فوٹو گرافی کے بارے میں چند باتیں


جینے کا مطلب کیا ہے، جینے سے کیا مراد ہے؟ زندہ رہنے کے لیے، دوسروں سے نباہ کرنے کی غرض سے روز طرح طرح کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ جو بہت سی باتیں ذہن میں آتی ہیں اُن میں سے کسی ایک کو ہم چُن لیتے ہیں۔ زندگی یوں نظر آتی ہے جیسے چُناوٹوں کا کوئی اٹمبار ہو۔ اچھی یا صحیح چناوٹیں، بری یا غلط چناوٹیں۔ بعض دفعہ ہم پوری طرح سوچ سمجھ کر کچھ چنتے ہیں۔ بعض اوقات اس چناؤ میں غیر شعوری قوتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی ان چناوٹوں کے بوجھ تلے آدمی کی عقل جواب دے جاتی ہے۔ لیکن یہ اور کہانی ہے جس سے سرِدست ہمیں سروکار نہیں۔ بے شک بہت سی باتیں ہم نہیں چنتے یا نہیں چن سکتے۔ وہ ہمارے سر مڑھ دی جاتی ہیں۔ ہم اپنے والدین کو نہیں چن سکتے۔ ہم اپنی شکل صورت نہیں چنتے۔ خوب رُو بھی ہو سکتے ہیں، معمولی خدوخال کے حامل بھی اور بد صورت بھی۔ پیدائشی طور پر توانا بھی ہو سکتے ہیں، ناتواں بھی۔ ہم اپنا نام بھی نہیں چنتے، گو اس معاملے میں اتنی آزادی ضرور ہے کہ بڑے ہو کر نام بدل سکتے ہیں۔ اور اگر سچ مچ اپنی مرضی سے کچھ چننے کا حق حاصل ہو جائے تو، چند ایک افراد کو چھوڑ کر، کوئی مرنے کا نام نہ لے۔ سو جہاں آزادیاں ہیں وہاں پابندیاں بھی ہیں۔ زندگی تضادات کا پلندہ ہے۔

 لہٰذا، جو بھی ہم کرتے ہیں وہ بظاہر، دانستہ طور پر، ایک چناﺅ ہے۔ ہر چناﺅ کی وساطت سے ہم، کبھی کبھار جانے بوجھے بغیر، یہ افشا کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں کیا کیا باتیں گدگدا یا اُکسا رہی ہیں، بے خبری کے عالم میں چناﺅ سے اپنا بھانڈا بھی پھوڑ سکتے ہیں۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ اپنے پانؤ پر آپ کلہاڑی مار لی ہے۔ مرزا غالب نے کہا ہے:

 کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

 اس تمہید کے بعد ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جس فرد نے خود کو فوٹو گرافی کے لیے وقف کیا تو گویا اپنے لیے زندگی گزارنے کی ایک طرز کو چن لیا۔ یہ چناﺅ قطعیت کا حامل ہے اور وقتی نہیں، ہمہ وقتی ہوتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ جاننا لطف سے خالی نہ ہوگا کہ فلاں صاحب یا صاحبہ نے فوٹو گر بننے کا فیصلہ کیوں کیا یا اس فن میں کسی خاص رخ میں تخصیصی مہارت حاصل کرنے کو ترجیح کیوں دی؟ اگر کیمرا ہماری ایجاد ہوتا اور وہ بھی اس زمانے میں جب فارسی کا چلن علمی اور ادبی سطح پر عام تھا تو شاید کیمرے کو حجلہ اور فوٹو گرافی کو شید نگاری کہا جاتا۔ چھوڑیے، اب اس اگر مگر میں کچھ نہیں رکھا۔ انیسویں صدی میں فوٹو گرافی کا فن مصوری کے بدل کے طور پر ابھرا۔ اسے عوامی یا جمہوری بدل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے برسوں کی ریاضت یا کسی استاد کے سامنے مدتوں زانوئے تلمذ تہ کر نے کی ضرورت نہ تھی۔ جو چاہے کیمرا خرید کر تصویریں اتارتا پھرے۔ تصویریں اچھی ہیں یا بری، اس کی قید نہیں۔ یہ تو ایک شوق کی تکمیل ہے۔

اس فنِ لطیف میں اتنی گہرائی، باریک نکتے اور طرح طرح کی گونجیں ہیں کہ ایک مختصر مضمون میں اس سے نمٹنا کہاں ممکن ہے۔ بس ان معاملات کو کہیں کہیں چھوا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی راقم کو عکاسی سے فنی سطح پر کوئی شناسائی نہیں۔ اچھے فوٹوﺅں سے حظ اٹھانے کی تھوڑی بہت اہلیت ہے۔ چناں چہ میں صرف چند پہلوﺅں کی طرف اشارہ کروں گا اور یہ دعویٰ ہرگز نہیں کرنا چاہتا کہ میں نے اس موضوع کو باریک بینی سے دیکھا ہے۔ شاید کوئی نکتہ توجہ کے قابل ہو۔ نشانہ چوک بھی سکتا ہے اور اس کا امکان زیادہ ہے۔

یہ فن کیا ہے؟ لمحہ گریزاں کو گرفتار کرنے کی سعی ہے۔ جو فوٹو بھی میں غور سے دیکھتا ہوں اس میں خزنیہ کیفیت نظر آتی ہے۔ شیون کی آواز سنائی دیتی ہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ جس فرد یا شے کی تصویر میرے سامنے ہوتی ہے وہ ماضی کی ادھوری بازیافت کے سوا کچھ نہیں۔ فوٹوﺅں میں آپ ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جن سے جیتے جی دوبارہ ملنا ممکن نہیں یا ایسے مناظر سے دوچار ہوتے ہیں جو دوبارہ دیکھنے کو نہ ملیں گے۔ آپ کو ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جن سے جان پہچان نہیں، نام تک معلوم نہیں۔ جنھیں شاید اس جہان سے رخصت ہوے شاید سو سال بیت چکے ہوں۔ ایسے منظر بھی سامنے آ سکتے ہیں جو نہ پہلے دیکھے نہ آیندہ دیکھنے نصیب ہوں گے۔ کتنے ہی فوٹو ہیں جو متاع عزیز بن جاتے ہیں۔ ہر تصویر ہم دمی کا احساس دلاتی ہے یا اس حیرت، رنگا رنگی یا دہشت کو آمنے سامنے لے آتی ہے جو دنیا کا لاینفک حصہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دل کسی بہت بڑے ضیاع، بے انتہا دُوری اور علیحدگی کو محسوس کرتا ہے۔ جو سامنے ہے وہ محض ایک سایہ آسا موجودگی ہے، گویائی سے محروم، تغیر سے ماورا اور غالباً اپنے میں فریب یا گریز کا رنگ لیے ہوے۔

Ghulam-Rasool-Building-Lahore 1922

 مجھے وہ لوگ دلچسپ معلوم ہوتے ہیں جنھیں پرانی یا تاریخی یا بارعب یا تعمیراتی اعتبار سے توجہ کش عمارتوں کی تصویریں اتارنے سے شغف ہے۔ ان کے برعکس بعض حضرات کو کھنڈروں کے فوٹو لینے کا چسکا ہوتا ہے۔ ان فریقوں نے اپنے اپنے میدان چن لیے ہیں۔ میں یہ حماقت آمیز دعویٰ نہیں کرنا چاہتا کہ میں نے وہ سبب معلوم کر لیا ہے جس کے زیرِ اثر انھوں نے متضاد رائیں اپنائی ہیں۔ بہرحال، یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو فوٹو گرافر عمارتوں کی عکاسی کرنے میں درک رکھتے ہیں انھوں نے شاید چوری چھپے یہ جان لیا ہے کہ خود ان کی باطنی زندگی کسی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔ وہ خود سے باہر کہیں، ظاہر میں، استحکام کے جویا ہیں۔ اگر اس بات میں کوئی وزن ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کی حد تک فوٹو گرافی ایک مطالعاتی عمل ہے، ایک طرح کا تنقیہ (کتھارسس) ہے۔

ان حضرات کے بارے میں کیا سوچا جائے جو کھنڈروں کے فوٹو اتارتے ہیں؟ شاید سمجھتے ہوں کہ کھنڈروں ہی میں گزرتے وقت کی ٹِک ٹِک سنائی بلکہ دکھائی دیتی ہے۔ جو مقامات اب کھنڈر ہو چکے کبھی رہنے سہنے کے قابل تھے اور کسی نہ کسی معاشرتی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔ صحیح سالم حالت میں عمارتیں افادیت کے کسی درجے پر فائز ہوں گی۔ اب کہ وہ اجڑ چکیں، بے چراغ پڑی ہیں، شکست و ریخت کا شکار ہیں اور ان کا کوئی مصرف نہیں رہا تو ماہیت کی تبدیلی سے معکوس فن کاری کے نمونوں میں ڈھل گئی ہیں۔ کسی ایسی جگہ یا تعمیر کو، جو عام لوگوں کو عام طور پر ملبے کا ڈھیر لگتی ہو، کیمرے کی مدد سے خستہ و شکستہ جاہ و جلال کا مرقع بنا دینا غیر معمولی ژرف نگاہی پر دلالت کرتا ہے۔ روز مرہ کی لین دین والی زندگی میں جو شے جتنی بے قیمت نظر آتی ہے اتنی ہی خوش نما اور آزاد معلوم ہونے لگتی ہے۔ یہ بھی ایک معما ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments