جہانگیر بدر۔۔۔ جیالا مر گیا


\"zaman-khan\"جب میں نے جہانگیر بدر کی وفات کی خبر سنی تو میرے سامنے ماضی کی ایک فلم چل گئی۔

جہانگیر بدر کا تعلق لاہور کے اندرون شہر ایک نچلے درمیانہ طبقہ سے تھا۔ وہ بھی پچھلی صدی میں سامراج دشمن اور آزادی کی تحریکوں سے متاثر تھا۔اس نے ہیلی کالج میں داخلہ لیا اور سٹوڈنس یونین کا صدر منتخب ہوا۔

پھر اس نے یونیورسٹی لا کالج میں داخلہ لے لیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب کہ پاکستان کے سیاست دانوں نے جنرل ایوب کی حکومت کے خاتمہ کے بدلے جنرل یحیے خان کا مارشل لا قبول کر لیا تھا۔

جہانگیر بدر ہیلی کالج سے ایم کام کرکے لا کالج میں داخل ہو گیا وہ لا کالج میں میرا کلاس فیلو تھا۔جب 1970میں پنجاب یونیورسٹی میں طلبا یونین کے الیکشن کا اعلان ہوا تو سوال پیدا ہوا کہ اسلامی جمیعت طلبا کے حافظ ادریس کا مقابلہ کون کرے۔

اس سے پہلے ایک اور اہم بات کا ذکر کرنا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں۔ایک زمانہ تھا جب جنرل ایوب کی طلبا میں سب سے زیادہ مخالفت کی باگ ڈور اسلامی جمیعت طلبا کے پاس تھی۔

پنجاب یونورسٹی سٹوڈنس یونین کے انتخابات ہمیشہ بہت اہم ہوتے تھے اور وجوہات کے علاوہ پورے پنجاب کے علاوہ کوئٹہ تک کے طلبا اس میں ووٹ ڈالتے تھے۔جمعیت طلبا کا مقابلہ ہمیشہ ایوب خا ن کے حمایتی روشن خیال اور لبرل ہوتے تھے۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا کہ جب پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت کے طلبا نے ذوالفقار علی بھٹو کے جلسہ میں گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تھی تو بھٹو نے قمیض کے بازو چڑھا کر ان کو چلینج کیا تھا۔

\"jehangir-badar\"1967کے یونیورسٹی الیکشن میں حامد خان (جو کہ آج سپریم کورٹ کے وکیل ہیں) کا مقابلہ اپنے دوست اقبال اکبر( جو اس وقت کے وفاقی وزیر چوہدری علی اکبر کے صاحب زادہ تھے) سے ہوا۔ طلبا میں کیونکہ حکومت مخالف جذبات پائے جاتے تھے اس لئے حامد خان پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنس یونین کے سیکریڑی جنرل چنے گئے۔ اس سے اگلے سال طلبا یونین کے الیکشن میں سیکریڑی جنرل کے الیکشن میں خلیل رمدے (جو بعد میں سپریم کورٹ کے جج بنے) کا مقابلے ایک بنگالی محی الدین سے ہوا۔ جس میں طلبا نے بنگالی بھائی کو جتوا دیا۔

اس سے پہلے کہ میں جمیعت طلبا اسلام کے نامزد امیدوار حفیظ خان اور جہانگیر بدر کی بات کروں یہ بتانا چاہوں گا کہ لائیلپور کے طلبا کی یونیورسٹی میں اتنی تعداد ہوتی تھی کہ ایک بڑا عہدہ ہمیشہ لائلپور کے طلبا کو جاتا تھا ۔جو چند نام ذہن میں آتے ہیں وہ یہ ہیں۔ میاں زاہد سرفراز، میاں سرفراز آغا، عطا اللہ خان اور حفیظ خان۔

1970کے الیکشن میں اسلامی جمیعت طلبا کے حافظ ادریس کا مقابلہ NSOاور دوسرے ترقی پسندوں کے حمایت یافتہ جہانگیر بدر سے تھا۔

کچھ احوال NSOکا بھی ہو جائے۔ایوب خان کے خلاف جب احتجاج ہو رہا تھا تو اس میں دائیں اور بائیں سب اکھٹے تھے مگر پھر پاکستان کی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو میں اس قدر تناؤ پیدا کردیا گیا یا ہو گیا کہ برسوں سے ایک میز پر بیٹھنے والوں نے اپنے الگ الگ راستہ چن لئے بلکہ بعض نے تو ایک دوسرے سے بول چال بھی بند کردی۔

گو کمونسٹ پارٹی کے طلبا محاذ ڈی ایس ایف کا آغاز پنجاب سے ہوا تھا مگر بعد میں ساری ترقی پسند طلبا تحریک کا محور سندھ، کراچی بن گیا ۔پنجاب میں گو نیشنل عوامی پارٹی تھی مگر اس کا طلبا ونگ نہیں تھا۔

لاہور کے طلبا خاص کر پنجاب یونیورسٹی کے طلبا میں جب مارکسسٹ اور ترقی پسند سوچ رکھنے والوں کے تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی تو فیصلہ ہوا کہ لاہور\"badar-1\" میں ایک ترقی پسند طلبا تنظیم قائم کی جائے۔ سو پنجاب یونیوسٹی کے چند مارکسسٹ طلبا جنہیں ماؤسٹ بھی کہا جاسکتا ہے نے نیشنسلیٹ سٹوٹنس آرگنائزیش(NSO) قائم کی۔

جب جہانگیر بدر اور حافظ ادریس کے درمیان صدارت کے لئے مقابلہ ہوا تو سارے روشن خیال،ترقی پسند اور نیشنلسٹ جہانگیر بدر کے حامی تھے اور مذہبی رجحان رکھنے والے حافط ادریس کے حامی تھے۔

جب بائیں بازو کے امیدوار کا مرحلہ درپیش آیا تو کئی نام سامنے آئے مگر آخر جہانگیر بدر کو لبرل لیفٹ کا متفقہ امیدوار نامزد کیا گیا۔ یہ دور بائیں بازو کے ابھار کا دور تھا اور پیپلز پارٹی بھی پنجاب کی پاپولر پارٹی بن چکی تھی۔ اس زمانہ کے مطابق نیو کیمپس اور اولڈ کیمپس میں خوب جلسہ ہوئے اور ریلیاں نکالی گئے۔

الیکشن کے بعد دونوں گروپوں کے طلبا نیو کیمپس میں واقع STCیعنی سٹوڈنس ٹیچرز سنٹر میں اکھٹے ہو گئے، مجھے یاد ہے کہ بنگالی طلبا کی اکثریت بھی جہانگیر بدر کی حامی تھی۔ رات کو بہت دیر سے نتائج کا اعلان ہوا جس کے بارے میں بائیں بازو والوں کا کہنا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ سیکریڑی کے بیلٹ پیپر میں کوئی خامی رہ گئی اور فیصلہ ہوا کہ سیکریڑی جنرل کا الیکشن دوبارہ ہوگا۔

لہذا جب چند دن بعد سیکریڑی جنرل کا الیکشن ہو رہا تھا تو بائیں بازو والوں نے الیکشن بوتھوں پر دھاوا بول دیا اور بیلٹ بکس توڑ دئیے۔

دوسرے دن فوج نے بائیں بازو کے جن طلبا کو گرفتار کیا ان میں جہانگیر بدر بھی شامل تھے۔ جہانگیر بدر کو ایک سال کی سزا ہوئی یونیورسٹی سے بھی ایک سال کے لے نکال دیا گیا۔ یونین کو بھی سسپنڈ کر دیا گیا۔

ایک سال بعد جب یونین کے دوبارہ الیکشن ہوے تو جہانگیر بدر کو دوبارہ صدارت کا امیدوار نامزد کیا گیا اور اس دفعہ اس کا مقابلہ حفیظ خان سے تھا۔اس الیکشن میں بائیں بازو کے سارے امیدواروں کو شکست ہوئی سوائے راشد بٹ کے جو نائب امیدوار چنا گیا۔

جہانگیر بدر اس دوران پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور وکالت کے ساتھ ساتھ ہیلی کالج یں لیکچرر بھی ہو گئے۔

1977میں پاکستان میں ماشل لا لگ گیا اور جنرل ضیا الحق نے تین ماہ میں دوبارہ الیکشن کا اعلان کیا۔ مری سے رہا ہو کر ذوالفقار علی بھٹو لاہور میں قیام پذیر تھے۔ جہانیگر بدر جلوس لے کر بھٹو کو ملنے جا رہے تھے۔ افواہ ہے کہ جہانگیر بدر نے مولانا شاہ احمد نورانی کی پگڑی اچھال دی۔ جس کی پاداش میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اورکوڑوں کی سزا دی گئی اس کے ساتھ جنرل ضیا نے پیپلز پارٹی کو دھمکی بھی دی۔

جنرل ضیا الحق کے دور میں اکثر وقت جہانگیر بدر نے جیل میں گذارا اور ان کو کوڑے بھی لگے۔ انہوں نے قلعہ بھی بھگتا۔ 1988 کے الیکشن میں وہ لاہور سے پیپلز \"badar-2\"پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے اور بعد میں بے نظیر نے اسے وفاقی منسٹر بنا دیا۔ اس حیثیت میں جہانگیر بدر نے ہر دوست کی مدد کی۔

جہانگیر بدر کو مشرف کے زمانے میں گرفتار کرلیا گیا اور ان پر نیب میں مقدمہ بھی چلایا گیا۔ جہانگیر بدر نے جنرل مشرف کے دور میں نہ صرف احتساب کا مقابلہ کیا بلکہ بہت لمبا عرصہ جیل میں بھی گذارا۔

گو جہانگیر بدر دو دفعہ سینیٹر بنے مگر انہیں دوبارہ منسڑ نہیں بنایا گیا۔ جہانگیر بدر نے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر اورمرکزی سیریڑی جنرل کے طور پر بھی کام کیا۔ جہانگیر بدر نے پیپلز پارٹی کے لئے ہر قسم سے قربانی دی اور کسی بھی صورت میں پیپلز پارٹی سے اپنا راستہ الگ نہیں کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہانگیر بدر کو تعلیم سے بہت لگاو تھا اس نے نہ صرف ایک سے زیادہ ایم اے کئے بلکہ پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اس سال کے شروع میں ، پروفیسر عزیز الدین دوسرے دوستوں کے ہمراہ ان کی رائے ونڈ روڈ پر تیمارداری کرنے گئے تو وہ بہت خندہ پیشانی سے ملے اور ہمیں اپنی کتابیں دستخط کرکے دیں۔ اپنے بیٹے بیرسڑ ذوالفقار سے بھی ملوایا۔

جہانگیر بدر ان چند سیاست دانوں میں شامل تھے جنہوں نے ہر برے اور کٹھن وقت میں پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ دوسرا ان کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سیاست کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔

میں ذاتی طور پر سجمھتا ہوں کہ جہانگیر بدر کی وفات ملک میں ترقی پسند اور روشن خیال سیاست کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آج ایسے سیاسی کارکن مفقود ہیں جن کا آخر عمر تک عوام سے رابطہ رہا ہو اور وہ ہر سیاسی کارکن خواہ اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو اس کی قدر کرتے تھے۔ جہانگیر بدر کی وفات سے سیاسی کارکنوں کا ایک دور ختم ہوگیا ہے۔

اب صرف جہانگیر کی یادیں ہی رہ گئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments