ٹی وی چینل خبر دیں، خوف نہ پھیلائیں


\"erumبچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ ایک نٹ کھٹ لڑکا تھا جس کی شرارتوں اوردروغ گوئی سے سارا گاﺅں نالاں تھا۔ ہر رات وہ \”بچاﺅ ! بچاﺅ! شیر آیا، شیر آیا\” کے نعرے لگا کر میٹھی نیند سوئے لو گوں کو جگا دیتا اور جھوٹ کھل جانے پر شرمندہ ہونے کے بجائے بغلیں بجاتا کہ دیکھا کیسا الو بنایا! پھر یوں ہوا کہ ایک رات واقعی شیر آ دھمکا۔ لڑکا مدد کے لیے پکارتا رہ گیا لیکن نہ تو گاﺅں والوں نے اس کی فریاد پر کان دھرے، نہ ہی شیر کو اس پر ترس آیااور یوں سویرے گا ﺅں والے اس کی باقیات پر کف افسو س ملتے پائے گئے۔

آج پاکستان میں بسنے والے شہریوں کا حال بھی ان دیہاتیوں سے مختلف نہیں۔ دروغ گو لڑکے کی جگہ، ٹی وی اور سوشل میڈیا نے لے لی ہے جوآئے دن افواہوں اور اندیشوں کا بازار گرم رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہرشخص بد گمان، خوف زدہ اور وسوسوں کا شکار نظر آتا ہے۔

اس حوالے سے پچھلے دنوں ایک تشویش ناک خبر بچوں کے اغوا اور گمشدگیوں سے متعلق تھی جس کا سلسلہ لاہور سے شروع ہوا تھا اور دیکھتے ھی دیکھتے کراچی، اسلام آباد اور دوسرے شہروں میں بھی اس کی بازگشت سنائی دی۔ بعد ازاں یہ حال ہوا کہ ٹی وی چینلز نے کتنی ہی تردید کی کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ شہری ماننے کو تیار نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ سڑکوں پرصرف شک کی بنیاد پر بے گناہ لوگ، مشتعل ہجوم کے عتاب کا نشانہ بنتے رہے۔

ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ایک روزہماری ماسی حواس باختہ گھر میں داخل ہوئی۔ دریافت کرنے پر گو یا رو ہی پڑی \”کیا بتاﺅں باجی! محلے کے سارے اسکول بند ہو گئے ہیں۔ بچوں کو واپس کر دیا ھے۔ کہتے ہیں کہ جب حالات بہترہوں گے تب اسکول کھولیں گے \”

خدیجہ کے بقول اس کے محلے سے تین بچے اغوا ہو چکے تھے۔ نیز نوجوان لڑکیاں اور مائیں بھی محفوظ نہیں تھی۔ بقول اس کے اغوا کنندگان اعضا کی اسمگلنگ کے لیے بچوں اور عورتوں کو اٹھاتے تھے اور مطلوبہ مقاصد پورے ہو جانے کے بعد ان کی باقیات محلے کے میدان میں پھینک جاتے تھے۔

ہم نے خدیجہ کو قائل کرنے کی لاکھ کوشش کی لیکن بے سود۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے یقین نے ہمیں بھی سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ان افواہوں میں شاید کچھ صداقت\"journalism\" ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ا ن دنوں جمعہ کو نہ تو بیٹے کو نماز کے لیے تنہا مسجد جانے کی اجازت ملی، نہ  چھو ٹی بیٹی کو گھر سے منسلک بیرونی لان میں کھیلنے جانے دیا گیا۔

ان حالات کے معصوم بچوں کے ذہنوں پرجو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ الگ۔ سچ تو یہ ہے کہ آج پاکستان کا ہر بچہ خود کو اپنے گھر میں بھی قطعی غیرمحفوظ محسوس کرنے لگا ہے۔

ہر دوسرے شخص کی زبان پرملکی حالات کے حوالے سے اندیشے نظر آتے ہیں۔ ہر ایک حالات سے خائف اور اپنے خاندان اور پیاروں کے تحفظ کے حوالے سے نالاں ہے اور حکومت و قت کو مورد الزام ٹھہراتا نظر آتا ھے۔

کہتے ہیں موت سے زیادہ اذیت ناک موت کا خوف ہوتا ہے۔ ہمارے ابلاغی ادارے آج کل اسی خوف کے سوداگر بنے ہوئے ہیں۔ بچوں کے اغوا کی تردید ایک طرف؛ خوف زدہ، اندھیری کوٹھریوں میں مقفل کوٹھریوں میں، منہ پر اجنبی ہاتھ دھرے، بچوں کی تصاویرکے ساتھ ان افواھوں سے متعلق رپورٹیں نشرکر نے کے کیا مقاصد تھے؟

عام آدمی ابھی اس خوف سے خود کو بمشکل نکال ہی پایا تھا کہ ڈینگی اور کانگو کے مہلک وائرس اور اس کی ہلاکتیں ٹی و ی اسکرین کے ذریعے ہمارے اعصاب کا امتحا ن لینے آ دھمکیں۔ اور پھر ڈرامہ شروع ہو گیا بھارتی حملے، دھرنے، پانامہ لیکس اورسر جیکل اسٹرا ئیک کا۔

آج خبر کی منڈی میں ہر گلی سڑی، ارزاں جنس ہاتھوں ہاتھ بکتی ھے خواہ وہ بلاول کی شادی سے متعلق بیان بازی ہو۔ خان صاحب کی دھمکیاں ہوں۔ یا میاں صاحب کے جذبا تی دعوے اور آنسو۔

اغوا، ڈکیتی، لو ٹ مار، ظلم، ناانصافی، وبا ئی امرا ض، دہشت گرد حملے، بم دھما کے، ڈرون، ماحولیاتی آلودگی حادثات یا ٹرمپ کی کامیابی۔ غرض وہ کون سا ڈرہے جو آج کا کمرشل میڈیا جنس کی صورت سحر زدہ ناظرین کو بیچ نہ رہا ہو۔

ایسے میں دماغ شل اور دل پریشان نہ ہوں تو کیسے؟ ذہنی امراض میں اضافہ نہ ہو توکیونکر۔ تواتر سے خبریں سنیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، ہم پہاڑ کے پیچھے ہیں اور ہمارے مسیحا تجزیہ کار آنکھوں دیکھا احوال سنا رہے ہیں۔ ان تجربوں سے اور کچھ ہو نہ ہو پاکستانی میڈیا کے اعتبار اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے لوگوں کی امید متزلزل ضرور ہو رہی ہے۔

ملک میں کئے گئے حالیہ سروے کے مطابق، پا کستانیوں کی ایک بڑی تعداد ڈپریشن، اختلاج قلب اور ذہنی دباﺅ کا شکار ہے جس کی ایک بڑی وجہ جدید طرز زندگی ہے جس میں ٹی وی گھر کے بزرگ اور نیوز اینکرز رہنما کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حقیقت سے فرار، تنہائی کا رفیق اور طلسم ہوشربا، ٹی وی عام افراد کے لیے گویا جام جہاں نما ہے۔

پس آج کے دور میں وبائی امراض، دہشت گردی اور ان جانی گولی سے بھلے آپ مریں نہ مر یں، موجودہ حالات میں خبرچینلز کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو کر، اسپتال جلد پہنچ جائیں گے۔ کبھی بلند فشارخون اور دل کے عارضے میں مبتلا ہو کر، تو کبھی بے چینی اور ڈپریشن کے مریض بن کر۔

حا لیہ برسوں میں پاکستان میں اس حوالے سے کی گئی دو ریسرچز آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ سال 2009 میں برطانیہ کی ساﺅتھ ایمسٹن یونیورسٹی اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی تحقیق کے مطابق اسلام آباد میں جن نمائندہ ہزار گھرانوں کا سروے کیا گیا ان میں سے 65 فیصد ایسے تھے جو ملکی حالات اور ٹی وی پر دکھائے جانے والے سانحات کے پیش نظر شدید ذہنی و جذباتی دباﺅکا شکار پائے گئے۔ سروے کا مقصد ٹی وی پر نشر ہونے والی منفی خبروں کے اثرات کا جائزہ لینا تھا۔ ایسی ہی ایک تحقیق تقریباً چار سو افراد پر کراچی میں تین سال قبل ہوئی جس کے مطابق 68% افراد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ خبروں کے حصول کے لیے ٹی وی پر انحصار کرتے ہیں۔ جبکہ ان میں سے تقریباً 34 فےصد افراد مستقل ذہنی دباﺅ کا شکار پائے گئے جس کا ایک اہم متحرک نیوز چینلز تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا نیوز چینلز خبریں دینا بند کر دیں آخر کار یہ تو ان کا کام ہے اور بہر حال ان ہی کی بدولت تو عوام الناس باخبر اور باشعور ہو گئے ہیں۔

عرض یہ ہے ا گر آپ صاحب دل ہیں، ایک کنبہ رکھتے ہیں اور اپنے پیاروں اور اپنی حفاظت کے حوالے سے حساس ہیں تو حتی الامکان ان خبری چینلز سے دور رہیں۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم ازکم ان کی خبروں اور تجزیوں پر من وعن یقین نہ کریں، تصدیق ضرور کر لیں کیونکہ ٹی وی پر دکھا ئی جانے والی ہر چیز سچ نہیں ہوتی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments