مووی ریویو۔۔۔ لاہور سے آگے


\"jawwad-khalil\" مانا کہ زرقا، یہ امن، آئینہ قصہ پارینہ ہوئے، یہ بھی تسلیم ہے کہ معاشرتی مجبوریوں کی وجہ سے ہماری فلموں کے رقص اور موسیقی کا معیار ہندوستانی فلموں کے ہم پلہ نہیں ہو سکتا، یہ بھی مان لیا کہ ہندوستانی اور ہالی وڈ فلموں کا بجٹ بہت زیادہ ہوتا ہے اور ہمارے محدود بجٹ میں اس کا مقابلہ بہت مشکل ہے لیکن کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ انہی کم وسائل، محدود بجٹ میں اس بندہ بے مثل شعیب منصور نے خدا کے لئے اور بول جیسی ناقابل فراموش فلمیں تخلیق کیں؟ ابھی حال ہی میں تفریحی میوزیکل فلم ”ایکٹر ان لا“ نے بھرپور کامیابی سمیٹی ہے جس کا راز اس کے بھرپور پلاٹ میں مضمر تھا۔ ہندوستانی فلموں پر ویسے ہی پابندی عائد ہے۔ ان حالات میں پانچ سو روپے خرچ کر کے ایک شخص سنیما جائے اور اسے ”لاہور سے آگے“ جیسی غیر معیاری فلم دیکھنے کو ملے تو پھر سنیما اونرز کا یہ واویلا سمجھ میں آتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں سنیما بند ہو جائیں گے۔

فلمساز و ہدایت کار وجاہت رﺅف کی یہ دوسری فلم ہے۔ پہلے بھی وہ ”کراچی سے لاہور“ جیسی کمترین معیار کی حامل فلم بنا چکے ہیں جس میں ذو معنی فقروں اور آئیٹم گانوں کے ذریعے جنسی جذبات کو انگیخت کرنے کی تکنیک کا سہارا لیا گیا تھا۔ یہ تکنیک اتنے ہولناک اور بھونڈے طریقے سے اپنائی گئی تھی کہ جاوید چوہدری جیسا روشن خیال شخص بھی اس پر حیران رہ گیا اور پورا ایک کالم اس فلم پر انہوں نے لکھا تھا۔ ہدایت کار نے شاید اس تنقید کو اپنی کامیابی سمجھا تھا کہ اس فلم میں اسی ذو \"15128754_10154735251571306_2027228071_n-png\"معنی پھکڑ بازی کا معیار تو وہی ہے البتہ اس کی مقدار تین گنا بڑھا دی گئی ہے۔ لایعنی، غیر منسلک اور محیر العقول سچیویشنوں کو اس بے دردی سے ناظرین کے دماغ پر انڈیلا گیا ہے کہ کوئی باذوق ناظر شاید ہی اس فلم کو پورا دیکھ سکے۔ ایک ہکلاتے ہوئے بے ہودہ لباس میں ملبوس ”ہیرو“ کے ذریعے یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ یہ ہیرو مزاحیہ ہو گیا ہے۔ انتہائی غیر شائستہ ذو معنی (میرا بڑا سولڈ ہے، تو دے بھی تو میں نہیں لینے والا ٹائپ) فقروں کے ذریعے اس ”کامیڈی“ کو دو آتشہ کیا گیا ہے۔ چار پانچ مختلف کہانیوں کے ملغوبے کے ذریعے پلاٹ ترتیب دیا گیا ہے جن کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ پلاٹ کے مطابق صبا قمر(جس نے نہ جانے کیا سوچ کر اس فلم میں کام کیا ہے) ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی گلوکارہ ہے جو گائیکی میں اپنا نام بنانے کی کوششوں میں چھوٹے موٹے کنسرٹوں میں گاتی ہے۔ اس کا بوائے فرینڈ ایک ارب پتی ہے جو اس کا گانا ناپسند کرتا ہے لیکن اس کی ضد کے آگے مجبور ہے۔ یکدم کہیں سے ہکلاتا ہوا ایک احمق ہیرو برآمد ہوتا ہے جس کے پیچھے پختون لہجے میں ایک غلط انگریزی بولتا اور مدراسی لہجے میں ایک ہندی بولتا پیشہ ور قاتل لگے ہوئے ہیں۔ ہیرو ایک انتہائی احمق طریقے سے لاہور \"15135552_10154735251581306_931377558_n\"پہنچادیا جاتا ہے جیاں وہ مزید حماقتوں کے ایک لامتناہی سلسلے کا آغاز عطا کرتا ہے۔ لاہور کا سین بانسوں کا ایک سیٹ لگا کر شوٹ کیا جاتا ہے جس میں ”لاہور“ دکھانے کے لئے کراچی کے لہجے میں پنجابی ملی اردو بولتے کچھ لونڈے دکھائے جاتے ہیں۔ ہیروئن اور ہیرو ایک محیر العقول واقعے کے ذریعے آپس میں جڑتے ہیں۔ ہیروئین حالانکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے لیکن اس کی ایک زرد رنگ کی سن ساٹھ کی گاڑی کا ظہور بھی اسی طرح کی فلم میں ممکن ہے۔ ہیرو اسلام آباد کی ایسی بس میں سوار ہوتا ہے جہاں ایک غیر ملکی کے ساتھ اس کی چہلیں دیکھ کر سر کے بال نوچنے کو دل کرتا ہے۔ ہیروئین اس بس کو گوجرانوالہ کے پاس روکتی ہے اور ہیرو بس چھوڑ کر اس کا ہم رکاب ہو جاتا ہے۔ بس کا بورڈ ”جھنگ، ڈیرہ اسماعیل خان“ کی نشاندہی کر رہا ہوتا ہے۔ اس گاڑی کی منزل سوات ہے جس کے راستے میں رات پڑنے پر حیرت انگیز طور پر گاڑی میں سے دو سلیپنگ بیگ اور ایک خیمہ برآمد ہو جاتے ہیں۔ رات ابھی لکڑیوں کا الاؤ جلا کر رومینٹک ہونے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے کہ ہیروئین کو کہیں سے ڈرم بجانے کی آواز آتی ہے، اس آواز کے تعاقب میں وہ دونوں جب اس تک پہنچتے ہیں تو یہ صرف اس فلم میں ہو سکتا ہے کہ وہاں ایک ”آدم خور “ پارٹی ہو رہی ہو جہاں انہیں گانا، ناچنا پڑے۔ سوات کے راستے میں ایک کوٹھا، وہاں ہیروئین کا ایک اغوا کی گئی سرائیکی بولتی لڑکی کو فرار کرانے کی خاطر ناچنا گانا اور پھر واپس گاڑی میں موجود ہونا بھی اس ”تھرلر“ کا خاصا ہیں۔ سوات پہنچ کر ہیرو کا ماموں ”مغل محل“ کا \"15087060_10154735244486306_1898786170_n\"مالک ہوتا ہے اور سوات میں ساری زندگی رہنے کے باوجود صاف دہلوی اردو بول رہا ہوتا ہے جس کی بیوی نے اپنے بھانجے (ہیرو) کو مارنے کے لیے اجرتی قاتل پیچھے لگائے ہوئے تھے۔ وہ اس خوف میں مبتلا تھی کہ اس کا علیل شوہر مرنے سے پہلے اپنی جائیداد اس کے نام نہ لگا جائے۔ اس کے بعد فلم ایسے ”ٹوسٹ اور ٹرن“ لیتی ہے کہ میں مزید تفصیل لکھنے کی تاب نہیں لا سکتا۔ یہ میں آپ کے گوش گزار کر سکتا ہوں کہ اس فلم کے ماڈرن مولا جٹ سینے پر گولی کھانے کے باوجود زندہ رہتے ہیں اور ٹانگ میں گولیاں لگنے کے بعد بھلے چنگے چلتے ہیں۔

فلم میں ان تمام بارہ مسالوں کو ڈالنے کی انتہائی بھونڈی کوشش کی گئی ہے جو کوئی بھی ایکسٹرا فلم کی پری پروڈکشن کے وقت آپ کو مشورے کے ذریعے نواز سکتا ہے۔ کجرارے کی گھٹیا نقل، فحش جملوں کو ناظرین کی واحد خواہش سمجھنا، ایسی سچوایشنوں کو سامنے لانا جن کی رواں سٹوری کے ساتھ کسی قسم کی کوئی مطابقت \"15134515_10154735251561306_2108482184_n\"نہیں، حتیٰ کہ اپنے بارہ سالہ بیٹے زیزو کو بھی ڈائریکٹر ایک گانا گوانا اور احمق ہیرو کو محبت کرنے کے مشوروں سے نوازنا نہیں بھولا۔ فلم کی واحد قابل ذکر شے اس کا اچھا کیمرہ ورک ہے۔ موسیقی کے نام پر ڈم ڈم میوزک کا ایک چنگھاڑتا ہوا شور ہے۔ یہ فلم کوئی بہن بھائی کے ساتھ، ماں بیٹے کے ساتھ، باپ بیٹی کے ساتھ تو نہہیں دیکھ سکتا کہ ہر دوسرے جملے میں کوئی فحش پھکڑ بازی ہے۔ اس کے علاوہ ذرا سا بھی فلم بینی کا ذوق رکھنے والا ناظر بھی اپنے پیسوں کے ضیاع پر کف افسوس ملتا ہی باہر آئے گا، سولہ سے انیس سال کے کم تعلیم یافتہ ٹین ایجر ہی اس کی ٹارگٹ آڈئینس ہیں لیکن اگر کہیں یہ خوفناک خیال کہ یہ ٹین ایجر اس فلم کو کامیاب نہ کر دیں تو جان لیجئیے کہ سینیما اونرز کا خدشہ بالکل بجا ہے۔ سنسر بورڈ کی چئیرمین سے بھی ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ پاکستانی فلموں کو پروموٹ کریں لیکن گھٹیا، فحش، پھکڑ بازی کی قیمت پر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments