گڈانی سے شاہ نورانی میں بھٹکتی دوشیزہ کی کہانی


\"shakoor

کہانیاں لکھنا ہوں یا ڈالنا، پسند ہے کہ رومانویت پسند ہوں اور حسن پرست بھی۔ گیت، افسانہ، کہانی اور بالخصوص مختصر کہانی میں زیادہ لکھنا پڑھنا یا پھر لے کے چلنا نہیں پڑتا۔ ادق مشاہدوں اور نظریوں میں کھپنے کے بجائے جبلی قوت متخلیہ سے ارد گرد کسی چونکا دینے والے واقعے کو اپنی حسرتوں کاڈرامائی سا روپ دے ڈالنا کونسا مشکل کام ہے۔ اس تن آساں کے لیے، تاہم، اب یہ کام بھی مشکل ہو چلا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک عرصے سے ان مخصوص جمالیاتی لطافتوں کے داؤ ٔپیچ کے احساس، اظہار اور ابلاغ میں ناکامی سی محسوس ہوتی ہے۔

عجیب بات ہے! لڑکپن میں جب شباب آویزاں ہوا تو ہر طرف ’مادہ‘ کی ’حوا‘ چلتی تھی۔ اب ادھیڑپن میں یہی شباب گریزاں ہے تو بھی ہر سو ’مادہ ‘ ہی ہے مگر بہ معنیٰ ’مادیت‘۔

متفق کہ سماج صرف طبقوں میں بٹے اناج کا نام نہیں، یہ ’پیت رواج‘ کا نام بھی ہے۔ تتلی جگنو ناپید سہی مگر شعر و ادب سے نغمہ و رقص اور تصویری عکس تک کو ٹٹول دیکھئے، مادی و افادی ’نظریہ ضرورت‘ کی بُکل میں کئی لطیف کہانیاں اپنی بے نوری پہ روتی ہیں۔ خفتہ سوختہ وبرانگیختہ کہانیاں! میں حسن و عشق کی وہی گرم مگر گم کہانیاں پھر سے ڈھونڈ رہا ہوں مگر کسی بھی ایک کہانی کو مکمل کرنا اس تن آساں کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے مثلاً اس مشکل کو یوں سمجھیے کہ کئی مہینوں سے، سماجی سرسراہٹ اور کاروباری کڑواہٹ سے نکل کر ایک ایسی دوشیزہ کی کہانی لکھنا چاہتا ہوں جو آرٹسٹ ہے مگر گیتوں والے ظالم سنسار کو سماج کہتی ہے۔ ارد گرد کی طوفانی بلکہ پروانی چمک دمک کے باوجود مخمور آرٹ سے وہ پروانوں کی کہکشاں سجانے جلانے کے بجائے سماج کے چولے پر ستارے ٹانکنا چاہتی ہے اور ستارے ٹانکنے کے عمل میں جب ہر چولا پھٹ جاتا ہے تو وہ اک دن خود کو ’ٹانگ‘ دیتی ہے۔

یہ تاثر اور کردار چونکہ مختصر دورانیہ کے ہیں اس لیے انہیں کہانی میں ڈھالنے کے لیے وقت بھی زیادہ نہیں چاہیے مگر المیہ ہے کہ جنہیں کہانی لکھنے کا بخت ملے، انہیں وقت کم ملتا ہے۔ مایا جال وقت یوں کھائے جا رہا ہے کہ آسائشوں کو ضرورت بنا کران کے پیچھے بھگائے جا رہا ہے۔

چند دن قبل، ایک شام جم بیٹھ کر ایسی کہانی کی شیریں شروعات کی ہی تھی کہ خبر گرم ہوئی

’ کوئٹہ ٹریننگ کالج میں نشانہ لے لے کر باسٹھ کیڈٹس کو مار دیا گیا۔ ‘

ساری توجہ اس رومانی کہانی سے ہٹ گئی اور طبع بٹ گئی۔

وجہ بے وجہ کے اس مرصع اسلوب سے آپ کو صاف دکھائی دے گا کہ مسافرمطالعاتی محنت کے بجائے صرف حساس اسلوبیت سے ہی ادیب بننے کا خواہاںہے مگر ان کیڈٹس کی موت نے حساس طبع کواس دوشیزہ سے زیادہ چونکایا سو افسانوی توجہ کا مرکز بدل گیا۔ اس سانحہ کو جاننا، سننا اوراس پر لکھنا شروع کیا تو کئی اور کہانیاں نکل آئیں جن کے تخیل سے تخلیقی جبلت کو سوگوار سی راحت ملنا شروع ہوئی۔ ایک ایک حرف سے سو سوحکایات نے جنم لیا۔ ایک کیڈٹ کی اگلے ماہ شادی تھی۔ ایک اپنا صندوقچہ لے کر بھاگتے ہوئے مارا گیا تو اندر سے محبوبہ کی تصویریں نکلیں۔ ایک اور نے ماں کا آپریشن کرانے کو چھٹی لی تھی اور صبح اسے نکلنا تھا مگر ماں خبر سنتے ہی بنا آپریشن مر گئی۔ مطلب، کافی کہانیاں لکھ دیں جو شوق سے کم، کرب سے زیادہ لکھیں۔ کرب جوکچھ دن بعد ہی مسرتوں کے قرب میں گم ہو گیا۔ یہ سب چھپنے کے بعد ابھی معاشی کے ساتھ ساتھ بلاگ پر پسندیدگی کی انگوٹھا گنتی جاری تھی کہ نیت شوق پھر بیدار ہوئی۔ ذکر اس پری وش کا اپنے بیان میں کرنا چاہا۔ تین دن وقت نہ ملا۔ آخرکار فرصت کے رات دن ملے تو لکھنا شروع کیا۔

”انقلابی جنون میں اپنی ہندی نسوانیت کا قتل کرتے ہوئے وہ دوشیزہ حسن کی روایتی قدروں کو تیاگ کر جانے کیا تلاش رہی تھی۔ “

سراپا ابھی سکیچ میں ہی تھا کہ خبرخواں اداکارہ کی چنگھاڑ نے متوجہ کیا۔

”گڈانی کے ساحل پر ستاسی مزدور زندہ جل گئے۔ بحری جہاز میں تیل تھا اور یہ لاوارث مزدوربنا حفاظتی آلات و ملبوسات کے ہی ویلڈنگ کر رہے تھے کہ اچانک تیل نے آگ پکڑ لی۔ ہستی بے بود کے چار سو سزاوار وں نے یوںرقص شر رکیا کہ کچھ وہیں کوئلہ بن گئے، کچھ شعلہ جوالہ بن کے ساحل کو بھاگے مگر مدد نہ ملنے پر جلتے جلتے جل ہی میںراکھ ہوگئے۔ دوشیزہ کی کہانی گڈانی میں ڈوب گئی۔ “

اس سانحہ کو بھلانے کی بہت کوشش کی۔ جب بھی رومائنٹک سا ہو کے اس جل پری کی دیپک تانیں کاغذ پہ اتارنا چاہیں، جلتے مزدوروں کا شعلہ سا لپک کر چیخ پڑا: آواز تو دیکھو!

اور ان آوازوں کے کرب نے ڈیڑھ درجن اور کہانیاں لکھوا دیں۔ کہیں کسی مزدور کی ست ماہی کالی دلہن اپنی بیوگی پرپیٹ پھلائے کیمرے کے سامنے ایسی چپ ہوئی کہ چینل کی ریٹنگ ہی خراب ہو گئی۔ کہیں کراچی کے سرد خانوں میں بھٹکتی ماں کسی اور کی ’کوئلہ میت‘ گھر لے آئی اور اس بیگانے کو اس نے دانتوں سے پہچانا کہ صرف وہی سلامت تھے۔ کہیں مزدوروں کی سیاہ میتیں کوئلہ اٹھاتی گدھا گاڑی پر ڈگمگاتی دکھائی دیں کہ جنہیں مر کے بھی چین نہ آرہا تھا۔ کہانیوں میں درد اترا توعوامی کھاد نے داد دی مگر ادبی کلی نے تبسم کیا۔ ” ادیب پروپیگنڈہ سیکرٹری نہیں ہوتا، سچے مگر نرم گرم جذبوں کو نہایت ملائمت اور شعریت سے ادا کرتا ہے۔ “ مجھے کیونکہ ’ادیب دانشور‘ بننے کا شوق ہے سو اس تنقید پر نیوز چینل پرانے گانوں کے سہانے چینل سے بدل دیا۔ یہاں سینکڑوں دوشیزائیں ایک آئٹم نمبر کر رہی تھیں۔ پس آئینہ انقلابی سرشت کو سرآئینہ یہ شبابی نشست کہاں برداشت ہونا تھی۔ چھیڑ چھاڑ کی تو دوبارہ سے وہی ڈائری نکال کر تہیہ کیا کہ اب اس رومانی کہانی کو ہر صورت آگے بڑھانا بلکہ ’مکانا‘ ہے۔ آئیڈیل کی تلاش، شادی اور ناکامی کے بیان میں دو چار ہیروز کی آمد و روانگی کے بعد دوشیزہ کی ظاہری سرشاری میں سے چند پراسرار اور بے قرار واقعات کھوجتے ہوئے انہیں کنفیوزڈ سماجیاتی تصوف سے جا ملانا ہے۔

اختتام ہفتہ تھا، وقت میسر تھا۔ کہانی کا دوسرا مکالمہ ہی لکھ پایا تھا کہ خبر ملی :

” شاہ نورانی میں تلخیوں سے مفرور باسٹھ اسیر دھمال ڈالتے اور ڈھول پہ جھومتے جھلاتے موت پہ ہی جھول گئے۔ “ دوشیزہ کہانی کے سب ارتقائی مراحل بھول گئے۔
اب ایسا ہے کہ سخت ڈیپریشن ہے۔ اور یہ دل شکستگی خون معصوماں کی نیلامی سے زیادہ اپنی فنکارانہ ریاضت کی ناکامی پر ہے۔ کیا مجھے دو ہفتوں میں چوتھی باراک دوشیزہ کا لہرانا چھوڑ کے بہتے خون سے لال افسانہ لکھنا چاہیے؟

دل نے کہا ’ ہاں۔ قلم سماج کی امانت ہے۔ ‘

دماغ منکر ہوا کہ روتی کہانیوں سے کیا ہوگا۔ لکھنا ہے تو پُراز حقائق مضامین لکھوجن میں بزدلانہ کارروائیاں کرنے والوں کی مذمت اور قیمتی جانوں کے مزید ضیاع کو روکنے کی کچھ تجاویز ہوں۔ ‘
دل نے ’بزدلانہ کارروائیوں‘ اور ’قیمتی جانوں ‘ جیسے الفاظ پر دلدوز قہقہہ لگایا تو دماغ نے وضاحت دی کہ زندگی پر تضحیکی قہقہے اور قنوطی کہانیاں سنانے کے بجائے ٹھوس تجزیہ کرنا سیکھو جسے خداوندان مکتب سے ’آغازتے‘ ہوئے نظریاتی، حکومتی و حساس اداروں کی ناکامی اورگھر خاندان سے لے کر سماجی اداروں میں مسلکی و طبقاتی تعصب کے کھلم کھلا اظہار تک بڑھا لے جاؤ۔ آخر میں امن کی خواہش کے لیے پروگریسولوگوں کے ممکنہ ملین مارچ کے انعقاد وغیرہ پہ نکتہ وار سفارشات بھی ہوں۔

دل معترض ہوا کہ اس سے اچھی تجاویز دسیوں چینلز، بیسیوں اخبارات اور درجنوں بلاگز پر اصلی دانشور دے رہے ہیں۔ مرنے والوں کا کرب کون سمیٹے گا۔ سمیٹو کہ یہ وقت جب گذر جائے گا اور پلٹ کر دو ہزار سولہ میں جھانکے گا تو تمہاری کہانیاں ادب اور سماج کی دستاویز بن کر گواہی دیں گی کہ یہ سرپھراکسی دوشیزہ کی زلف عدم گیر کے بجائے اجڑے بالوں کی دلگیرصورت سے متاثر ہوا تھا۔ اب ایک دل خراش مگر دلچسپ صورتحال کا سامنا ہے کہ کہانی لکھنے بیٹھو تو اندر جنگ چھڑ جاتی ہے۔ یقین مانیے یوں لگتا ہے ” ادب برائے ادب “ اور”ادب برائے زندگی“ کا چار سو سالہ پرانا اور بچگانہ مقولہ جیسے پوسٹ ماڈرن ازم کے تاج پر پھندنا بن کر ناچ رہا ہے۔

شاعر ہوتا تو آنسوو ؤں سے چند مصرعہ تر ہی اگل دیتا۔ گا سکتا تو ’جانے کب ہوں گے کم ‘ جیسے عوامی گیت میں اس غم کو ڈھال لیتا۔ کسی ٹی وی چینل سے ہوتا تو اس گیت کو المیہ رپورٹ کے پس منظر میں چلا کر یا مونوگرام ہی سیاہ کر کے کتھارسس کرلیتا۔ بانسری ہی بجا سکتا تو اپنے روم کے جلنے پر ہرتان کو درد جیسا کھینچ ڈالتا مگر میں نیرو جیسی مقتدر حیثیت بھی تو نہیں رکھتا۔ صرف کہانیاں لکھ سکتا ہوں اور یہ ظالم سماج ایک کہانی بھی نہیں لکھنے دیتا۔

کیا المیہ ہے کہ میں اسی سماج سے باغی ایک دوشیزہ کی کہانی لکھنا چاہتا ہوں اور اسی سماج کے گرفتار عزادار میری جان نہیں چھوڑ رہے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سماج، زبردستی، مجھے چڑچڑا کالم نگار یا سینئرتجزیہ نگاربنانے پہ کیوں بضد ہے۔

بتائیے۔ اپنی کہانی کو مکمل کرنے کے لیے ایسا کیا کرنا چاہیے کہ بقول راشد

میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لالہ کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے، اس رنگ و روغن سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ہوں روشن!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments