں۔ پالنے میں نکاح کا رواج عام ہے۔ وراثت میں بہن، بیٹی، بیوی اور ماں کو کوئی حق نہیں ملتا۔ قبائلی دشمنی میں جو غیرت مند نوجوان کسی کا قتل کر کے کہیں مفرور ہو جاتے ہیں ان کی جان یوں بخشی جاتی ہے کہ کسی کی بہن یا کسی بیٹی دشمن کے گھر میں خون بہا کے طور بیاہ دی جاتی ہے۔ اپنی مرضی سے نکاح کرنے والی لڑکی کی صرف ایک ہی سزا ہے اور وہ قتل ہے۔ اپنی مرضی سے نہ پڑھنے کا حق ہے اور نہ کپڑے پہننے کا حق حاصل ہے۔ کہیں آپ کپڑے پہننے کا حق یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ میں کسی جینز شرٹ کی بات کر رہا ہوں۔ یہ جرم ابھی تک وہاں کسی نے کیا نہیں ہے ممکن ہے اس کی سزا بھی سماج کے غیرت مندوں نے قتل رکھی ہو۔ میں تو ایک دوپٹہ کے ساتھ ایک سادہ شلوار کرتے کی بات کر رہا ہوں۔ وہاں یہ پہننا بھی جرم ہے بلکہ اس کی جگہ ایک گول سا خیمہ عام ہے جسے آفاقی لباس قرار دیا گیا ہے۔ میرے سماج میں کوئی بھی خاتون چاہے وہ ماں ہو یا بیٹی اس کو یہ اجازت حاصل نہیں کہ وہ اپنے دھلے ہوئے کپڑے کسی ایسی جگہ سکھانے کے لئے ڈال دے جہاں اس پر کسی مرد کی نظر پڑ سکتی ہو، بھلے وہ گھر کا ہی مرد ہو۔ میرے سماج میں کسی جگہ کچرے کے ڈھیر پر بھی سینٹری نیپکن نظر آئے جائے تو سماج کی آفاقی آوازیں فحاشی کی دہائی دیتی ہیں۔ میرے سماج میں میکے سے لے کر سسرال تک دو وقت کی روٹی اور چار جوڑے کپڑے کی مزدوری ہر عورت کی کل زندگی ہے۔ آسان الفاظ میں بیان کروں تو میرے سماج میں عورت اور بھینس کے حقوق برابر ہیں۔ میں اس پر طویل نوٹ لکھ سکتا ہوں۔

 \"mother\"

 یہ سوال میرا مسئلہ نہیں تھا مگرانہی صفحات پر کسی غیرت مند کا ایک جملہ دیکھا، جس نے ایک مضمون نگار سے کہا تھا کہ’ آپ اپنی بہن کی خوبصورتی پر نوٹ لکھیے میں آپ کو سو نمبر دوں گا‘۔ تو بھائی میں جس سماج سے آتا ہوں وہاں بہن پر نوٹ لکھنا تو درکنار بہن، بیٹی، بیوی یا ماں کا نام بھی کسی اور کے سامنے بے غیرتی ہے۔ میرے سماج میں ڈاکٹر پرچی پر عورت کا نام نہیں لکھتا بلکہ ’ والدہ زید‘ اور ’ ہمشیرہ بکر‘ لکھتا ہے۔ وہاں بہن ، بیٹی، بیوی اور ماں کو اپنے نام نہیں پکارا جاتا۔ اب اگر اخلاقی اقدار کے پیمانے کسی گروہ نے طے کرنے ہیں اور ایسے ہی طے کرنے ہیں تو بھائی پھر ہم تو زیادہ غیرت مند ہیں۔ پھر آپ اپنے اخلاقی اقدار کو چھوڑ دیجیے کیونکہ میرے سماج کے مطابق آپ کے اخلاقی اقدار بھی دراصل اخلاقی پستی ہے۔ آپ کو اچھا نہیں لگتا کہ آپ زیادہ غیرت مند بنیں؟ آپ میرے سماج کی اعلی اخلاقی اقدار اپنا لیجیے۔

 بات یہ ہے کہ میرے سماج میں چند آفاقی ارواح نے اپنے مفروضہ اخلاقی معیارات جاہل اکثریت کی بنیاد پر مسلط کئے ہیں۔ میں تو کھلے دل سے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میرے سماج کے اخلاقی معیارات غلط ہیں اور یہ کسی پر لاگو نہیں کئے جا سکتے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھے اپنے سماج سے تکلیف ہے۔ میرا سماج جاہل اکثریت کی بنیاد پر مجھے سماج بدر تو کر سکتا ہے مگر میری آواز پر پابندی نہیں لگا سکتا۔ میں اپنی آواز اٹھاتا رہوں گا کیونکہ اس سماج کے تمدنی اور تہذیبی عمل میں میرا حصہ یہی ہے۔ میری بدقسمتی ہے کہ میں اپنے سماج اور آپ کے سماج میں کوئی جوہری فرق ڈھونڈ نہیں پایا۔ میرا سماج مجھ پر بے غیرتی کا فتوی لگاتا ہے۔ آپ کی اخلاقی حمیت اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ان لوگوں پر بے غیرتی کا فتوی لگاتی ہے جو ایک امتحانی پرچے میں کئے گئے سوال میں سے جنسیت برآمد نہ کر سکے۔ آپ کی دستار سلامت اور آپ کی غیرت سلامت میں اس قبیل کی غیرت کو جڑ سے جانتا ہوں جہاں عورت کا وجود ایک گالی کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔ آپ اخلاقی حمیت کی مدھانی میں اپنا بلونا چلاتے رہیں۔ اس مدھانی میں سے غیرت کا جو مکھن نکلے گا وہ اس سماج میں موجود بے غیرتوں کو کھلا دیجیے تاکہ آپ کے اخلاقی اقدار کا سکہ رائج ہو سکے۔ میں آپ کے اخلاقی معیارات سے زیادہ کڑے معیارات دیکھ چکا ہوں۔ میں اپنی ماﺅں، بیٹیوں اور بہنوں کا گلا گھونٹنے کو تیار نہیں ہوں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments