حقوق مرداں بل


\"taimur\"عورتیں کمال کی کھلاڑی ہوتی ہیں۔ حقوق نسواں کی پچ پر ان کی مہارت تو ویسے ہی قابل دید ہے۔۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ ان ماہ جبینوں کے شیریں لبوں سے آزادی اور برابری کا نعرہ مستانہ بلند نہ ہو۔۔۔ ان کی شیریں گفتاری کا وصف جانے کونسی آزادی اور برابری لینے کے چکر میں بدل کر آتش فشانی بن جاتا ہے ۔اس معاملے پر گولہ باری کرتی ہیں تو خود \’\’کلسٹر بم \’\’ اور مردوں کو \’\’تورابورا\’\’ سمجھ لیتی ہیں۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس معاملے کو اٹھانے میں پیش پیش وہ خواتین ہوتی ہیں جن کے اپنے خاوند \’\’حقوق مرداں \’\’تحریک چلانے کو پھرتے ہیں۔ ساری عمر مخلوط نظام تعلیم میں گزار کر مختلف کمپنیوں میں ملازمتیں بھی حاصل کر لیتی ہیں مگر پھر بھی برابری نہ ملنے کا گلہ نہیں جاتا۔

اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ یہ برابری کیا ہے. عورتیں آخر کس چیز کی آزادی مانگتی ہیں؟ ان پرمعاشی حوالے سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی جو کہ فی زمانہ ایک بہت مشکل کام ہے، اسی طرح عورتوں کو پڑھائی لکھائی میں بھی برابری حاصل ہے کہ ان کو بھی وہی سہولیات اور نصاب پڑھایا جاتا ہے جو اشرف المخلوقات\’\’مرد\’\’ پڑھتے ہیں۔ (بلکہ لڑکیاں اس معاملے میں زیادہ تیز بھی ہیں)۔ گھر میں بہن کی صورت میں یہ لاڈلی، بیوی کی صورت میں اس کو فوقیت،ماں کی صورت میں اسی کی حکمرانی ہوتی ہے۔ کام کے لیے گھر سے باہر نکلے تو اسے رعائتیں حاصل ہیں۔۔ لائن میں لگنے کا جھنجھٹ اور لوکل بس میں کھڑے ہو کر سفر کرنے سے بھی یہ مستثنیٰ ہیں۔۔ غرض کہ ہر شعبہ زندگی میں ان کو مراعات حاصل ہیں بلکہ مردوں کے مقابلے ان کو اول درجے کے شہری کا سٹیٹس حاصل ہے مگر پھر بھی یہ گلہ چہ معنی دارد؟

یہاں ایک بہت مزے کی بات بھی کرنا چاہوں گا کہ برابری اور کچھ کر دکھانے کا شور وغوغا مچانے والی خواتین یہ الاپ تب تک ہی الاپتی ہیں جب تک بات حقوق تک رہے، جیسے ہی بات ذمہ داری کی آئی یہ فوراً سے نازک حسینہ بن جاتی ہیں۔۔ (میٹھا میٹھا ہپ ہپ ۔۔ کڑوا کڑوا تھو تھو)۔۔ مثال کے طور پر آپ کچھ خواتین ساتھیوں کے ہمراہ کہیں جارہے ہوں اور ساتھ میں سازوسامان بھی ہو تو یہ برابری کی علمبردار خواتین فوراً سے ہی نازک اندامی پر اتر آئیں گی اور سامان برداری کا قصور اسی مرد کو بھگتنا پڑے گا۔۔۔۔

یہاں میں دلچسپی کے لیے ایک ہڈبیتی بھی بیان کرنا چاہوں گا ۔۔۔یہ داستان بیان کرتے ہوئے مجھے اب بھی ان لمحات پر حیرت ہو رہی ہے ۔۔ برابری کی علمبردارخواتین جن کی ساری زندگی مخلوط نظام تعلیم کے تحت گزری اور پھر کچھ کر دکھانے کا عزم گھروں سے نکال کر\’\’میدان کارزار\’\’میں بھی لے آیا۔۔ ان ہی باہمت خواتین کی ایک حرکت نے مجھے شدیدحیرت میں مبتلا کر دیا (وہی حرکت مردوں نے کی ہوتی تو یقیناً واجب قتل قرار پاتے)۔۔ ہمارے دفتر میں ملازمین کے لیے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کے لیے ایک حصہ مختص ہے جسے آپ کینٹین کہہ سکتے ہیں ۔۔ وہاں \’\’برابری\’\’ کی اعلی مثال کےطور پر \’\’محمودوایاز\’\’ کو ایک ہی میز پر بٹھایا جاتا ہے ۔۔ وہاں ایک دن خادم کو بھی اپنی ایک \’\’برابر\’\’ خاتون کے ساتھ (یعنی ایک ہی میز پر) کھانا کھانے کاموقع ملا ۔۔مردوں کے معاشرے میں اپنا آپ منوانے اور برابر کےحقوق پانے کے لیے کوشاں اس باہمت خاتون کی پہلی بات نے ہی ایسی پریشانی میں ڈالا کہ سارا موڈ ہی غارت ہوگیا۔ موصوفہ نے اپنے ساتھ بیٹھی ساتھی مہم جو خاتون کو مخاطب کر کے ان مردوں کو صلواتیں سنانا شروع کر دیں جن کو \’\’عورت کی عزت اوراحترام\’\’ کا معلوم نہیں ۔۔ وہ ساتھی خاتون کو بڑے چاؤ سے بتا رہی تھیں کہ کس طرح مردوں کو چاہیے کہ جہاں خواتین کھانا کھا رہی ہوں وہاں نہیں بیٹھنا چاہیے، اور کس طرح ان کے احترام میں کھانا تو چھوڑ وہ جگہ ہی خالی کردینی چاہیے جہاں ان کا وجود ہو۔۔۔ (اور میں ساتھ والی دوسری میز پر بیٹھے لڑکے اورلڑکی کو دیکھ دیکھ حیرت میں مبتلا ہو رہا تھا کہ شاید وہ اس اصول سے ناواقف تھے اورہنس ہنس کر باتیں بھی کررہےتھے)۔خاتون یہیں تک بس نہ ہوئیں اور بات مردوں کی عادات سے لیتی ہوئی ان کے کھانے کی \’\’اوقات\’\’ تک لے آئیں۔ میں شرم کا مارا اپنی جگہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کاش میں اس قابل ہوتا کہ اپنی ان دو بہنوں کو (باوجود ان کے شوق کے) گھر کی چار دیواری میں بٹھا آتا، بے شک ان کے کام کےلیے فائلیں ان کے گھر پہنچانے کا انتظام ہی کیوں نہ پڑتا۔۔۔

اصل موضوع کی جانب آئیں تو یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عورت اس کائنات کی سب سے حسین شے ہے۔ اسی کے دم سے کائنات میں رنگ ہے اور بچوں کی پیدائش سے لے کر تریبت تک کا عمل بھی اسے ممتاز حیثیت دلانے کےلیے کافی ہے ۔۔۔اللہ تعالی نے مذہب اسلام میں جتنے حقوق اور عزت عورت کو دی ہے وہ کسی اور مذہب یا قوم میں نہیں ہے۔۔ میں تو ایسا ہی سمجھتا ہوں ۔۔ عورت ماں ہے تو جنت۔۔ بیوی ہے تو راحت ۔۔ بہن ہے توپیار۔۔۔بیٹی ہے توٹھنڈک۔ پتہ نہیں کیا آزادی اور برابری مانگتی پھرتی ہیں یہ۔ کچھ علاقوں کی رسم و رواج اور کچھ مردوں کی جہالت کو یہ پوری دنیا پر لاگو کر کے خود کو مظلوم سمجھ بیٹھی ہیں شاید ۔۔۔۔ مزے کی بات ہے کہ غیرت کے نام پ رقتل اور گھریلو تشدد کے خلاف مظاہرے کرنے والی خواتین خود سوچیں اگر ایسا واقعی میں ہوتا تو کیا وہ سرخی پوڈر لگا کر یوں احتجاج کرنے کےقابل ہوتیں؟

نوٹ:یہ تحریرنہ تو کسی کےخلاف لکھی گئی ہے نہ ہی کسی کیفیت کا اظہار۔۔ یہ تو بس ان خواتین سے سوال ہے جو جانے کونسی برابری اورحقوق مانگتے مانگتے مردوں سے بھی آگے بڑھ جاتی ہیں ۔۔ ہمارے معاشرے کےکچھ حصوں (وہ بھی مذہبی یاقانونی وجوہات پرنہیں،بس اپنی جہالت کی وجہ سے )کو چھوڑ کر سبھی جگہ عورتوں کو بہترین حقوق وتحفظ حاصل ہے۔

حسن تیمور جھکڑ
Latest posts by حسن تیمور جھکڑ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments