عمران خان سیاست کے اصول نہیں سمجھتے


پاکستان تحریک انصاف نے جمعرات کو منعقد ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ اس اجلاس سے پاکستان کے دورے پر آنے والے ترک صدر رجب اردگان خطاب کریں گے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے سوموار کو اسلام آباد میں ترکی کے سفیر سے ملاقات میں پارٹی پوزیشن واضح کرتے ہوئے صدر اردگان سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔ ترک سفیر نے تحریک انصاف کے قائدین کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس دوران یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ عمران خان کی قیادت میں چند رہنماؤں نے کیا تھا۔ پارٹی کے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو اس حوالے سے اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ آج بائیکاٹ کے فیصلہ پر ازسر نو غور کرتے ہوئے اس پر قائم رہنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وہ ایک بدعنوان متنازعہ وزیراعظم کی موجودگی میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ لیکن اسی سانس میں بائیکاٹ کے فیصلہ کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے ان کی پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے، اس کی روشنی میں پارٹی کے ارکان اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس طرح ان کا اعتراض اب نواز شریف کی قانونی حیثیت کے علاوہ حکومت کے انتظامی فیصلوں تک وسیع ہو گیا ہے۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ پاناما پیپرز میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں گے۔ کیوں کہ ایک بدعنوان شخص وزیراعظم ہے اور وہ استعفیٰ دینے سے انکار کر رہا ہے۔ آج سپریم کورٹ میں اس حوالے سے جو کارروائی ہوئی ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے جو شواہد پیش کئے گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان کی روشنی میں تو سپریم کورٹ کے لئے تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کرنا بھی دشوار ہو جائے گا۔ 5 رکنی بینچ کے ارکان کی طرف سے تحریک انصاف کی طرف سے فراہم کردہ شواہد کی کوالٹی پر اعتراض کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان میں اخبارات کے تراشے شامل ہیں جنہیں ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے وکلا نے نواز شریف اور ان کے خاندان کی بدعنوانی کے بارے میں لکھی گئی ایک کتاب کے صفحات اور دلائل کو ثبوت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ پریشانی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ وہ اس مقدمہ پر کتنا وقت اور صلاحیت صرف کر سکتی ہے۔ مالی بدعنوانی کے ایسے معاملات پر سیاسی بیان بازی آسان ہوتی ہے لیکن عدالت میں ثبوتوں کے ساتھ کسی شخص کو گناہ گار ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لئے سپریم کورٹ میں مقدمہ کی کارروائی جو رخ اختیار کر رہی ہے، اس پر بھی عمران خان کو بہت زیادہ پرامید نہیں ہونا چاہئے۔

اس پس منظر میں عمران خان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی معاملات اور سیاستدانوں کی تقدیر کے فیصلے عدالتوں میں طے کروانے کی بجائے عوامی عدالت میں ہی ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے ملک میں جمہوریت اور جمہوری روایات کو مستحکم کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی پر بھی ملک کی اہم سیاسی جماعت ہونے کے ناتے اس حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بدنصیبی کی بات ہے کہ عمران خان اس ذمہ داری کو نہ تو قبول کرتے ہیں اور نہ ہی ملک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کےلئے کوئی قابل قدر خدمت سرانجام دے سکے ہیں۔ حالانکہ 2013 کے انتخابی نتائج میں تحریک انصاف نے سیاسی منظر نامہ پر نمایاں مقام حاصل کیا تھا۔ اسے قومی اسمبلی میں 30 سے زیادہ نشستیں حاصل ہو گئی تھیں اور خیبر پختونخوا میں وہ اس قدر سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی کہ بعض چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر وہ صوبے میں حکومت قائم کرنے اور چلانے میں کامیاب رہی ہے۔ عمران خان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ خیبر پختون خوا میں جن پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت چلا رہے ہیں، ان سے بھی ان کے سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن باہمی افہام و تفہیم اور کچھ لو اور دو کے اصول کے تحت تحریک انصاف کی حکومت ساڑھے تین برس سے برقرار ہے۔ انہیں قومی سیاست میں بھی اسی قسم کا مثبت سیاسی رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ تا کہ وہ قانون سازی کے عمل میں شریک ہوں اور اہم اپوزیشن پارٹی کے طور پر قومی اسمبلی میں حکومت کے غلط فیصلوں کو چیلنج کر سکیں۔ اس کارگزاری کی بنیاد پر ہی وہ 2018 کے انتخابات میں عوام سے ووٹ مانگ سکتے ہیں۔

اس کے برعکس تحریک انصاف نے گزشتہ تین برس کے دوران صرف احتجاج کی سیاست کی ہے۔ فی الوقت اس سیاسی رویے کا صرف یہ مقصد دکھائی دیتا ہے کہ کسی طرح اپوزیشن ، عدالت یا فوج کے تعاون سے نواز شریف کی چھٹی کروا دی جائے اور ان کے نااہل ہونے کی صورت میں جو خلا پیدا ہو اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔ عمران خان نہ تو اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کوئی قابل عمل اشتراک پیدا کر سکے ہیں۔ نہ فوج نے ان کی سیاست کی سرپرستی قبول کی ہے اور نہ ہی اب وہ سپریم کورٹ میں بدعنوانی کے الزامات ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس سے قبل 3 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے اور حکومت کو جزو معطل بنا دینے کا منصوبہ بھی کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ عمران خان کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ لوگوں کو لاکھوں تو کیا ہزاروں کی تعداد میں بھی سڑکوں پر لانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ اگر 2 نومبر کو پاناما لیکس پر تحقیقاتی کمیشن کے بارے میں درخواست پر غور کرنے کا فیصلہ نہ کرتی تو تحریک انصاف اور اس کے لیڈر کو سیاسی لحاظ سے سخت ہزیمت برداشت کرنا پڑتی۔ خیبر پختونخوا کی پوری حکومت جس قافلے کو لے کر اسلام آباد آ رہی تھی اس کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ پنجاب کے کسی شہر سے تحریک انصاف کا کوئی قافلہ اسلام آباد روانہ نہیں ہوا تھا۔ اس تجربے سے عمران خان کو سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان کے عوام اگرچہ حکمرانوں کی کج ادائیوں اور بدعنوانیوں سے عاجز ہیں لیکن وہ ان کی اپیل پر اب ایک نئے احتجاج کےلئے سڑکوں پر نکلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

عمران خان خواہ ملک میں کوئی بڑا انقلاب بپا کرنے کا عزم رکھتے ہوں لیکن وہ کوئی انقلابی لیڈر نہیں ہیں۔ ان کے پاس ملک کے حالات کو درست کرنے کےلئے انقلابی پیغام تو کجا معمول کا سیاسی ایجنڈا بھی نہیں۔ ان کی پارٹی پاکستان کو درپیش سیاسی، معاشی، خارجی اور قومی سلامتی کے امور پر کوئی واضح حکمت عملی پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ملک کو دہشت گردی کی صورت میں جس خطرناک اور جاں گسل صورتحال کا سامنا ہے، اس کے بارے میں بھی عمران خان یا تحریک انصاف کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں۔ عمران خان ملک کی انتہا پسند مذہبی قوتوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہونے تک وہ طالبان کی حمایت کرتے رہے تھے۔ وہ دہشت گردی کا سب سے بڑا سبب پاکستان کی امریکہ نواز حکمت عملی کو بتاتے ہیں لیکن وہ اپنا یہ موقف سیاسی بیان بازی سے بڑھ کر کسی ٹھوس پالیسی بیان کی صورت میں سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ دہشت گردی کے حوالے سے ملکی اور علاقائی عوامل کا تجزیہ کرنے اور ان کی روشنی میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اب تک عمران خان نے حکومت پر تنقید کرنے اور ہر معاملہ میں حکومت کو نااہل، بے ایمان اور غلط ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ نواز شریف کے غلط ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عمران خان درست ہیں یا ان کی پالیسیاں ملک کےلئے سودمند ہو سکتی ہیں۔ یہ بات بھی واضح نہیں کہ اقتدار ملنے کی صورت میں حکمرانوں کو قید کرنے کے علاوہ تحریک انصاف کیا پالیسی اختیار کرے گی۔

یہ درست ہے کہ پاکستان کے انتخابات نعرے بازی، گٹھ جوڑ اور الزام تراشی کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں۔ لیکن عوام کی حمایت حاصل ہونے کے بعد ملک چلانے کےلئے سیاسی پارٹی کے پاس واضح منشور اور متعین رہنما اصول ہونے چاہئیں۔ تب ہی کوئی سیاسی پارٹی کامیابی سے امور مملکت چلانے میں سرخرو ہو سکتی ہے۔ اقتدار کی بے پناہ خواہش کے باوجود عمران خان خود کو اور اپنی پارٹی کو ملک میں ممکنہ حکمرانی کے لئے تیار نہیں کر سکے ہیں۔ اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جن ناکامیوں کا سامنا کر چکے ہیں اور سپریم کورٹ کی کارروائی کی صورت میں وہ وزیراعظم کی نااہلی کے جس مقصد میں ناکام ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان پر غور کرتے ہوئے ٹھنڈے دل سے اپنی سیاسی غلطیوں پر غور کریں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ دھرنے اور احتجاج کےلئے لوگوں کو باہر نکالنے پر آمادہ نہیں کر سکے۔ وزیراعظم پر اتنا دباؤ بڑھانے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ استعفیٰ دیں۔ عدالت میں وہ اپنے دعوؤں کے مطابق ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں ان کے پاس صرف ایک آپشن باقی بچتا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کی تیاری کریں۔ اس مقصد کےلئے انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں باقاعدہ شریک ہو کر اپنی صلاحیتوں کا امتحان لینا چاہئے اور حکومت کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے تاکہ وہ ایک کامیاب لیڈر کے طور پر عوام کے سامنے آ سکیں۔

حکومت اور وزیراعظم پر الزام تراشی سے عمران خان اور تحریک انصاف کے سیاسی مقاصد حاصل نہیں ہو سکے۔ انہیں اس سچائی کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ تب ہی وہ ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے کےلئے ازسرنو تیاری کر سکیں گے۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنی غلطیاں دہراتے رہے تو مستقبل میں مسلسل ناکامی عمران خان کی راہ دیکھ رہی ہوگی۔ وہ ایک مقبول لیڈر ہیں لیکن صرف یہ صلاحیت کسی جمہوری نظام میں سیاسی کامیابی کےلئے کافی نہیں۔ اب عمران خان اپنی مقبولیت کے سحر سے باہر نکل کر حقیقت پسند اور عملیت پسند سیاستدان کے طور پر اقدام کریں تو وہ شاید اپنی بکھری ہوئی پارٹی کو ازسرنو منظم کرتے ہوئے 2018 کے انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ عمران خان سے بہت لوگوں نے امیدیں باندھی تھیں۔ انہوں نے اپنی جذباتیت اور سیاسی جلد بازی کے سبب بہت لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ لیکن اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے وہ اب بھی قومی سیاست میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments