درگاہ نورانی کی لاشیں، گجرات کی ماریہ اور ممتحن کا سوال


\"farnood-01\"

وقت ساتھ دینے سے انکاری ہے۔ سچ یہ ہے کہ طبعیت کسی بھی طور آمادہ قرطاس و قلم نہیں ہے، اور اگر ہے بھی، تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے۔ عشرت رضوی نے بالکل درست گرفت کی ہے۔ درگاہ نورانی پہ جو دھمال ڈال رہے تھے ان کی لاشیں بکھری پڑی ہیں، زخمی کراہتے ہیں، جو بچ رہے ان کی آہ وفغاں سے فضا سوگوار ہے، شہدا تو دفنائے بھی جا چکے، حرام ہے جو ایک حرفِ تسلی بھی آپ نے گوارا کیا ہو۔ ٹھیک، بالکل ٹھیک۔ آپ نے بجا فرمایا، مگر مجھے اعتراف کرنے دیجیئے کہ درگاہ شاہ نورانی پہ جان سے گذرجانے والوں کا دکھ جس طرح آپ نے محسوس کیا، میں نے نہیں کیا۔ وجوہات چار ہیں

1۔ مجھ پر یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ حملہ کرنے والے کبھی مسلمان نہیں ہوسکتے، مسلمانی تو وہ یونہی روایت نبھانے کے لیے کرواتے ہیں۔

2۔ میں یہ جان چکا ہوں کہ حملے دراصل سی پیک پر ہوتے ہیں، انسان تو بس یونہی زد میں آجاتے ہیں۔

3۔ میں یہ مان چکا ہوں کہ حملے میں ’’را‘‘ ملوث ہوتی ہے، دفاعی اداروں پہ تو بس یونہی سوال اٹھا دیے جاتے ہیں۔

معرفت کی یہ تین گرہیں اگر آپ پر کھل گئی ہیں تو ابن مریم کی کوئی ضرورت نہیں، آپ اپنے درد کی دوا پا چکے ہیں۔ ایک چوتھی وجہ اور بھی سن لیجیے۔ ہر ایک کا اپنا ہی ایک درد ہوتا ہے۔ آپ کا اپنا میرا اپنا۔ ہم جبر نہیں کرسکتے۔ میں آپ پر نہیں۔ آپ مجھ پر نہیں۔ آپ درگاہ شاہ نورانی پرانسانوں کے بکھرے ہوئے اعضا سمیٹ رہے تھے، میرا درد کیسے محسوس کرتے۔ میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والی ایک حاملہ لڑکی کوچیختے چلاتے موت کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہا تھا، آپ کا درد کیسے سمجھتا۔ اب آوازیں بیٹھ گئی ہیں، دھول بھی بیٹھ گئی ہے، آپ کا دکھ میں نے سن لیا ہے، میرا دکھ آپ سن لیجیے۔

\"panchayat-rape\"

آج سے چند ماہ قبل گجرات کے لیاقت نے محمد بوٹا کی کمسن بیٹی کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی، رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ پرچہ ہوا، گرفتار ہوگیا۔ کچھ راتیں کاٹنے کے بعد رہائی مل گئی۔ معاملہ پنچایت میں چلا گیا۔ فیصلہ ہوا کہ متاثرہ بچی کا والد محمد بوٹا اپنی کم سن بیٹی کے بدلے کے طور پر اگر ملزم لیاقت کی بیٹی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا ڈالے، تو حساب برابر ہوجائے گا۔ یوں فریقین کے بیچ معاملہ ختم ہوجائے گا، صلح ہوجائے گی۔ فیصلہ اتفاق رائے سے قبول کرلیا گیا۔

محمد بوٹا نے اپنی کم سن بیٹی کا بدلہ لیاقت کی بیٹی ماریہ سے لے لیا، یوں راضی نامہ ہوگیا۔ ماریہ کو مردوں کی یہ تہذیب گوارا کرنی تھی، سو اس نے گوارا کی۔ وہ کچھ ہی دن میں خاموشی کے ساتھ اپنے سسرال کشمیر بھیج دی گئی۔

دن گذرتے گئے، گھاؤ گہرا ہوتا گیا۔ وہ درد جو دیکھا نہیں جا سکتا تھا، پیٹ میں پلتا رہا۔ خود کشی حرام ہوتی ہوگی، مگر جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا سہارا یہی بنتی ہے۔ چند دن پہلے ماریہ نے تیل کا غسل لیا اور خود کو آگ لگالی۔

\"woman-fire\"

اسے ہنگامی حالات میں میو ہسپتال لاھور لایا گیا۔ میو ہسپتال میں زندگی موت کی کشمکش میں کچھ گھنٹے کاٹنے کے بعد اول اس نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا، پھر اپنی جان دے دی۔ پولیس کو مردہ بچے کی تلاش ہے، مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ جس لمحے درگاہ شاہ نورانی پہ دھماکے کی خبر آئی، اسی لمحے ٹی وی اسکرین پر اس خبر کا دھماکہ ہوا۔ مگر فرق تھا۔ بہت واضح فرق۔ درگاہ شاہ نورانی سے اٹھنے والی چیخیں دنیا کو سنائی دے رہی تھیں، ماریہ لیاقت کی چیخیں گجرات کے ایک کمرے میں اٹھی تھیں، کشمیر کے ایک گھروندے میں خاموش ہوگئی تھیں۔ پھر خاموشی نے چیخنا شروع کیا، مگر خاموشی کی چیخیں کون سنتا ہے۔ آخری باریہ چیخیں میو ہسپتال کے ایک کمرے میں اٹھیں اور دوسرے کمرے میں دم توڑ گئیں۔ لیکن اس وقت کہ جب یہ سب لکھ رہا ہوں، مجھے یقین ہوچکا کہ محترم عشرت رضوی کا درد بے جا نہیں تھا۔ اب عشرت کو یقین ہورہا ہوگا کہ غلط میں بھی نہ تھا۔ حادثے کا تناسب تو البتہ ضروری ہے نا صاحب۔ تجزیہ کرتے ہیں۔

\"kidnapped-children\"

گجرات کے لیاقت نے ہاتھ کس پہ ڈالا؟ چھ سالہ بچی پر۔ جی ہاں، چھ سالہ بچی پر۔ کیا یہ کم حادثہ ہے؟ اب یہ دیکھیے کہ سزا کس کو ملی۔ لیاقت کی بیٹی کو۔ وہ بچہ جس نے ابھی دودھ کے دانت نہیں توڑے، کیا اس کے لیے بھی یہ فیصلہ مشکل ہے کہ سزا کس کو ملنی چاہیے تھی۔ دکھ تو یہ ہے کہ محمد بوٹا کی بیٹی معصوم تھی اور درد یہ کہ لیاقت کی بیٹی بھی بے گناہ تھی۔ المیہ مگر کچھ اور ہے۔ المیہ یہ ہے کہ محمد بوٹا اپنی متاثرہ معصوم بیٹی کا بدلہ ایک بے گناہ لڑکی سے لینے پر آمادہ ہوگیا، اورالمیہ درالمیہ یہ کہ لیاقت اپنی بیٹی کو ناکردہ جرم کی سزا کے واسطے پیش کرنے پر راضی ہوگیا۔ یہ سب کہاں ہوا؟ اسی پاک سرزمین پر کہ جس کی تہذیب دنیا کے نقشے پرتقدیس و پاکیزگی کا آخری نمونہ ہے۔

اس تہذیب پہ رشک آتا ہے کہ اس کو ایسے نگہبان ملے ہیں جو براہ راست عرش سے فیض پاتے ہیں۔ عشرت رضوی نے میری بے حسی کا ماتم کیا، بالکل جائز کیا کہ میں نے ایک چیخ کیا سنی، چھتیس لاشوں اور ڈیڑھ سو زخمیوں کی آہ و فغاں بھول گیا۔ میں عشرت رضوی کی بے حسی پہ ماتم کرتا ہوں، شاید ٹھیک ہی کررہا ہوں کہ کچھ دھول اورشور کیا اٹھا کہ اسے گجرات کی ماریہ نظر ہی نہ آئی۔ مگر عشرت رضوی کو چاہیے کہ اطمینان کی اس گھڑی میں میرا ساتھ دے کہ حادثوں کے اس شور میں ایک خبر جو نہ اسے دکھائی دی اور نہ مجھے دکھائی دی، تہذیب کے نگہبانوں سے اوجھل نہ ہوئی۔ سوچیے کہ جماعت دہم کے طلبا سے ہونے والا علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا سوال ان چیخوں میں کہیں گم ہوجاتا تو تہذیب پر کیا گذرتی؟ اقدار کا کیسا قرض ہم پہ واجب ہوجاتا۔ عشرت میاں ! کیا یہ خبر آپ نے سنی؟ نہیں۔ کیوں؟ شور میں آپ کو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ میں نے سنی؟ نہیں۔ کیوں؟ دھول میں میرے ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ سننے والوں نے سن لی، کیونکہ غفلت کے مرتکب وہ نہیں ہوتے۔ روز حشر حساب دینا ہے۔

درگاہ شاہ نورانی پر حملہ کرنے والے جب مسلمان نہیں، حملہ جب انسانوں پر ہوا ہی نہیں، متعلقہ ادارے جب ذمہ دار ہی نہیں، تو میرے ایک حرفِ تسلی سے کیا حاصل؟ جب لیاقت نے دست درازی بوٹا کی بیٹی کے ساتھ کی، تو بوٹا پلٹ کے کس کے ساتھ زیادتی کرتا؟ لیاقت کے ساتھ؟ لاحول۔ مرد کے کیے سے عزت خاک نہیں ہوتی۔ جب لڑکی ہونے کی حیثیت سے دستیاب ہی ماریہ تھی، جب قسمت اسی کی پھوٹی تھی، جب موت اسی کی لکھی تھی، تو اب اس پر عشرت کے حرفِ دشنام سے کیا حاصل؟ عشرت مجھے معاف رکھے، میں نے عشرت کو معاف کیا۔ دونوں مل کے ایک سجدہ شکر بجا لاتے ہیں، کہ اس جھمیلے میں تہذیب تہذیب ایک بڑے حادثے سے بچ گئی۔ اقدار سانحے سے بچ گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments