خواجہ سرا اور اسلامی نظریاتی کونسل


وسیم رضا نقوی

\"waseem-raza\"خواتین پر ہلکے پھلکے تشدد کی بے حد کامیابی کے بعد اب ہمارے ملک کے سب سے اہم ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے مردوں پر گھریلو تشدد کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیا ہے، یہ تو بھلا ہو اس ادارے کا ورنہ اس ملک میں سنتا کون ہے اور وہ بھی گھریلو باتیں۔ اللہ مولانا شیرانی سمیت تمام اراکین کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھے لیکن چلیں خواتین پر تو تشدد کے واقعات اتنے ہوئے کے اس پر بات کرنے کی ضرورت پیش آئی لیکن مردوں پر ایسی کون سی قیامت آگئی تھی کہ اس کو ایجنڈے میں شامل کرنا پڑا، اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو مرد اور عورت کے علاوہ ایک ایسی مخلوق بھی خدا نے بنائی ہے کہ جس کو شاید ہم نے مخلوق بھی نہیں سمجھتے۔ وہ ہے خواجہ سرا۔۔ جی جناب گزشتہ کئی ماہ سے خیبر پختونخوا سمیت پنجاب کے شہروں میں خواجہ سراؤں پر مسلسل تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں حتیٰ کہ چند واقعات میں تو خواجہ سرا اپنے جان تک گنوا چکے ہیں۔

خواجہ سراؤں پر مسلسل تشدد اور زیادتی کے واقعات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو اپنا ایجنڈا بناتی نہ کہ مردوں پر گھریلو تشدد کو لیکن شاید یہ معاشرہ اس پر بات کرنا توہین سمجھتا ہے۔ یہ طبقہ اس حد تک نظر انداز ہے کہ گھر والے تو ان کو اپنے ساتھ رکھنا کسی گناہ سے کم نہیں سمجھتے۔ جب یہ افراد گھر بار چھوڑ کر ماں باپ بہن بھائی سے دور کسی دوسرے شہر یا دوسرے گھر اپنا بسیرا بنا لیتے ہیں تو صاحب بے شک ان کے ساتھ کوئی نہیں رہا لیکن پیٹ تو ہے نا اور بھوکا انسان کچھ بھی کر جاتا ہے چاہے جرم ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اس طبقے نے کمانے کے لیے کسی کا قتل نہیں کیا، کسی کو لوٹا نہیں، کسی کا حق نہیں چھینا ہاں سڑکوں پر اپنے جسم کی نمود ونمائش کر کے ہر آنے جانے والوں سے پیسے ضرور مانگے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ ملک میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں جو ان کو باعزت روزگار دے۔ ہاں اگر کوئی نوکری پر رکھ بھی لیتا ہے تو وہاں پر موجود افراد کے طعنے اور مذاق ان کو اس نوکری پر رہنے نہیں دیتا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ طبقہ مانگنے کے لیے اپنے جسم کی نمود و نمائش کیوں کرتا ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ یہ عوام جسم کی پیاسی ہے، جب تک ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نہیں پہنچائی جائے گی تب تک یہ مانگنے پر بھی نہیں دیں گے۔

لیکن شاید اب بات اس سے کہیں آگے جا چکی ہے۔ اب اس طبقے کو صرف رسوا ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یہ معاشرہ اب ان کی جان تک لینے پر آگیا ہے۔۔ کوئی میڈیا چینل ان کو بریکنگ نیوز اور اہمیت دینے کو تیار نہیں، کوئی اس کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں لیکن بھلا ہو اس سوشل میڈیا کا جس پر خود خواجہ سراؤں نے فیس بک پر پیج بنا کر اپنے ہونے والے ظلم کو عوام تک پہنچانا شروع کر دیا ہے اور معاشرے کا سفاک چہرہ انہی کو دکھایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں سیالکوٹ میں واقعہ پیش آیا جہاں بھتہ نہ دینے پر خواجہ سراؤں کو رات بھر ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور جو ان کے ساتھ ہوا وہ لکھنے کے قابل نہیں۔ سوشل میڈیا پر جگہ جگہ ویڈیوز موجود ہے جس میں وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان سنا رہے ہیں۔

شاید شناختی کارڈ بنا کر ریاست نے اپنا فرض پورا کرلیا ہے کہ ان کو شناخت دے دی جائے تو ہماری ذمہ داری پوری ہوگئی مگر ان پر ہونے والے ظلم و زیادتی کی کوئی شنوائی نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے خواتین پر تو ہلکا پھلکا تشدد تو جائز قرار دے دیا تھا لیکن ایک نظر اس وحشیانہ تشدد پر بھی ڈال لیں۔ اس کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیں یقین کریں اس سے آپ کی عزت میں کمی نہیں ہوگی بلکہ توقیر میں اضافہ ہی ہوگا۔ مذمت و بیانات کو چینلز کے ٹکر کی زینت مت بنائیں بلکہ عملی اقدامت کریں۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر اسلامی نظریاتی کونسل مردوں پر گھریلو تشدد کی بجائے خواجہ سراؤں پر سر عام تشدد کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرتی لیکن افسوس وہی روایتی ایجنڈے وہی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بیانات۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments