خواجہ سرا انسان ہیں ۔۔۔ ہم وحشی ہیں


آج صبح سے میں بہت اداس ہوں اور اسی کشمکش میں دو مرتبہ رو بھی چکی ہوں۔ ہماری ہی بستی کے ایک زود رنج بیزار دل نے کبھی یہ رونا رویا تھا کہ اس معاشرے میں خوش اور مطمئن رہنے کے لئے بہت زیادہ بے حس ہونے کی ضرورت ہے۔ سانحات اور مصائب نے ہمارے دل اس قدر سخت اور اعصاب ایسے پتھر کر دئیے ہیں کہ اگر کہیں کچھ پندرہ سے بیس افراد کسی آفت میں آ کر ناحق مار بھی دیے جائیں تو ہمارے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے میں اگر میں یا چند اور دل زدہ کسی بات پر رنجیدہ ہیں تو قصور شاید ہمارا اپنا ہی ہے۔ ہمارے معاشرے سے آدمیت اور اخلاق سمیت تمام انسانی اقدار شاید فنا ہو چکی ہیں ۔ یہاں کسی کا حساس ہونا اپنے آپ سے ظلم ہے ۔ جہاں نظر اٹھاؤ وہیں خونخوار بربریت اور انسان کی پامالی ہے۔ اداس رہنے کے ان گنت بہانے ہر لمحہ دستیاب ہیں۔ کبھی کبھی یہ اداسی اتنی گہری ہوجاتی ہے کہ تبدیلی کا سارا جوش اور اصلاح کی ہر تدبیر ٹوٹ سی جاتی ہے۔ میرے نزدیک یہ اس معاشرے کے انسان کی دوسری شکست ہے۔

ابھی پچھلے بدھ کی ہی بات ہے کہ میں کتنی پرجوش اور مطمئن تھی۔ اسٹریٹ تھیٹر چلانے والے ایک غیر سرکاری ادارے کی معاونت سے ملتان کے خواجہ سراوں نے اسلام آباد ایف – الیون مرکز مارکیٹ میں عوام کے سامنے ایک ڈارمہ پیش کیا۔ میرا تعلق پاکستان کے ایک جدید اور معیاری تعلیمی ادارے سے ہے جہاں سماجی آگاہی کی ایک کمیٹی کے معاملات دیکھنا بھی میری ذمہ داری ہے۔ اس جدید طرز تعلیم میں طلبا کو سماجی مسائل خصوصا بچوں سے زیادتی، عورتوں میں بریسٹ کینسر کی آگاہی، خواجہ سراوں کے حقوق اور بے آسرا طبقات کے لئے تعلیم وغیرہ کی نہ صرف آگاہی دی جاتی ہے بلکہ تنظیمی طور پر انہیں معاشرے میں ان مسائل پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا جاتا ہے۔ میں اپنے تین اسٹوڈنٹس کے ساتھ ایف – الیون اس ڈارمہ کو دیکھنے کے لئے گئی تاکہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سراوں کے مسائل کا براہ راست علم ہو سکے۔

ان خواجہ سراوں نے ایک طرح کے کپڑے پہن رکھے تھے اور ٹولی بنا کر تالیاں بجاتے ہوئے انہوں نے ”آو آو ناٹک دیکھو ۔ آو آو ناٹک دیکھو ” پکار کر لوگوں کوجمع کیا اور اپنا کھیل شروع کیا۔ کھیل کی کہانی کھیل نہیں کئی حقیقتوں کو جوڑ کر بنائی گئی ایک حقیقت تھی ۔ ایک چودھری کے گھر بچے کی پیدائش ، اہل خانہ کی خوشیاں ، ڈاکٹر بنانے کا خواب ، بچے کا لڑکیوں کے ساتھ کھیلنا ، بھائی سے پٹائی ، چند سال بعد خواجہ سرا نکلنا ، خاندان کی بے عزتی کا مجرم بن کر تشدد سہنا اور گھر بدر ہونا ، خواجہ سراوں کے ٹولے سے آ ملنا ، پولیس کا انہیں اٹھا لینا اور تشدد کا نشانہ بنانا ، گرو جی کا تھانیدار کے پاوں پکڑ کا معافی کی منت کرنا ، شناختی کارڈ دکھا کر قانونی انسان ہونے کی گواہی دینا اور بنا کسی جرم کے دی گئی قید سے رہا کر دیا جانا ۔ ڈرامہ جان دار تھا کافی لوگ اکٹھے ہو گئے۔ اس دوران مجمع پر مکمل خاموشی اورمحویت طاری رہی۔ ڈارمے کے بعد وہاں موجود بیشتر افراد نے بہت مثبت تاثرات کا اظہار کیا اور خواجہ سراوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ا ن کے باعزت مقام اور بنیادی حقوق کی اہمیت کا اعتراف کیا۔ اس سب کے بعد ہم بھی انسانی حقوق کی حالت سے پرامید خوشی خوشی واپس آگئے۔ میں اس شام ا سقدر پرجوش تھی کہ یہ بھول گئی کہ ہمارے معاشرے میں حقوق اور مقام آدمیت جیسی اقدار تو صرف کتابی باتیں ہیں اور ٹھوس حقیقت وہی بے رحمی ، ظلم اور بربریت ہے جو جھوٹی انا پر بے حد اصرار اور ناجائز طاقت کی دھونس کے بل پر قائم ہے۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سیالکوٹ کے ایک خواجہ سرا کو اس کا مقام یاد دلانے کی ویڈیو سامنے آگئی۔ خونخوار تشدد اور بہیمانہ تذلیل۔ میں تو اسے مکمل دیکھ سکنے سے بھی قاصر تھی۔ میرا سر چکرا رہا تھا۔ چند ہی گھنٹے بعد اس خواجہ سرا کی ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ رو رو کر اپنے ساتھ ہوا سلوک بتا رہا ہے۔ اس ویڈیو کے شروع ہوتے ہی مجھے یوں لگا کہ جیسے در و دیوار سے ” آو آو ناٹک دیکھو ، آو آو ناٹک دیکھو ” کی آوازیں آ رہی ہیں۔ مجھے لگا کہ جیسے اس ویڈیو کا ایک اور حصہ بھی ہے جو میں نے تو گذشتہ بدھ دیکھ لیا تھا مگر اس ویڈیوکو دیکھنے والے بعد سے لوگوں کو معلوم تو ہو پر یاد نہ ہو۔ بدترین تشدد کا شکار یہ خواجہ سرا بھی کسی ماں کی کوکھ کا چاند رہا ہوگا۔ اس کی پیدائش پر بھی خوشیاں منائی گئی ہوں ۔ یہ بھی اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ کھیلتا رہا ہوگا۔ مگر حالت کا جبر ایک اور چیز ہے۔ حقیقت کا المیہ سب سے دل شکن ہے۔ بہن بھائیوں سے کھیلتے اس خواجہ سرا کے بارے میں بھی ایک دن یہ معلوم ہوا ہوگا کہ یہ میدان کی ان لکیروں سے باہر دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ نہ تو بھائی نہ ہی بہن کی طرف تھا۔ آج کے بعد سے وہ خود ایک کھیل تھا۔

اس سارے المیے کے پس پردہ کیا ذہنیت ہے اور آخر وہ کب تک اپنے جھوٹے نمود کا شکار رہے گی ؟ بے بس انسان کو الٹا لٹا کر اس کے منہ پر پیر دھرے پیٹھ پر کوڑے برساتا شخص آخر اپنے ذہن میں طاقت اور دبدبے کا کیا معیار رکھتا ہے اور کیا یہ معیار جھوٹا نہیں ہے ؟ ایسے سبھی ججی بدمعاش اور ان کے اوپر بیٹھے ان کے آقا جن کے سامنے یہ دم دبائے رکھتے ہیں اور جن کی آشیر باد انہیں بے بس انسانوں کو کاٹ کھانے کی شقاوت بخشتی ہے کیا ان سب نے یہ طے کر رکھا ہے کہ تمام بے بس، محکوم اور لاچار ایک طرف ہیں اور یہ سب ظالم ایک طرف؟ یہ طاقت نہیں یہ ظلم ہے۔ اور اس سے بڑا ظلم بھی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ظلم مستحکم بنیادوں پر ایک تنظیمی انداز سے منظم ہو چکا ہے اور بے بسی کا کوئی پرسان نہیں۔ اور خواجہ سرا تو پھر بے بس بھی کیوں سمجھے جائیں۔ یہ معاشرہ کسی کو بے بس کہلائے جانے کا حق بھی اپنی رضا سے دیتا ہے۔ اس معاشرے کے خواجہ سرا تو شاید انسان (مطلب مرد و عورت) اور جانور کے درمیان کے کوئی چیز ہیں۔ واحد شے جو ان میں اور انسان میں مشترک ہے وہ شاید زبان ہے۔ یہ ہم سے بات کر سکتے ہیں مگر یہ انسان نہیں ہیں۔ ان پر ظلم کوئی بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ اس کا انصاف بھی وہی انسان کرتے ہیں جو انہیں اپنے جیسا انسان نہیں سمجھتے۔ ان پر تھپڑ کسی ندامت کو آواز نہیں دیتا ۔ ان کی عزت کا کوئی وجود نہیں۔ انہیں وہ جانور سمجھا جاتا ہے جو ہمارے سماجی دبدبے کے زور پر ہی ہمارے روبرو خم ہوجانے چائیں۔ اس خواجہ سرا کو ججی بد معاش کا نام اور مرتبہ ہی سہم کر سیدھا کر دینے کے لئے کافی ہے یہاں کوڑے اور تھپڑ تو بس اضافی ہیں ۔

کیا یہ مان نہ لیا جائے کہ اس معاشرے پر بدروحوں کا راج ہے اور یہ بدروحیں جو بس اندھیرے کے دم پر زندہ رہتی ہیں۔ طاقت، اختیار، عزت، حقوق، اخلاق یہ سب بدروحیں ہیں اور اس قدر ظالم ہیں کہ جسموں تک پر حاوی ہیں۔ ایک خواجہ سرا کا جسم چاہے جتنا بھی چیخ کر اپنے انسان ہونے کی گواہی دے یہ بدروحیں اس کی آواز دبا دیتی ہیں۔ کیا اس معاشرے میں انسان ہونے کی تعریف ہی انسان کے وجود پر حاوی نہیں ہو چکی ؟ کیا خواجہ سرا ایک انسان ہونے کا وجودرکھتے ہوئے بھی سماج کی اس ذہنیت سے شکست نہیں کھا چکا جو یہ طے کرتی ہے کہ کون انسان ہے اور کون نہیں؟

زمانے کی قسم ! انسان خسارے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments