آزادی کا بیانیہ…. کف گل فروش پر قرض ہے


\"wajahat\"شرفا میں بات ہوتی ہے تو اتفاق اور اختلاف کے سو پہلو نکلتے ہیں۔ مہذب مکالمے کی ایک ہی شرط ہے کہ اپنی رائے سے بھی بڑھ کر مخاطب کے حق اظہار کا احترام کیا جاتا ہے۔ مخاطب کو بد نیت، جھوٹا اور گمراہ قرار دے کر مکالمہ کیا جائے تو خود راستی کے جانکاہ دکھ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ روشن خیالی کی وضاحت میں ڈاکٹر صفدر محمود کی رائے سے یہ بات تو صاف ہوگئی کہ ڈاکٹر صاحب بھی روشن خیالی کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں ورنہ وہ تاریخ انسانی کے روشن ترین ابواب کو روشن خیالی سے منسوب نہ کرتے۔ اختلاف کے کچھ پہلو بہرصورت موجود ہیں اور ان پر بات ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر صاحب نے آئین کے آرٹیکل 20 کو الحاد سے منفک کرنے کی کوشش کی ہے۔ عرض یہ ہے کہ مذہب کی آزادی کے باب میں آئین نے مروج اور غیر مروج مذہب کی کوئی تفریق نہیں کی۔ مروج حقانیت کی دلیل ہوتا تو ابراہیمی سنت کو روش آذری پر فوقیت نہیں ہوتی۔ اینگلو سیکسن قانون کی لغت میں عقیدے کوreligion کی اصطلاح دی جاتی ہے۔ مذہب، دین اور مسلک کی تفریق تو مشرق کے الٰہیاتی مباحث کا حصہ ہے۔ جنرل ضیا الحق کی سبز قدم آمریت کے طفیل تو آرٹیکل 227 کی توضیح میں فرقے کی اصطلاح بھی در آئی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود رہنمائی فرمائیں کہ فرقے کی اصطلاح کو آرٹیکل 20 کی تنگنائے میں کیسے سمویا جائے گا۔ تکفیر کی خرابی کا جرم علامہ اقبال کے سر تھونپنا مناسب نہیں۔ اقبال تو وہ درویش ہے جس پر زندگی میں تکفیر کا الزام لگایا گیا۔ سلیمان ندوی اور سید مودودی جیسے علما التزاماً اقبال مرحوم لکھتے تھے۔ گویا ہجو ملیح سے کام لیتے تھے۔ اقبال نے کبھی کسی پر تکفیر کا الزام نہیں لگایا۔

محترم ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں “اسلامی اور مذہبی ریاست میں اولین فرق یہی ہوتا ہے کہ مذہبی ریاست دوسروں پر اپنا عقیدہ مسلط کرتی ہے جبکہ اسلامی ریاست غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دیتی ہے۔” پاکستان میں ہندوستان کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش کی یاد داشتوں میں قائداعظم کے ساتھ سفیر محترم کا وہ مکالمہ ملاحظہ فرمائیے جہاں اسلامی اور مسلم ریاست کی بحث ملتی ہے۔ قائداعظم نے پرزور تردید کی تھی کہ انہوں نے پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دیا۔ تھوڑا پیچھے چلیں، 18 جولائی 1947 کو شاہ جارج پنجم نے آزادی ہند کے جس قانون پر دستخط ثبت کیے تھے اس میں دو خود مختار اور آزاد قومی ریاستوں کے قیام کا اعلان تھا۔ قومی ریاست کا مذہبی تشخص نہیں ہوتا۔ آزاد اور خود مختار ریاست میں مذہب کا انتخاب شہری کی انفرادی آزادی کا حصہ ہے۔ قومی ریاست شہریت کے مساوات کے اصول پر قائم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود اپنے بیان کردہ مذہبی اور اسلامی ریاست کے فرق کو دستور پاکستان کے آرٹیکل 20 سے استنباد کر کے دکھائیں۔ قیام پاکستان کے لئے تو پنجاب کے مسیحی ارکان اسمبلی سے ووٹ مانگا گیا تھا۔ سکھوں کی تالیف کی سعی کی گئی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلم لیگ نے پنجاب اور بنگال کی مذہبی بنیاد پر تقسیم کی مخالفت کی تھی۔ قومی ریاست کے تصور میں کچھ حقائق بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا شخص یا تو ایک آزاد خود مختار ریاست کا شہری ہے یا مقتدر گروہ کی رعایا ہے۔ پاکستان کا شہری ہونا کسی مذہبی شناخت سے مشروط نہیں۔ اگر وہ برابر کا شہری ہے تو قانون سازی، فیصلہ سازی اور پالیسی مرتب کرنے کے حقوق میں مساوی حصہ رکھتا ہے۔ اور اگر اس کی شہریت عقیدے سے مشروط ہے تو آزادی کا ایجنڈا مکمل نہیں ہوا۔ اگر پاکستان کی ریاست آزاد اور خود مختار ہے تو یہاں پیدا ہونے والا ہر شہری برابری کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ اقلیتوں کے حقوق کا سوال نہیں، شہریوں کی مساوات کا اصول ہے۔

ہمارے ملک میں چار دفعہ غیر آئینی آمریت کا سانحہ رونما ہوا۔ پاکستان کے رہنے والوں نے جمہوریت کے اصولوں اور عوام کے حق حکمرانی کی روشنی میں آمریت کے خلاف جد و جہد کی۔ اسلامی حکومت کے حامیوں نے کبھی یہ صراحت نہیں کی کہ ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کی آمریتوں کے خلاف جدوجہد اسلامی اصولوں کی روشنی میں مسلمانوں کی جدوجہد ہے اور پاکستان کے غیر مسلم شہری جمہوریت کی لڑائی سے الگ رہیں۔ یحییٰ خان کا ذکر تو محض اس لئے نہیں کیا کہ میاں طفیل محمد نے یحییٰ خان کے مرتب کردہ سیاہ بخت آئین کو اسلامی قرار دیا تھا۔ حضور، یہ روشن خیالی اور قدامت پسندی کا قضیہ ہی نہیں۔ پاکستان کا شہری ہونا مسلمان ہونے کے تابع نہیں ہیں۔

 1946ء کے انتخابی جلسوں میں جو کہا گیا اس کی قانونی حیثیت دستور ساز اسمبلی میں قائداعظم کے پالیسی بیان کے برابر نہیں ہوسکتی۔ ہمیں بتایا جائے کہ 11 اگست کی تقریر کے کس جملے کا ترجمہ یا مفہوم توڑ مروڑ کر بیان کیا گیا ہے؟ “عقیدے کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں“ کا ایک ہی مفہوم ہے کہ کاروبار ریاست کسی مذہب کے تابع نہیں ہوگا۔ دراصل قائد اعظم محمد علی جناح نے گیارہ اگست 1947 کو پاکستان کی ریاست کا بیانیہ پیش کیا تھا۔ 12 مارچ 1949 کو لیاقت علی اور شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کا رد بیانیہ پیش کیا۔ پاکستان کی ریاست کے لئے صحیح بیانیے کا انتخاب کف گل فروش پر ہنوز قرض ہے۔

مے خواری اور عصمت فروشی تو محض اشتعال انگیزی کے آلات کشاوزری ہیں۔ غالب نے اپنے نکتہ چینوں سے کہا تھا کہ گالی دینے کا سلیقہ بھی نہیں رکھتے۔ ضمیر فروشی، عصمت فروشی، قلم فروشی اور مے خواری سے کوئی گروہ اور کوئی صدی خالی نہیں۔ ان معاملات کا روشن خیالی سے کوئی تعلق نہیں۔ روشن خیالی کا بنیادی مطالبہ تو حبیب جالب نے واضح کر دیا تھا کہ \”ہر ایک ظلم گوارا مگر کتاب ملے\”۔ اگر ذاتیات کی بدمزگی کا اندیشہ نہ ہوتا تو ناموں کی ایک طویل فہرست پیش کر دی جاتی جن کا روشن خیالی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ صفدر محمود صاحب کے نشان کشیدہ اشغال میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ افسوس کہ اب حضرت اقبال ہمارے درمیان موجود نہیں اور محی الدین ابوالکلام بھی پردہ فرما چکے ہیں، ان صاحبان روشن ضمیر کی بصیرت سے بہت سے معاملات صاف ہو جاتے۔ چلئے آب رکنا باد اور گلگشت مصلیٰ کا رخ کرتے ہیں، لسان الغیب حافظ شیراز سے رجوع کرتے ہیں

ما را بمنعِ عقل مترسان و مے بیار

کاں شحنہ در ولایتِ ما ہیچ کارہ نیست

(بشکریہ روز نامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments