قتال نہیں دھمال


\"jamshedکچھ عرصہ پہلے  ہمارے ہاں کوئی نہ کوئی  ایسا بچہ ضرور  دکھائی دیتا تھا جس  نے چوٹی اگا رکھی ہوتی تھی ۔ چوٹی اگانے کا طریقہ  یہ تھا کہ  سر کے سارے بال   استرے سے مونڈ کر  سر کے عین درمیان  چوٹی پر کچھ بال کچھ عرصے کے لئے  چھوڑ دیے جاتے   باقی بال ہر بار بڑے ہونے پر مونڈ لئے جاتے تھے ۔ والدین سے پوچھتے تو وہ بتاتے کہ بچہ پڑھائی میں دل چسپی نہیں لے رہا  ، یہ بچے کو ذہین اور خوش بخت بنانے کا  صدیوں پرانا  مقامی نسخہ ہے ۔ پھر ثقافتی تخریب  کادور آیا اور ہرمقامی   طریقہ کار کو  ہندووں اور سکھوں کی شناخت   قرار  دے کر مٹا دیا گیا ۔

ہمیں اس کے مٹائے جانے کا کوئی افسوس نہیں  تھا اور میں چوٹی والے بچے بھول چکا تھا مگر کچھ برس قبل  ہالینڈ میں  میری ملاقات ایک تقلیبی نفسیات (Transpersonal Psychology)   کی ماہر سے ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ  بچوں  کی  چوٹی اگانے   کے  نسخے سے بہت متاثر ہیں ۔ تقلیبی نفسیات  علم نفسیات کی جدیدترین شاخ ہے جس کے باوائے آدم  کارل ینگ ، جوزف کیمپبل اور ابراہام ماسلو  سمجھے جاتے ہیں ۔

تقلیبی نفسیات  کی اس ماہر    کا کہنا تھا  کہ برصغیر میں عین اُسی مقام پر چوٹی اگانے کا رواج ہزاروں سال پرانا  ہے جہاں  انسانی دماغ ہے ۔ اس عمل سے   بچے کی توجہ اسی مقام  رہتی ہے اور  دیگر توانائیوں کے ساتھ ساتھ  اس حصے   میں خون کی روانی بہتر ہوتی ہے ۔ توجہ  کا اصول یہ ہے  کہ  جیسے پانی گہرائی کا رُخ کرتا ہے ، اسی طرح  بچے کی  توانائیوں کا بہاؤ اُس جانب ہوجاتا ہے  جہاں  اس  کی چوٹی اگائی جاتی ہے۔

\"TOPSHOTS

اُن کا کہنا تھا    کہ ارتقأ کے سفر کے دوران  1.9  ملین سال پہلے جب انسان کے آباؤ اجداد  کی کمر سیدھی ہوئی  ، یعنی وہ  ہو مو ارکٹس   (homo erectus) بنے  ، تو سر میں دماغ کا خانہ بھی بڑا ہونے لگا ۔ اس کی وجہ یہ تھی  کہ کمر سیدھی ہونے سے   ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے   توانائیوں کو اوپر اٹھنے  کا راستہ ملا اور یوں یہ  خانہ بڑا ہوتا گیا ۔ چوٹی عین اُسی جگہ پر اگائی جاتی تھی جس طرف توانائی  (جسے مقامی زُبان میں’ اُورجا ‘ کہا جاتا ہے)  کا رُخ متعین کرنا مقصود تھا ۔

’چوٹی کا مقصد ذہنی ارتقا کے سفر میں پیچھے رہ جانے والوں   کو ساتھ لے کر چلنا تھا ‘، ا نہوں نے بتایا ۔

تُرکی میں  اُورجا کو اوپر  اٹھانے کا طریقہ  گھومنے والے درویشوں  (Whirling Dervish) نے واضح کیا ۔ جن لوگوں نے گھومنے والے درویشوں  کی پرفارمنس  دیکھ رکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ   مولائے رُوم کے سلسلے سے  تعلق رکھنے والے یہ درویش  ایک مقام پر مرغولے  کی طرح کی  گھومتے اور اس گھومنے کا مقصد  نہ صرف اپنی بلکہ دیکھنے والوں کی اُورجا کا رُخ اوپر کی طرف کرنا ہوتا ہے۔  گھومنے والے درویشوں کا ترکی کے علاوہ مغرب میں بہت چرچا رہا ہے لیکن ماہرین  کا کہنا ہے کہ  درویشوں  کے اس طریقہ کار میں ایک  بنیادی خرابی ہے ۔

 وہ خرابی یہ ہے کہ جب  درویش گھومتا ہے تو اپنی گردن ٹیڑھی کرکے پھر سے  اوَّلین ’ہومو ارکٹس ‘ بن جاتا ہے ۔ اول الذکر کی کمر میں کچھ بل تھا اور درویش \"devotee-performs-dhamal\"خود اپنی گردن ٹیڑھی کرلیتا ہے جو اُوپر اٹھتی اُرجا کا راستہ روکنے کے  مترادف ہے۔  اس  طریقہ کار میں اس  بنیادی نقص کے پیش  ِ نظر   دھمال  کو   اصل مقصد کے قریب تر سمجھا جاتا ہے  ۔

 وہی دھمال جو آج پاکستان میں جذبہ قتال کے رحم وکرم پر ہے ۔

اس بے قدری کی  ایک  وجہ یہ بھی ہے کہ  ہمیں  انتہا پسندی اور دہشت گردی  کے تاریک ادوار سے  قبل ہی  یہ سکھایا جانے لگا تھا  کہ عرب شناخت اپناؤ اور  ’جو نقشِ عجم تم کو نظر آئے مٹادو   ‘۔ نتیجتاً ہم  نے مقامی میراث کی گہرائی کو  اپنانے اور پھر سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ اب دُوسرے اسے سمجھنے کی کوشش  کررہے  ہیں  اور ہم مقامی ورثہ و حکمت  کے جملہ حقوق  سے دستبردار ہوکر اس کا تنہا وارث انڈیا کو بنارہے ہیں  جبکہ  یہ  وراثت ہم دونوں کو ملی تھی ۔ ہم اس وراثت کے برابر کے حصہ دار تھے ۔ ہم اپنا چہرہ مسخ کررہے ہیں   اور وہ بڑے فخر سے دکھا رہے ہیں ۔ ہم  ہزاروں برس  کی تعمیر مٹی میں ملا رہے ہیں ، ملبے کے مول بیچ رہے ہیں  اور کہیں ہماری مشترکہ میراث سونے کے بھاؤ بک رہی ہے ۔

 دھمال بیچ کر قتال خریدنا  بھی  ہمارے  احمقانہ سودے کی ایک مثال ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments