یاور حیات سے ایک یادگار ملاقات


صحافی کی حیثیت سے آپ کا ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو انٹرویو دینے کے سرے سے قائل ہی نہیں ہوتے، یاورحیات بھی ایسی ہی ایک شخصیت تھے۔ چار پانچ برس پہلے کی بات ہے، ہم نے ایوب خاور سے جن سے ان کا قریبی تعلق تھا، انٹرویو کی سفارش بھی کرائی مگر وہ نہ مانے البتہ یہ ضرور کہا کہ ویسے ملنا ہو تو میرے دروازے کھلے ہیں۔ یاور حیات کے انکار سے مایوسی تو ہوئی لیکن اس سے ان کا رتبہ میری نظروں میں اور بھی بڑھ گیا کہ چلو اس معاشرے میں کوئی تو ہے جو تشہیرسے دور بھاگتا ہے وگرنہ ہمارے یہاں تو ان مناصب پر فائز شخصیات جن کی تکریم، نمود کے بجائے مستوری میں ہوتی ہے، وہ بھی خبروں میں رہنے کا جتن کرتی ہیں۔ یاور حیات یہ راز جان گئے تھے کہ بندہ نہیں، اس کا کام بولتا ہے اور ان کے اپنے فن میں طاق ہونے کا معاملہ تو یہ ہے کہ بقول مستنصر حسین تارڑ، یاورحیات نہ ہوتا تو پی ٹی وی کو وہ مقام نہ ملتا جو اس نے حاصل کیا۔ بات ہو رہی تھی، ان سے انٹرویو کی تو ہم نے ایوب خاور سے کہہ دیا کہ بھئی! یاور حیات تو نہیں مانتے، ان کی مرضی، مگر جب آپ، ان کے یہاں جائیں تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔ ان دنوں ایوب خاور کراچی میں ایک نجی ٹی وی سے متعلق تھے، گاہے گاہے لاہورکا پھیرا لگاتے۔ ایک روز شام میں ان کا فون آیا تو بتایا کہ وہ یاورحیات سے ملنے جا رہے ہیں، فرصت ہو تو چلو۔ اس دن دفتر میں خاصی مصروفیت تھی، سوچا کہ معذرت کر لی جائے مگر دل نے کہا کہ ٹی وی کی لیجنڈری شخصیت سے ملنے کا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے ایوب خاور سے کہہ دیا کہ وہ مجھے دفتر سے پک کرلیں، جس کے قریب گلبرگ ہی میں یاور حیات رہتے تھے۔ ہم تین تھے۔ ایوب خاور، ان کے معاون پروڈیوسر کامران بٹ اور میں۔ ایوب خاور کو دیکھ کر یاور حیات کھل اٹھے۔ استاد شاگرد میں لمبی گپ شپ ہوئی، جس کے بیچ باقی دو حاضرین زیادہ وقت چپ ہی رہے۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کی خبر سن کر بہت رنج ہوا اوران سے اس ملاقات کی یادیں عود کرآئیں تو خیال آیا کہ اس مایہ ناز شخصیت سے ہونے والی نشست کا احوال بیان کر دیا جائے۔

یاورحیات نے بتایا کہ ان کا آبائی گاؤں جانے کو جی کرتا ہے، پر یہ سوچ کرہمت جواب دے جاتی ہے کہ جن لوگوں سے ان کا تعلق خاطر تھا وہ تو دنیا ہی میں رہے نہیں تو اب وہاں جا کرکیا کریں گے۔ محترم نے بتایا کہ بیماری کے دنوں میں انھوں نے قرآن پاک کا خوب مطالعہ کیا ہے۔ ٹی وی ڈرامے کے دو نامور آمنے سامنے تھے، اس لیے لامحالہ بات چیت کا رخ ادھر مڑنا تھا۔ معلوم ہوا کہ 1966ء میں پی ٹی وی میں آنے سے پہلے کچھ عرصہ انھوں نے ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں کام کیا۔ ٹی وی میں فضل کمال کو اپنا استاد قرار دیا۔ کنور آفتاب کا ذکر بھی محبت سے کیا۔

دورجدید کے ڈراموں میں سکرپٹ پر زیادہ توجہ نہ ہونے کے وہ ناقد تھے اوران کے خیال میں کسی ڈرامے کو اٹھانے میں مضبوط سکرپٹ کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے لیکن نئے ڈراموں میں اس کا خیال ہی نہیں کیا جاتا۔ کہنے لگے کہ اچھا پروڈیوسر سکرپٹ کو جوں کا توں قبول نہیں کرتا۔ بتایا کہ وہ تو چوٹی کے لکھاریوں کے لکھے میں بھی تبدیلی کرا دیتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اس ضمن میں سب سے فراخدلانہ رویہ منو بھائی کا ہوتا وہ سکرپٹ میں ترمیم کے معاملے میں ان کی رائے آسانی سے مان لیتے۔ ان کے رائٹر سے اپنی بات منوانے کی تصدیق امجد اسلام امجد بھی کرتے ہیں: ’’ دہلیز اور سمندر کی ریکارڈنگ کے دوران کبھی کبھار کسی سین کردار یا مکالمے کے حوالے سے ان سے اختلاف رائے بھی ہوا لیکن اکثر مجھے ان ہی کی بات ماننا پڑی۔‘‘ بعض اخبارات میں یہ رپورٹ ہوا ہے کہ ’’وارث ‘‘ یاورحیات نے پروڈیوس کیا۔ یہ غلط ہے۔ امجد اسلام امجد کے اس مشہور ڈرامے کی پہلی تین قسطیں غضنفر علی نے اور بقیہ بیس نصرت ٹھاکر نے پروڈیوس کی تھیں۔

اس نشست میں معروف پروڈیوسر نصرت ٹھاکرکا ذکر ہوا اور ان کے والد ایم جے ٹھاکر کا بھی۔ منو بھائی کے سلسلہ وارکھیل ’’جزیرہ ‘‘ کو یاور حیات نے پروڈیوس کیا اور یہی وہ ڈراما ہے، جس نے منو بھائی کے خیال میں، ان کو کالم نگار سے ڈراما نگار بنایا۔ اس ڈرامے میں اندھے ماشکی کا کردار تھا جس کے بارے میں منو بھائی بہت ٹچی تھے کیونکہ ان کے بقول، یہ محلہ وارث خان راولپنڈی کا ایک زندہ کردار تھا۔ اس کردار کو نبھانے کے لیے یاور حیا ت نے نصرت ٹھا کر کے والد کا انتخاب کیا، جنھوں نے اداکاری سے مصنف کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ منو بھائی نے اپنے کالم میں لکھا کہ یاور حیات کے مرنے پر ان کے وجود کا ایک بڑا حصہ زمین کے اندرچلا گیا۔ ان کے بقول:

۔۔۔مجھے یاور حیات کی اچھی اچھی پیاری باتوں کے علاوہ ان کی ماں جی (والدہ ) کی ایک عادت کبھی نہیں بھولے گی کہ میں جب بھی اپنے گھر سے ٹیلی ویژن اسٹیشن جاتے ہوئے راستے میں یاورحیات کو لے لیتا تھا تو ماں جی جو کہ فلم ڈائریکٹر پروڈیوسر انورکمال پاشا کی ہمشیرہ تھیں، اپنے گھر کے بیرونی دروازے میں کھڑے ہوکر ہمیں دور تک جاتی دیکھتی رہتی تھیں اور ہمارے اوجھل ہوجانے کے بعد وہاں سے ہٹتی ہوں گی۔ جمعہ 4 نومبر کی سہ پہر کو جب یاور حیات اپنے آخری سفر پر روانہ ہوئے ہوں گے انھیں اپنی گلی کا آخری موڑ مڑتے کون دیکھے گا؟ آخری گلی کا موڑ مڑنے والوں کو دیکھنے والے رہ کتنے گئے ہیں؟‘‘

بات ہو رہی تھی ڈراما رائٹرز کی۔ صفدر میر کی علمیت سے متاثر تھے۔ ڈرامے کے فن سے متعلق ان کی گہری معلومات کا ذکر کیا اور ان کے ساتھ کام کے تجربے کو خوشگوار گردانا۔ ہم نے اشفاق احمد کا نام لیا تو کہنے لگے کہ ان کے ساتھ کام کر کے مزا نہیں آیا۔ ان کی دانست میں، اشفاق احمد ڈراما کی interpretation میں بہت آگے چلے جاتے اور یوں لگتا جیسے دیکھنے والوں کو گائیڈ کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سرمد صہبائی کو بھی ڈراما نگارکے طور پر انھی نے متعارف کرایا۔ انتظار حسین کے ڈرامے ’’پانی کے قیدی ‘‘ اور انور سجاد کے ’’ رات کا پچھلا پہر ‘‘ اور ’’پکنک‘‘ کا ذکر بھی چھڑا جنھیں انہوں نے پروڈیوس کیا تھا۔

ایوب خاور نے عبداللہ حسین کے ناولٹ ’’نشیب ‘‘ کو پروڈیوس کرنے سے متعلق اپنے تجربہ کا بتایا اورکہا کہ ان کی یہ کاوش مصنف کو پسند آئی تھی۔ دونوں اس کے ایک کردارکوثر کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ ایوب خاور نے بتایا کہ انھوں نے عبداللہ حسین سے پوچھا کہ کوثر کا مسئلہ کیا تھا کہ شوہر کی محبت اور ہر آسائش میسر ہونے کے باوجود وہ اس سے غیرمطمئن تھی جس کے باعث میاں بیوی میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور وہ خاوند کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہے۔ عبداللہ حسین نے ایوب خاور کے سوال پر کہا تھا : کوثر کا کیا مسئلہ تھا؟ مجھے کیا معلوم، اپنی بیوی سے پوچھو۔

یاورحیات نے بتایا کہ وہ ’’اداس نسلیں ‘‘ کو اردو کا عظیم ناول سمجھتے ہیں اوران کی خواہش تھی کہ اسے ڈرامائی صورت میں پیش کیا جائے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوسکا جس کا انھیں افسوس ہے۔ منٹو اور ان کی تحریروں کے باب میں بھی بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس عظیم فکشن نگارکی تحریروں کو انھوں نے دل لگا کر پڑھا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ منٹو اگر ناول لکھتے تو اس صنف میں بھی کمال کردیتے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی زبوں حالی پر افسوس ظاہر کیا اور بتایا کہ ہمارے یہاں صرف ایک ہی بڑا ڈائریکٹر انور کمال پاشا پیداہوا، جس کی ہندوستان میں بھی تعریف کی جاتی۔ اس ملاقات سے ہی ہمیں پتا چلا کہ انورکمال پاشا ان کے ماموں تھے۔ان کوانھوں نے اپنا آئیڈیل قرار دیا۔ حکیم احمد شجاع ان کے نانا اور سردار سکندر حیات خان دادا۔ ان کی اپنے کام سے محبت اورلگن گواہی دیتی ہے کہ اتنے بڑے لوگوں کا وارث ہونے کے باوجود وہ پدرم سلطان بود کہنے کے بجائے “اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو” کے قائل تھے۔

پاکستان میں ٹی وی ڈرامے کو عروج تک پہنچانے میں یاور حیات جیسے قابل پروڈیوسروں نے اہم کردار ادا کیا، اس لیے ان بنیاد گزاروں کو ڈرامے کی گراوٹ کا افسوس بھی زیادہ ہوتا۔ یاورحیات کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ موجودہ صورت حال پر آزردہ ہیں، جن میں ان کا خیال تھا جو دکھایا جارہا ہے، اس کا ہماری تہذیب سے علاقہ نہیں۔ کہنے لگے کہ وہ ان لوگوں کی باتیں سن کرپریشان ہوتے ہیں جو ایسے دعوے کرتے ہیں کہ ڈراما میں فلاں چیز انھوں نے متعارف کرائی، ان کے خیال میں یہ جاننے کی زحمت کوئی نہیں کرتا کہ برسوں پہلے کوئی اورشخص یہ تجربہ کر چکا ہے۔ ایوب خاورکو انھوں نے تاکید کی کہ حالات جو بھی رخ اختیار کریں، وہ بھیڑ چال کا حصہ نہ بنیں، جس پر انھوں نے صاد کیا۔

اداکاری پر زیادہ بات نہیں ہوئی لیکن خالدہ ریاست کی فنکارانہ صلاحیتوں کو بہت سراہا اورانھیں ورسٹائل اداکارہ قرار دیا۔ عظمیٰ گیلانی کی بھی تعریف کی۔ ان کے بعد آنے والوں میں ناہید شبیر کا نام لیا۔ ان دنوں ڈراما سیریل ’’ڈولی کی آئے گی بارات‘‘ کا چرچا تھا، جس کا آئیڈیا ان کے خیال میں، انڈین فلم ’ دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، سے مستعار تھا۔ سیاست پر سرسری تبصرہ ہوا۔ امریکا کی پاکستان سے یاری کو مطلب برآری قرار دیا اورکہا کہ ہمارا مخلص دوست چین ہی ہے۔ یاور حیات بہت پر لطف گفتگو کر رہے تھے اور وہ کہیں اور سنا کرے کوئی والا معاملہ تھا لیکن نشست کوئی بھی ہو اسے ختم ہونا ہوتا ہے۔ یاور حیات، عبداللہ شاہ غازی کے ارادت مند تھے۔ اس بارے میں ہمیں اس وقت پتا چلا جب ہم اپنی نشستوں سے اٹھے اورکمرے سے باہر جانے لگے توانھوں نے ایوب خاور سے کہا کہ میری اہلیہ بہت بیمار ہے، ہوسکے تو عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر جا کر اس کی صحت یابی کے لیے دعا کرنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments