نیت کی چوٹ، سوال کی موت


\"jawad-ahmed-ghamidi\"

سوال تو ہو گا۔ فیض نے کہا تھا، وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا۔ ایک قرض سوال بھی رکھتا ہے۔ جواب کا قرض۔ وہ قرض چکتا نہیں ہوا کیونکہ جواب نہیں دیا۔ سوال کا قرض اتارنے کے لئے جواب تو دینا ہو گا۔ جواب بھلے ایک حرف کی کشتنی ہو۔ یہ لاکھ عذر کی گفتنی سے بچا لے گا۔ چارہ گر کو نوید ہو گی کہ جو لکھا تھا، پڑھ کے مٹا نہیں۔ کہہ دیتے ہیں کہ سوال خود جواب بھی ہوتا ہے۔ سوال اٹھتا ہے تو خیال پیدا ہوتا ہے۔ سوال اٹھنے دیں۔ سوال زندگی کی علامت ہے۔ سوال مگرجواب کے بغیر ادھورا ہوتا ہے۔ اسے ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ سوامی سوال سے چڑ جائے تو ودیارتھی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کہیں پاؤں میں پڑے آبلے بے آبرو تو نہیں ہو گئے۔ ودیارتھی کہہ لیں، شاگرد کہہ لیں یا سوال کہہ لیں ایک ہی بات ہے۔ سوامی کہہ لیں استاد کہہ لیں یا جواب کہہ لیں۔ ایک ہی ہیں۔ سوال غلط ہے تو جواب دے کر بتا دیں۔ ہم سیکھ کر سوال کو سچا بنا لیں گے۔ ہمیں جواب دو کہ ہم رحم مادر سے پڑھے پڑھائے نہیں آئے۔ ہمیں جواب دو کہ ہم زندہ ہیں اور زندہ رہنا چاہتے ہیں۔

ہم نے سیکھا ہے کہ انسانی خیال کامل نہیں ہو سکتا۔ انسان کا ہر نظریہ، ہر سوچ، ہر فکر قابل اصلاح ہوتی ہے۔ اگر کامل ہوتے تو خیال کے بعد خیال جنم نہ لیتا۔ نظریئے کے بعد نظر یہ پیدا نہ ہوتا۔ ہم نے آپ کو استاد مانا ہے، مسیحائی جواب پر منحصر ہے۔ آپ نے اپنے لیے جس عہدہ کا انتخاب کیا ہے وہ ہم دے ہی نہیں سکتے اس کے لیے خدا سے آپ کا سوال ضروری ہے اور سوال تو وہاں بھی آپ کو کرنا پڑے گا، بھلے سوالی بن کر ہی سہی۔ سوال تو خدا بھی کرتا ہے، جگہ جگہ اپنی کتاب میں پوچھتا ہے بتاؤ میں نے تمہیں فلاں اور فلاں نعمت نہیں دی؟ اب اگر سوال وہ کر رہا ہے تو ہم بھی کرتے ہیں، کہ کیا دیا ہے؟ کہاں دیا ہے؟ کیسے دیا ہے؟ دیکھو وہ خدا ہے۔ مگر خود بولتا ہے، یہ دیا ہے، یہاں دیا ہے اور ایسے دیا ہے۔ ہم پیدا ہوتے ہیں، چلتے ہیں، پھر کچھ بولتے ہیں۔ نہیں بولتے نہیں سوال کرتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ ماں جواب دیتی ہے، باپ جواب دیتا ہے۔ دیکھو! ہم سیکھ جاتے ہیں۔

انسان الفاظ و معانی میں جیتے ہیں۔ جواب وہ سانس ہے جو زندگی کی ڈور تھامے رکھتی ہے۔ ہمیں خالق معانی میں ملا ہے۔ جواب میں ملا ہے اور سوال سے ملا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے اپنا سر جھکا کر خود سے پوچھ لیں کہ ہم کیا ہیں؟ جواب ملے گا ہم سراپا سوال ہیں۔ کیا میں ہوں؟ کیا میں نہیں ہوں؟ میں خواب ہوں یا حقیقت ہوں؟ یہ میرے اندر کیا کارخانہ لگا ہے؟ہم نے گھاس پھونس کھایا تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ ایک پانی کے قطرے میں زندگی پیدا ہوئی جو کئی مہینوں ماں کے پیٹ میں بنتا رہا۔ میرا رواں رواں اور پور پور بنتی چلی گئی۔ میرا دل و دماغ تو چیز تھی، بن گئی۔ مگریہ کیا کہ میں روتا ہوا وجود میں آیا اور ماں کے ہاتھوں اور گود نے اماں بخش دی اور میں خاموش ہو گیا۔ یہ فیکٹری تو ہے مگر لگائی کس نے ہے؟ میری آنکھوں کے سامنے یہ عمل ہوا ہے۔ آج ایک بچہ میری گود میں کھیل رہا ہے۔ وہ جیتا جاگتا میرے دل میں اتر گیا ہے۔ میں اب اس ادھورے کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرنے لگا ہوں۔ یہ جادو روز ہزاروں کی تعداد میں ہوتا ہے۔ یہ فیکٹری کیوں لگائی گئی ہے۔ اس ملبے کے ٹکڑوں نے ایسا نظام کیسے وضع کر دیا ہے؟ کیوں وضع کر دیا ہے؟ وہ جن کو یہ نظر نہیں آ رہا سوال ان کو بھی کرنا ہے۔ اور سوال مجھ کو بھی کرنا ہے۔

ہزاروں سال سے میں ایسا ہی ہوں۔ اس ارتقاء نے اپنا ارتقاء روک کیسے دیا ہے؟ارتقا ء رک گیا ہے تو ارتقاء کیسے کہلائے گا۔ جو رک گیا ہے وہ ارتقاء نہیں ہو سکتا۔ میں اور تم جب سے خود کو جانتے ہیں معلوم تاریخ کی گواہی کے ساتھ۔ ہم ایسے ہی ہیں۔ اس ارتقاء نے اب تک میرے کان تین اور منہ دو کیوں نہیں کر دیے۔ مجھے گرمی اور سردی تنگ کرتی ہے۔ میرے اندر موجود ارتقائی عمل نے میرا مسئلہ سن لیا۔ حل کیوں نہیں کیا۔ میں انسان ہوں۔ ناشکرا ہوں ہاتھ اور بھی چاہتا ہوں۔ دماغ بھی دو ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ میرے اندر، میرا ارتقائی عمل مجھے سن کر خاموش کیوں ہے؟ اس کو اب تک اس کو حل کرنا تھا۔ تم نے کہا تھا میں جو ہوں ایسانہیں تھا۔ تو پھر میں جواب مانگتاہوں ی کہ یہ تبدیل کیوں نہیں ہوتا۔ مجھے احساس تنگ کرتا ہے۔ میں اس احساس سے جان چھڑانا چاہتا ہوں۔ مجھے محبت ستاتی ہے۔ میں محبت نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے لمس پریشان کرتا ہے۔ لمس کی کئی قسمیں مجھے احساس دلاتی ہیں۔ یہ لمس بتا دو۔ میں اس لمس کو، محبت کو، احساس کو بس بازار سے خرید کر استعمال کروں اور پھینک دوں۔ میرا وجود میرا ہے۔ یہ کبھی میرا نہیں رہتا۔ یہ بھی صرف احساس ہے۔ خدارا اس سے جان چھڑوا دو۔

پانی تم نے نہیں بنایا۔ پتھر بھی نہیں بنا پائے۔ نہ تم وہ گلاس بنا پائے جو میرے اندر زندگی اتار دیتا ہے۔ تیزی سے فلک سے اترتا پانی مجھے راحت دیتا ہے۔ اور ذرا اور تیزی سے اترتا چلتا پانی میرے کھیت، کھلیان، میرا گھر بار اجاڑ جاتا ہے۔ تم اس پانی کی جگہ مجھے کوئی اورفرحت بخش چیز مہیا کر دو۔ یہی پانی بے ضرر لگتا ہے اور یہی پانی کی نازک بوند پتھر کے سینے کو چیر دیتی اور نہ چیر پائے تو اس کے وجود کے مُساموں کو یوں گِھس دیتی ہے کہ دیکھو پتھر بھی زندگی والا محسوس ہونے لگتا ہے۔ جیسے اس کی نوک پلک درست کر کے کچھ اور حسین بنا دیا گیا ہے۔ اس کے تیکھے کونوں کا غرور پانی کی بوند کیسے خود اپنے اندر ہی جذب کر لیتا ہے۔ تم سمندر کے جانداروں کے لیے شیشے کا گھر بناتے ہو۔ مگر تمہیں پھر اسی سمندر سے پانی منگوانا پڑتا ہے کہ تم اس شیشے کے گھر میں بھی سمندر کا پانی بنانے میں ناکام ہو۔ تمہیں پانی پر چلتے بڑے بڑے شہر محورقص نظر آتے ہیں مگر تمہارے گلاس میں موجود پانی کی بڑھی ہوئی مقدار اس شہر کو اٹھاتی، چلاتی، پھینکتی، سنبھالتی تمہیں نظر نہیں آتی۔ تمہیں ہوا کے دوش پر رفتار کا انمول نمونہ مصنوعی پرندہ، اپنے اندر سینکڑوں نفوس اٹھتا نظر آتا ہے مگر وہ ہوا کہ جو تمہارا سانس بھی بن جاتی ہے وہ نظر کیوں نہیں آتی اور اس کی تخلیق کار۔

تمہارا جسم احساس ہے مگر یہ احساس کہیں بیدار ہو جاتا ہے اور کہیں بس جسم۔ تم میں یہ احساس تمہیں احساس کیوں نہیں دلاتا۔ تمہیں ابھی بتانا ہے کہ تمہاری ایجاد کیا ہے۔ جو کچھ تم نے کیا ہے اسے تم بہت کچھ کہو تو دریافت کہہ سکو گے۔ تم نے ایٹم بم ایجاد کیا ہے؟ نہیں! یورینیم بناتے تو ایجاد مان لیتے۔ تم نے کٹے ہاتھ کی جگہ ہاتھ لگا لیا، ایجاد ہے؟ نہیں! ہاتھ تو چھوڑو وہ لکڑی ہی بنا لیتے جس سے ہاتھ بنایا تو مان لیتے۔ تم مریخ پر پہنچ گئے۔ مریخ بنا دو۔ چلو کوئی چھوٹا سیارہ، ستارہ ہو بنا لیتے تو خالق مان لیتے۔ تم کہتے ہو دل چیر کے سی لیتے ہو۔ میں کہتا ہوں ایک جیتا جاگتا، دھڑکتا، سوچتا، سمجھتا، پریشان ہوتا، گھٹتا، بڑھتا پرزہ بنا کر دکھاؤ تو مانوں بھی۔

میں سوال کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ مجھے سوال تم سے بھی کرنا ہے اور ان سے بھی۔ وہ مجھے بتائیں کہ دنیا کا معلوم علم دو ہی صورتیں رکھتا ہے۔ ایک وہ جو کہتا ہے یہ دنیا خود اپنا خالق ہوئی اور دوسرا وہ جو کہتا ہے اس دنیا کا ایک خالق ہے۔ تمہیں مجھے بتانا ہے کہ درست کون ہے۔ مگر دھونس سے نہیں، دلیل سے۔ اور انہیں بھی مجھے بتانا ہے کہ اپنے ہاتھ میں پکڑے قلم اور کمرے میں پڑے میز کو دیکھتے ہی پوچھنے والے کہ یہ کس نے بنائی ہے؟ کسی ساز کی مدھر آواز میں کھو کر پوچھنے والے کہ یہ تار کس نے ہلائے ہیں؟ آنکھوں پر رکھی مصنوعی آنکھ دیکھ کر خالق کی تلاش کرنے والے تجھے اپنے اندر چلتی مشین دیکھ کر اپنے اس رویے پر سوال کیوں نہیں سوجھتے؟

مجھے پانی کے ایک قطرے سے پیدا ہونا ہے اور مر جانا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر مجھے یہ فکر کیوں لاحق ہے! میں ٹھنڈی آہوں اور سسکیوں کے درمیان کیوں جیوں۔ مجھے تمہارے حق اور اپنے حق کے لیے کیوں لڑنا ہے۔ میں اگر کوئی جزا اور سزا اپنی منزل پر نہیں رکھتا تو پھر یہ زندگی بھی کیا ہے؟ میرا وجود اور یہ چہار سو پھیلا سبزہ اور منظر گواہی دیتا ہے کہ اس دنیا میں رعنائیاں پیدا کر دینے والا کوئی تو ہے۔ یہ گواہی دیتا ہے کہ اس سعی لاحاصل کا کوئی حاصل ہونا چاہیے۔ میرا احساس گواہی دیتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ میرا گمان مجھے جینے کا سلیقہ باہم پہنچاتا ہے۔ تم نے سوال کیا کہ اگر کسی دنیا کو لافانی ہو جانا ہے تو اس دنیا میں کیا رعنائی؟ مگر میرا ضمیر چیخ رہا ہے کہ جس نے یہ دنیا ایسی تخلیق کر دی کہ میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا۔ میں روتا ہوں، بلبلاتا ہوں، کمزور پڑتا ہوں، تکلیف اٹھاتا ہوں، میں مر جاؤں گا، اس مرنے کو ایک اٹل حقیقت مانتا ہوں مگر پھر بھی مرنا نہیں چاہتا۔ میں کس دنیا کے سحر میں مبتلا ہوں اور اس کی جدائی سے ڈرتا ہوں۔ تو سوچنے کی بات ہے کہ اگر کوئی تخلیق کار ہے تو اس نے پھر وہ دنیا کیا بنا دی ہو گی جہاں وہ خود کہتا ہے کہ موت حرام ہو گی۔ میں باد صبا میں اڑتا ہوں اور تخیل ہی میرا آشیانہ ہے۔ مجھے اپنے آشیانے میں پڑا رہنے دو اور بس جواب دیتے رہو۔ دیکھنا میں ایک روز اڑنے لگوں گا۔ میں تو بپھری ہوئی موج ہوں۔ میرے اندر ایک تلاطم برپا ہے۔ مجھے ساحل کے سینے سے ٹکرا کر فنا نہیں ہونا، مجھے واپس سمندر سے آملنا ہے۔ میری یہ خواہشات اور الفاظ اپنے اندر زندگی رکھتی ہیں تو اگر یہ کہیں راکھ، گارے یا پتھروں کے باہم ملنے یا کسی ارتقائی عمل سے وجود میں آئی ہیں تو پھر یہ زندگی پتھروں کو دے دو اور مجھے امان۔ اس لیے کہ تو نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ سوال کروں گا، مگر اپنے مطلب کا اور جواب بھی چاہیے اپنے مطلب کا۔ اور تجھے جواب دینے والے نے بھی جواب یہ دیا ہے کہ سوال نہ کربس مانتا چلا جا۔

مانتا تو میں چلا آ یا تھا۔ مگر ماننا آسان نہیں رہا۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں جان گیا ہوں مگر مجھے یہ بھی نہیں لگتا کہ میں بالکل نہیں جانا۔ تو اس کے بیچ ایک جائے پناہ ہے جومیرے لیے سکون ہے مگر مجھے وہاں کچھ دیر سستا لینے دو کہ میں ذرا دم بھر لوں پھر چلوں گا۔ وہ جگہ ہے سوال۔ استاد جی آپ نے تو اگلا کمال کر دیا۔ سوال کا جواب دیا کہ تمہاری نیت ٹھیک نہیں۔ ہم نے کہا تھا نا نیت سوال کرنے والے سے زیادہ جواب نہ دینے والے کی خراب ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اگر جواب ہے تو استاد کا کام ہے جواب دے اور اگر نہیں ہے تو پھر ہٹ دھرمی اس کا شیوہ نہیں۔ پھر اس کو بھی سوال کرنے ہیں اور اس کو بھی جواب کی تلاش میں سرگرداں رہنا ہے۔ سوچ کو نہ جانچیں یہ آپ کا کام نہیں۔ نیت کو نہ تولیں یہ آپ کا شیوہ نہیں اور ہاں یاد رکھیں خرابیِ خیال کی چوٹ، سوال کی موت ہے اور سوال کی موت میری موت ہے۔ سب کی موت ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments