قبیح رسومات کا شکار گجرات کی ماریہ


\"syed گجرات کے نوا حی علاقے جلال پور جٹاں کے گاؤں ”ڈلو“ کے لیاقت نامی شخص پر الزام لگا کہ اس نے بوٹا نامی شخص کی سات سالہ بیٹی سے زیادتی کی کوشش کی ہے۔ الزام ثابت ہونے کے بعد لیاقت چھ ماہ کی سزا کاٹ کر جب جیل سے باہر آیا تو پنچایت نے روایتی جہالت کا مظاہرہ کرے ہوئے فیصلہ دیا کہ لیاقت کی شای شدہ بیٹی کو بطور جرمانہ، بوٹا کے حوالے کیا جائے۔ بوٹا سے آزادی حاصل کرنے کے بعد حاملہ ماریہ نے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کرلی۔ ہمارے معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ جب گھر کے مردوں کے گناہوں کی سزا جرمانے کے طور پر، گھر کی ماں، بیٹی اور بہن نے بھگتی ہو۔

پاکستان میں خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو بطور جرمانہ، متاثرہ فریق کے حوالے کرنے اور شادی کی بہت سی رسمیں اور رواج ہیں۔ سب سے قبیح اور قابل مذمّت رسم صوبہ سندھ میں ڈنڈ یا باڈہ، پنجاب میں ونی اور خیبرپختون خواہ میں سوارہ کہلاتی ہے۔ ان رسومات کی بنیاد کئی صدیوں قبل، قبائلی علاقوں سے پڑی۔ جب قبائل آپس میں جھگڑے اور بات خون خرابے تک جا پہنچی تو متحارب قبائل کے بڑوں نے جرگہ منعقد کیا اور قصوروار قبیلے پر یہ جرمانہ عائد کیا کہ وہ اپنی عورت یا کم عمر لڑکی، متاثرہ قبیلے کے مردکے نکاح میں دیں، وہ وقت اور آج کا ترقی یافتہ دور، یہ ظالمانہ اور قبیح رسومات کسی نہ کسی شکل میں ہمارے معاشرے میں تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ ان رسومات کے خاتمے کے لیے ہمارے ملک میں قوانین کی موجوگی کے ساتھ سزائیں بھی تجویز کی گئیں ہیں لیکن عمل درآمد آج تک کسی بھی قانون پر نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔

خواتین، کم عمرلڑکیوں اور بچوں کی شادی کی ممانعت کا قانون1929ء کی سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے یہ قانون، برٹش انڈیا قانون ساز اسمبلی سے یکم اکتوبر 1929ء کو اس وقت منظور کروایا تھا، جب بذات خود وہ اس قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ یکم اپریل 1930ء سے برٹش انڈیا میں اس قانون پر عمل کا آغاز ہوا۔ اس وقت بھی یہ قانون نافذالعمل ہے گو کہ اس قانون کو پاکستان پینل کوڈ310-A(1860)کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 3سے7سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ 5لاکھ جرمانہ سزا کے علاوہ ادا کرنا ہوگا۔ 498-Bاور498-Cباالترتیب زبردستی کی اور قرآن سے شادی کے لیے سزائیں اور جرمانہ تجویز کرتے ہیں۔

آئین پاکستان کی شق25۔ (1) میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ”تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پرحق دار ہیں“۔

آئین پاکستان کی شق 25۔(2)کے مطابق ”جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا“۔

اسی طرح 25۔الف۔میں درج ہے کہ”ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے مذکورہ طریقہ پر جیسا کہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی“۔

 ان تمام قوانین کی موجودگی کے باوجود ہمارے معاشرے میں خواتین اور بالخصوص لڑکیوں سے محض جنس کی بنیاد پر تفریق پائی جاتی ہے۔

تعلیم، حق وراثت اور دیگر قانونی حقوق سے محروم رکھنے کے علاوہ۔ ہمارے معاشرے میں خواتین اور لڑکیوں کوو ہ مقام بھی نہیں دیا جاتاجو ایک مہذّب معاشرے اور دین اسلام کا تقاضا ہے۔ زبردستی اور کم عمری کی شادی کی ممانعت قانون کے علاوہ ہمارے دین میں بھی ہے لیکن افسوس کہ حکمراں اور عوام نہ دین پر چل رہے ہیں اور نہ قانون کا احترام کررہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ آئین پاکستان میں ان کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں اور کسی بھی زیادتی، زبردستی اور کم عمری کی شادی، جائیداد سے محرومی کی صورت میں وہ ان قوانین کا سہارا لے کر اپنے آپ کو ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ ادارہ سماجی بہبود کی بھی ذمّہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنی کارکردگی کو مؤثر بنائے تاکہ گجرات جیسے واقعات دہرائے نہ جا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments