عورت کی سچی عزت کرنے والے مردوں کو سلام


بہت غلغلہ مچا غیرت مرد مردوں اور بے غیرت مردوں کا۔ نئی تعریف کے مطابق غیرت مند مرد وہ ہیں جو اپنی بہن اور بیٹیوں پر بات نہیں کرتے اور یہ لبرل بے غیرت ہیں جو بہن پر مضمون پر مضمون مار رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ کیسے شکر کروں کہ میں ایسے گھر میں پیدا ہوئی جہاں بہت سارے ”بے غیرتوں“ کی بھرمار تھی۔ یہ انہی لوگوں کی وجہ سے ہے کہ ایک سادی سی نالائق سی لڑکی وہاں کھڑی ہے کہ جہاں بہت سے مرد بھی کھڑے ہونے کا صرف خواب دیکھتے ہیں۔

باپ نے دعائیں مانگ مانگ کر خدا سے چار بیٹوں کے بعد بیٹی لی۔ اس کے بعد ایک اور بیٹا بھی ہوا۔ باپ کا سینہ فخر سے چوڑا تھا۔ اس لئے نہیں کہ بہت سے بیٹے تھے اس لئے کہ ایک بیٹی اللہ نے دے دی۔ ماں نے کہا سب بیٹوں کے نام آپ پر ہیں بیٹی کا نام تو میں اپنے نام پر رکھوں گی۔ جانے میرے باپ کی ”غیرت“ کہاں چلی گئی مسکرایا اور کہا جو تمہاری مرضی۔ تو میرا نام زنیرہ بنت عزت رکھا گیا۔ اپنی ماں کے نام پر۔ ۔ کیسا مرد تھا میرا باپ؟ لوگ پوچھتے تھے یہ عزت کس کا نام ہے باپ فخر سے بتاتا تھا اس کی ماں کا۔ کیسا مرد تھا میرا باپ؟ میری ماں اسکول چلاتی تھی۔ میرے باپ سے کہیں زیادہ پیسے کماتی تھی۔ میرے باپ کو کبھی تکلیف نہ ہوئی۔ الٹا اپنی نوکری کے بعد ماں کی اسکول میں مدد کرتا تھا۔ اور تو اور ساتھ کھڑے ہو کر روٹی پکوانا اور کھانا بنا دینا بھی گوارا تھا۔

کیسا تھا میرا باپ۔ جب بستر مرگ پر تھا تو کہا جائیداد کا بٹوارہ ہو گا تو بیٹی کو پورا حصہ ملے گا۔ داڑھی تو میرے باپ کی بھی تھی۔ ایک لمبے عرصے تک جماعت اسلامی سے وابستہ رہا لیکن کبھی سلیکٹو اسلام ہم پر نہ تھوپا۔ ماں اور باپ چلے گئے تو بھائیوں نے حصہ تو پورا دیا ساتھ ہی شادی کے وقت ماں کا سارا زیور بھی پکڑا دیا۔ بولا تمہیں ضرورت ہے ہمیں نہیں۔ کہنے والوں میں 17 سال کا بھائی بھی تھا اور 34 سال کا بھی۔ کوئی پڑھ رہا تھا کوئی نوکری ڈھونڈھ رہا تھا۔ کسی کے پاس نہ اپنا گھر تھا نہ گاڑیاں۔ ایک کے گھر میں چھوٹے بچے تھے اور بہت سی ذمہ داریاں۔ کسی نے ایک لمحے کو نہ سوچا کہ اس کی قرآن سے شادی کر دیں تو زیور بھی ہمارا اور جائیداد کا قصہ بھی ختم۔ ”بے غیرت“ کہیں کے۔

شادی ہوئی تو ایک اور ”بے غیرت“ سے پالا پر گیا۔ اس نے کہا کیا گھر پر بیٹھنے کا ارادہ ہے۔ باہرنکلو پڑھو۔ زندگی میں کچھ حاصل کرو۔ میں حیران پریشان پوچھا گھر کا کیا ہو گا۔ جواب ملا مل کر کر لیں گے۔ مجھے نہیں چاہیے اپنی دم پکڑنے والی۔ مجھے چاہیے اپنی زندگی کا ساتھی جو میرے ساتھ چلے مل کر فیصلے کرے۔ زندگی کی کچھ باتیں وہ سکھائے زندگی کی کچھ باتیں میں سکھاؤں۔ اسی کی وجہ سے تھا کہ کہاں تو میں گھر پر بیٹھے زنگ لگوا رہی تھی پھر گھر سے نکلی کچھ کام کیا۔ برطانیہ میں اس کی ڈاکٹریٹ کی اسکالر شپ ہو گئی تو وہاں چل دیے۔ میں نے سوچا اب تو گھر بیٹھنا ہی پڑے گا۔ اس نے کہا ایسے کیسے؟ تم نے بھی پڑھنا ہے۔ پیسے تو تھے نہیں نوکری سے ہی کمائے جا سکتے تھے۔ اس کو سٹوڈنٹ ویزا پر اجازت نہیں تھی مجھے تھی۔ لیکن پھر چھوٹی بیٹی کا کیا ہوتا؟ جواب آیا میں سنبھالوں گا گھر پر۔ شام اور رات میں پڑھوں گا۔ اسی کی وجہ سے تھا کہ برطانیہ کی سرکار کی نوکری کی۔ اتنے پیسے بچنے لگے کہ بیٹی ڈے کیئر جانے لگی۔ اس نے آرام سے اپنی پڑھائی کی میں نے وہاں کی ٹاپ یونیورسٹی سے اپنا ماسٹر کیا۔ اور اب بس ڈاکٹریٹ مکمل ہونے کو ہے۔

یہ وہ مرد نہیں ہیں جن کے عورت کے بارے میں نظریات اس وقت بدلتے ہیں جب ان کی اپنی بیٹی ہو جاتی ہے نہیں۔ یہ وہ ہیں جی عورت کو جنس سے بالاتر ہو کر دیکھتے ہیں۔ اس کو انسان سمجھتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ زندگی میں اس کو پڑھنے کا نوکری کرنے کا، پڑھنے کا، اپنی مرضی سے زندگی جینے کا، اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کو۔ یہ وہ مرد نہیں ہیں جو کرکٹ کے کپڑوں میں ملبوس لڑکی کے جسم کے خدو خال تلاش کرتے ہیں۔ یہ تو وہ ہیں جو اس کے وکٹ لینے پر خوشی سے شور مچاتے ہیں۔ اپنے ساتھ بیٹھے کو بتاتے ہیں میری بہن ہے یہ۔ یہ وہ نہیں ہیں جو اپنی بیٹی سے ہونے والی زیادتی کا بدلہ دوسرے کی بیٹی سے لیتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو سب عورتوں کو عورت سمجھتے ہیں۔ کسی کی ماں بہن بیٹی کی عینک کے بغیر۔

جیسے حسنین کہتے ہیں نہ کہ گرم روٹی نہ کھانے سے زندگی بڑے آرام سے ہے تو ایسے ہی مرد ہیں جو ہمارے معاشرے کی عورتوں سے زندگی میں کچھ حاصل کروا رہے ہیں۔ اس معاشرے میں یہ مرد ہیں جن کو مجھے سلام کرنا ہے۔ اپنے باپ کو، اپنے بھائیوں کو، اپنے شوہر کو۔ اپنے بہت سارے کولیگز کو۔ آپ سب کی بے غیرتی کو سلام ہے۔ یہ آپ کی وجہ سے ہے کہ ہم یہاں ہیں۔ ورنہ معاشرے میں پھیلی اوریانت میں کہیں گم چکے ہوتے۔
Nov 15, 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments