قانون کی حکمرانی اور پاکستان



پاکستان میں نظامِ عدل، قانون کی بالا دستی اور آئین کی حکمرانی پہ بات کرنا اگرچہ ایک مشکل امر ہے تاہم اس موضوع پر خاموش رہنا \"hinaیقیناََ ناممکن ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی ریاست کے فعال اور دیانتدار اداروں سے مشروط ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھتے ہیں جہاں عدلیہ آزاد ہو اور ریاست کے سبھی بالائی اور زیریں طبقات اس کے فیصلوں کے پابند ہوں۔ امن و امان، سکھ، شانتی اور خوش حالی کی فضا میں سانس لینے کی خواہش رکھنا ریاست کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

ایک مثالی ریاست کی تشکیل کے وقت چند چیزیں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہ ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں قانون کی بالا دستی ہوگی، ریاست کے سبھی شہریوں بشمول اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق مساوی بنیادوں پر حاصل ہوں گے،غربت بھوک اور بیروزگاری جیسے ناموں سے عوام قطعاََ نا آشنا ہوں گے،جہاں دہشت گردی کا ہولناک سایہ نہ لرزتا ہوگا، جہاں ماؤں کے قلب مطمئن ہوں گے، جہاں راوی امن سے سُکھ اور چین کی بانسری بجاتا ہوگا۔ لیکن اگر بد قسمتی سے ریاست میں ایسا کچھ بھی نہ ہوتو ہمیں ایک بار پھر نئے سرے سے سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی وہاں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالا دستی قائم ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا موجودہ نظامِ عدل ہمیں نو آبادیات سے منتقل ہوا۔ اس سے قبل اگر دیکھا جائے تو برصغیر پاک و ہند میں ہمیں شخصی نظامِ حکومت نظر آتا ہے جس کے تحت اختیارات اور فیصلے نیز جزا و سزا کے احکامات بھی فردِ واحد کے ہاتھ میں محفوظ ہیں۔ جہاں قاضی شہر بھی حاکمِ وقت کے آگے سر جھکائے دست بستہ کھڑا ہے۔ جہاں عدل کے بلند و بالا ایوانوں میں انصاف کے تقاضوں سے مشروط سبھی باتیں یک جُنبشِ قلم مسترد کر دی جاتی ہیں۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعدہم پہ مسلط ہونے والا برطانوی راج جو اگرچہ اپنے ساتھ قانون کی ایک نئی شکل لے کر آیا تاہم ہمارے لیے وہ بھی قطعاََ ایک بہترین نظامِ عدل نہ تھا۔ نو آبادیات کا تشکیل دیا جانے والا قانون جو مقامی باشندوں کے لئے تعصب سے مزین جب کہ ان کے اپنے لیے ہر گز قابل گرفت نہ تھا۔ ایک عام ہندوستانی سے روا کھا جانے والا امتیازی اور تحقیر آمیزسلوک کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں۔اس کے بعد پاکستان کا قیام اور تب سے اب تک ایک جمہوری نظامِ حکومت تشکیل دینے کی سعی میں ہم نے بار ہا عدلیہ کو اپنی آزادی کے لیے کئی دشوار ادوار سے گزرتے دیکھا۔

دیکھا جائے تو آج بھی ہم تاریخ کے ایک اہم دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف ہمارے تمام تر پرانے خستہ سماجی ڈھانچے شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں جب کہ دوسری طرف ان کی جگہ لینے والے نئے نظام اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ہم ایک طرف تو جدید دنیا کے خواب دیکھ رہے ہیں، ترقی اور آزادی کی نئی راہیں کھوجنے پہ مصر ہیں جب کہ دوسری طرف ہمارے پرانے جاگیردارانہ اور استحصالی نظام آج بھی بدترین عوامی جبر کے مظاہر ہیں۔ ایسے میں ہماری ڈولتی حکومتیں،اقتدار کے خواہشمند سیاست دان آئے دن کی ہنگامہ آرائی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرنے کے لیے کافی ہے۔

عدل و انصاف کے ابدی قوانین کا براہِ راست تعلق عوام کی ذاتی زندگی سے ہوتا ہے۔ کسی بھی ریاست کی معیشیت تبھی مستحکم ہوتی ہے جب وہاں امن و امان قائم ہو۔ اسی طرح جمہوریت کا استحکام بھی ریاست کی خوش حالی سے ہی مشروط ہے۔عموماََ دیکھنے میں آیا ہے کہ قانون کی حکمرانی و بالادستی کی تلقین ریاستی عوام کے حوالے سے زیادہ کی جاتی ہے۔ جب کہ ملک کا ایک با اثر طبقہ، اشرافیہ یا جاگیر دار طبقہ خود کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ ان کے لئے قانون ہاتھ میں لینا یا ریاست کے فعال اداروں کے اصول و ضوابط سے رو گردانی کرنا ایک باعثِ افتخار امر ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح جب ملک کے اعلیٰ ترین منصب دار قانون کو ایک من مانے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگ جائیں تب بھی قانون کی بالا دستی کا تصور ملیا مٹ ہو نے لگتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں بگاڑ تبھی جنم لیتا ہے جب ریاست کا بااثر طبقہ یا جرائم پیشہ افراد محض حکامِ بالا تک اپنی رسائی کے زعم میں مبتلا ہو کر قانون کو ارزاں گردانتے ہیں اور اس کی بالا دستی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے سرکشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔بہت آسان اور سیدھی سی بات ہے کہ اگر ریاست کے مختلف اداروں کا نظام صرف درست، بروقت اور فعال ہو جائے تو عدل اورقانون کی بالا دستی خود بخود قائم ہو جائے گی۔
ہمیں انصاف کے لیے کسی مثالی صورتِ حال کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے، ہمیں اپنے سماج کو درپیش سخت حالات اور اپنے بنیادی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اپنی انفرادی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں جو ملک سے نا انصافی کو نسبتاََ بہتر طریقے سے ختم کر سکے۔ ہمیں جمہوریت میں معروضیت، غیر جانب داری اور استدلال کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہو گا جب ہم اپنے ماضی کی غلطیوں اور غلط فیصلوں سے سبق سیکھ سکیں اور مستقبل میں انھیں نہ دہرانے کا عزم کریں۔ اسی طرح قانون شکنی کرنے والوں کا سخت مواخذہ بھی ریاست میں امن کی بحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہمیں ریاست کے مختلف اداروں کے باہمی تصادم کو روک کر قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہمیں عدلیہ کی اقدار کا تحفظ کرتے ہوئے ریاست کے دیگر اداروں کا بھی احتسابی نظام مزید بہتر کرنا ہوگا تا کہ انصاف کے کھرے اور سچے فیصلوں کا بر وقت نفاذ ہمیں ہمارے روشن مستقبل کی طرف گامزن کر سکے۔

___________

(12 نومبر 2016 ملتان میں لاہور ہائیکورٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تقریبات کے سلسلہ میں منعقدہ کانفرنس میں پڑھا گیا۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments