عمران خان بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟


\"amjad-ali-shakir\"آج کل مجھے یہ سوال خاصا پریشان کر رہا ہے کہ عمران خاں بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟ ویسے تو یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ وہ بڑے ہو بھی سکیں گے یا نوجوان ہی رہیں گے۔ وہ پچھلے بیس برس سے خود کو نوجوان کہہ رہے ہیں اور نوجوانوں کو اپنا فین بنا رہے ہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ بیس سال سے نوجوان ہیں، وہ تو تقریباً نصف صدی سے جوان ہیں اور مستقلاً نوجوان ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کوشش میں وہ دو شادیاں کر چکے ہیں اور تیسری شادی کی تیاریوں میں ہیں۔ وہ یقینا ایک بار پھر دیساں دا راجا اور بابل دا پیارا بننے والے ہیں۔ ایسی باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بڑے نہیں ہو سکیں گے۔ لیکن یہ سوچنے میں حرج ہی کیا ہے کہ وہ بڑے ہوں گے اور کچھ نہ کچھ ضرور بنیں گے۔ کیا وہ بڑے ہو کر بھٹو بن پائیں گے یا اصغر خاں بنیں گے یا کچھ اور بن جائیں گے۔ کچھ اور بننے میں بہت سے امکانات ہو سکتے ہیں۔ ان امکانات میں بہر حال یہ واضح ہے کہ وہ نوابزادہ نصراللہ خاں نہیں بن سکیں گے۔ نوابزادہ نصراللہ خاں بننے کے لیے تو دوسروں کی عزت کرنا پڑتی ہے۔ وہ مولانا فضل الرحمن بھی نہیں بن سکیں گے۔ ایک تو وہ خود ہی فضل الرحمن بننا پسند نہیں کریں گے۔ دوسرے فضل الرحمن خاصے ذہین آدمی ہیں۔ وہ ہر کسی سے ہاتھ ملا لیتے ہیں، عمران خاں تو طاہر القادری کو بھی زیادہ دیر تک اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ وہ چودھری شجاعت حسین بھی نہیں بن سکتے۔ کیونکہ چودھری شجاعت حسین چودھری آدمی ہیں۔ اپنے مہمانوں کو خود کھانا کھلانا پسند کرتے ہیں، اپنے گھر سے باہر بیٹھے کارکنوں کو کھانا پہنچانے کی ذمہ داری کسی ساتھی پر ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ تو دوسروں کے دھرنے میں کھانے پہنچاتے نظر آتے ہیں، اپنے گھر کے باہر بیٹھے کارکنوں کو کھلانے پلانے کی ذمہ داری کسی اور پر کیوں ڈالیں گے۔ عمران خان کیا قاضی حسین احمد بن جائیں گے۔ قاضی حسین احمد نے اپنی جماعت کی دشمن بنانے کی عادت کو ترک کرنے کی کوشش کی تھی۔ ذاتی زندگی میں وہ اس معاملے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ جماعت کی عادت بدلنا اُن کے بس میں نہیں تھا، سو اجتماعی طور پر شاید نہ کوئی کوشش کی، نہ کامیاب ہوئے۔

کیا عمران خان ذوالفقار علی بھٹو بن سکیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ بھٹو کے جیالے اسی بات پر ناراض ہو جائیں، مگر عمران خان کبھی ذوالفقار علی بھٹو نہیں بن سکیں گے۔ اس لیے جیالوں کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے تو عمران اور بھٹو دونوں سرکاری خرچ پر ہیرو بنے تھے۔ 1965ء کی جنگ میں ذرائع ابلاغ نے بھٹو کو ہیرو بنا دیا تھا، اگرچہ اس میں اُن کی لیاقت اور قابلیت بھی موجود تھی۔ وہ جنگ کے دنوں میں کامیاب وزیر خارجہ تو بنے تھے، ہماری بھارت دشمن جذبوں کے ترجمان بن کر بھی \"imran-khan-pushup\"سامنے آئے تھے۔ عمران خاں نے کرکٹر کے طور پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ عمران جب سیاست میں آئے تو بھٹو کی طرح ان کے بھی بہت سے فین تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تو ان کے ساتھ خاصے فین تھے۔ یہ ملک کے طول و عرض میں موجود تھے۔ بھٹو کے یہ فین ان کے تعارف کا ذریعہ بنے پھر ان کا سفر ان کی سیاسی پروگرام اور سیاسی فیصلوں کے ذریعے آگے چلا۔ اُنھوں نے پارٹی بنائی۔ ان کی پارٹی قیادت زیادہ تر نئے لوگوں پر مشتمل تھی جیسے جے۔ اے۔ رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن یا اُن لوگوں پر مشتمل تھی جنھوں نے کبھی پاپولر سیاست نہیں کی تھی جیسے شیخ رشید، شیخ رفیق اور میاں محمود علی قصوری۔ یہ لوگ اخلاقی طور پر بھی مضبوط لوگ تھے اور فکری طور پر بھی کمزور نہیں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے نئی پارٹی بنائی۔ اس کے نام میں پیپلز (عوام) کا لفظ بھی شامل تھا اور اس میں پیپل بھی شامل تھے۔

الیکشن میں عام طور پر اُمیدوار جتھے لے کر آتا ہے۔ جس کے ساتھ جتھے کچھ زیادہ ہوں، وہ جیت جاتا ہے۔ 1970ء کے الیکشن میں اکثر اُمیدوار جتھے لے کر آئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے اُمیدوار بہت سے جتھے دار اُمیدواروں کے مقابلے میں آئے تھے۔ اُن کے ساتھ پارٹی کا نام تھا اور بس، مگر الیکشن ہوے تو بہت سی سیٹوں پر پیپلز پارٹی جیت چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کے نو منتخب ارکان اسمبلی لوگوں کے شکریہ ادا کرنے نکلے تو لوگ پریشان تھے کہ اُنھوں نے تو بھٹو کو ووٹ دیا تھا، یہ شخص کہاں سے اور کیسے جیت گیا۔ بہت سی نشستوں پر بھٹو اور پیپلز پارٹی کا نام جیتا تھا اور بے نام لوگ اسمبلی میں جا بیٹھے تھے۔ یہ تبدیلی تھی۔ 1970ءکے بعد یہ تبدیلی کبھی اور کہیں نظر نہیں آئی۔ عمران خاں تبدیلی صرف یہ لائے ہیں کہ پہلی بار ایک کھلاڑی سیاسی فیصلے کر رہے ہیں۔ ویسے یہ کوئی ایسی بڑی تبدیلی نہیں ہے۔ جس ملک میں \"large-Mrجرنیل سیاسی فیصلے کرتے رہے ہوں، وہاں کھلاڑی سیاسی فیصلے کیا کرے تو کیا برائی ہے۔ ہمارے دوست مرزا جمود کہتے ہیں کہ فیصلے تو عمران خاں کرتے ہی نہیں، وہ تو پُش اپ لگاتے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ ممکن ہے وہ صرف گھگی مارتے ہوں جیسے شیخ رشید صرف دوڑ لگاتے ہیں۔ اسلام آباد سے راولپنڈی، راولپنڈی سے اسلام آباد بہر حال دوڑ لگانے کے وہ ماہر ہیں۔ براہِ کرم اسلام آباد اور راولپنڈی سے کوئی علامتی مفہوم مراد نہ لیا جائے۔

ذوالفقار علی بھٹو جس زمانے میں لیڈر بن کر سامنے آئے تھے، اُنھی دنوں اصغر خاں بھی لیڈر بنے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیل گئے تو اُن کا سارا ہجوم اصغر خاں کے ساتھ ہو لیا۔ اصغر خاں سمجھے کہ یہ اُن کے ساتھی ہیں۔ وہ اُنھیں لیڈر شپ دے کر یہی سمجھ بیٹھے کہ اب کام بن گیا، مگر وہ اُنھیں کوئی ایسا پروگرام نہ دے سکے کہ اُن کے ساتھ نعرے لگانے والے اُن کے کارکن بن سکتے۔ اُن کے ساتھ نعرے لگانے والے کچھ دن اُن کے ساتھ رہے پھر نہ جانے کدھر چلے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے بلند کرنے والے اُن کے کارکن بنے اور جاں نثار کارکن بنے۔ اُن سے کسی اللہ دتا نے اپنا دیا ہوا سو روپیہ واپس نہیں مانگا۔ صرف حکم مانگا کہ وہ اُن کے لیے جان قربان کردے۔ فین نعرے لگا لیتے ہیں۔ ساتھ مل کر شام منا لیتے ہیں۔ تحریک نہیں چلاتے، کوڑے نہیں کھاتے، پھانسی پر نہیں جھولتے۔ یہی بات اصغر خاں سمجھ نہیں سکے تھے۔ بھٹو سمجھ گئے۔ وہ دنیا سے چلے گئے، اُن کے کارکن ابھی باقی ہیں۔ تیسری نسل آ گئی ہے اور کارکن جیے بھٹو کہہ رہے ہیں۔

عمران خان بھٹو بننا مشکل سمجھ کر شاید اصغر خاں بننے پر اکتفا کر لیں، مگر اصغر خاں اپنے مخالفوں پر تبریٰ نہیں کرتے تھے۔ وہ سولو فلائٹ تو کرتے تھے، مگر کوئی نہ کوئی دوست بھی بنا کر رکھتے تھے۔ اصغر خاں نے صرف بھٹو مرحوم کے بارے میں ایک سخت جملہ کیا تھا جو اب تک اُن کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ایسا جملہ اُن کے نامہ اعمال میں نہیں ہے کہ وہ کسی سیاسی لیڈر کے ساتھ بیٹھ کر چائے کا ایک کپ بھی نہ پی سکیں۔ عمران خاں صاحب اگر تبریٰ کرنا چھوڑ دیں تو کل کلاں وہ اصغر خاں بن سکیں گے۔ اصغر خاں بننا سیاست میں ناکامی تو ہے، معاشرتی ناکامی نہیں، اخلاقی طور پر کامیابی ہے، مگر کیا خاں صاحب پسند کریں گے کہ وہ بڑے ہو کر اصغر خاںبن جائیں؟ وہ ابھی نوجوان ہیں، پُش اپ لگا رہے ہیں۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے جسم دُکھنے لگتا ہے۔ ایسے میں پُش اپ لگانا تو ٹھیک ہے، مگر وہ کبھی پُش اپ لگانے سے فارغ ہو جائیں تو اس بات پر ضرور غور کریں کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments