کیا پاک ترک سکول بند کرنا ایک درست فیصلہ ہے؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

ہمارے سامنے بیٹھے ترک نے ہمیں دیکھا، اور کہنے لگا ’ہم اس لئے پاکستانیوں کی اتنی زیادہ عزت کرتے ہیں کہ ہمارے سکول کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ساری دنیا ہمارے خلاف جنگ لڑ رہی تھی اور ترکی نام کے ملک کو روئے زمین سے مٹانا چاہتی تھی، ایک طرف سے برطانوی، فرانسیسی، یونانی، اطالوی اور آرمینی فوجیں ہمارے ملک کے حصے بخرے کرنے پر تلی ہوئی تھیں اور دوسری طرف ہمارے عرب صوبے ہمارے خلاف بغاوت کر کے ہمارے فوجیوں کو مار رہے تھے، تو صرف یہ برصغیر کے مسلمان تھے جو ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ زیور سے زیادہ ایک عورت کو کچھ عزیز نہیں ہوتا ہے، اور ہمیں سکول میں پڑھایا گیا ہے کہ برصغیر کی عورتوں نے اپنے زیور ہمیں دے دیے تھے تاکہ ہم انہیں بیچ کر ترکی کی جنگ آزادی لڑ سکیں‘۔ ہمیں معاملہ سمجھ آ گیا۔ ہمیں چین اور ترکی اس لئے اچھے لگتے ہیں کہ ہمیں بچپن سے پڑھایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے دوست ہیں اور بھارت سے ہمیں اسی لئے ایک نفرت سی بھی محسوس ہوتی ہے۔

ترکی کے ساتھ بھی ہمارے ویسے ہی تعلقات تھے جیسے چین کے ساتھ تھے۔ دونوں ملکوں کے متعلق ہمیں یہ تو پتہ تھا کہ یہ ہمارے عظیم دوست ہیں، مگر نہ کبھی کسی عام پاکستانی نے ایک چینی دیکھا تھا اور نہ ہی ترک۔ پھر 1995 میں لاہور میں پہلا پاک ترک سکول کھلا اور اس میں پڑھانے کے لئے ترک استاد اپنے خاندانوں سمیت پاکستان منتقل ہوئے۔ آج لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، کراچی، حیدر آباد، خیر پور، جام شورو اور کوئٹہ میں 28 پاک ترک سکولوں میں گیارہ ہزار بچے پڑھتے ہیں اور 108 ترک اساتذہ اپنے 400 سے زیادہ اہل خانہ کے ساتھ یہاں مقیم ہیں۔

\"pak-turk-school\"

یہ افراد ترک مذہبی عالم فتح اللہ گولن کی تعلیمات سے متاثر ہیں۔ فتح اللہ گولن کی مذہبی تحریک کوئی باقاعدہ تنظیم نہیں ہے، یہ ایک فکر کا نام ہے جسے دوسروں نے ہی حزمت (خدمت) تحریک کا نام دیا ہے۔ اس کی کوئی باقاعدہ ممبر شپ نہیں ہوتی ہے۔ ان کی تعلیمات کا زور اس بات پر ہے کہ انسانیت کی خدمت کی جائے اور بچوں کو جدید سائنسی تعلیم، مذہبی اقدار کے ساتھ دی جائے تاکہ وہ معاشرے میں بطور تاجر، استاد، مصنف، صحافی اور سرکاری افسر ایک فعال کردار ادا کر سکیں۔ اس تحریک سے منسلک افراد کے مطابق تقریباً پندرہ فیصد ترک ان کی تعلیمات سے متاثر ہیں۔ حزمت کی تحریک سیاست سے دور رہنے کی قائل ہے اور اس لحاظ سے اس کو کافی حد تک سنہ چالیس سے ساٹھ کی دہائی کی غیر سیاسی والی جماعت اسلامی جیسا سمجھا جا سکتا ہے جو کہ یہ مانتی تھی کہ معاشرے کو درست کرنا ہے تو افراد کی تربیت کی جائے۔

\"turkish-family-child\"

اپنی اسی تعلیم کے زیر اثر یہ ترک افراد بھی پاکستان آئے تھے۔ ان کے اہل خانہ پاکستان میں دہشت گردی کی خبریں پڑھتے تھے اور ان کو روکتے تھے کہ تم وہاں مت جاؤ، مارے جاؤ گے، مگر ان کا کہنا تھا کہ نہیں، پاکستان ہمارا وطن ہے، اور وہاں اعلی تعلیم اور صاف کردار کے حامل افراد تیار کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ ان کا نعرہ ہے کہ پاکستان اور ترکی دو ملک اور ایک قوم ہیں۔

انہیں اساتذہ کے ذریعے پاک ترک کاروباری تعلقات میں اضافہ ہوا۔ پھر یہی افراد تھے جو اکتوبر 2005 کے زلزلے اور حالیہ برسوں کے سیلابوں میں بھی دنیا بھر سے امداد اکٹھی کر کے پاکستان پہنچاتے رہے۔ ہر برس عید قربان پر یہ دنیا بھر کے ترک افراد سے چندہ لیتے اور پاکستان میں دو ہزار سے بھی زیادہ گائیں ذبح کر کے غریب افراد میں بانٹتے تھے۔ خاص طور پر زیادہ غربت والے مظفر گڑھ اور اندرون سندھ کے علاقوں میں زیادہ قربانیاں کی جاتیں۔ ایک ترک استاد نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے سات سال سے لاہور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید قربان نہیں کی ہے کیونکہ وہ مظفر گڑھ جاتے ہیں تاکہ وہاں اجتماعی قربانی اور تقسیم کر سکیں۔ ہم نہایت متاثر ہوئے اور ایک دوسرے ترک استاد سے اس کا ذکر کیا کہ اس بندے کا بہت حوصلہ ہے۔ انہوں نے نہایت انکساری سے بتایا کہ وہ پندرہ برس سے اسی مقصد کی خاطر اپنے گھر والوں سے دور عید کرتے آ رہے ہیں۔

\"turkey-parliament5\"

ترک صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم رجب طیب ایردوان جب بھی پاکستان آتے تو پاک ترک سکول کے اساتذہ اور بچوں کے ساتھ ان کی خاص نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ ہم خود 2012 میں پاک ترک سکول کے اساتذہ کے ہمراہ ترک پارلیمنٹ میں صدر ایردوان کی اے کے پارٹی کے مہمان بن کر ترک اسمبلی کے پاک ترک دوستی گروپ کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں شریک ہو چکے ہیں۔ لیکن پھر حالات بدل گئے۔

حالیہ برسوں میں رجب طیب ایردوان صاحب کے چند وزیروں کی کرپشن کا سکینڈل عام ہوا تو فتح اللہ گولن نے ان کے خلاف شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اختلافات گہرے ہوتے گئے حتی کہ ترکی میں حالیہ فوجی بغاوت کا الزام بھی فتح اللہ گولن پر لگایا گیا اور حزمت تحریک کے خلاف ایک مہیب کریک ڈاؤن شروع ہوا۔

\"gulen\"

ہمارے سیکولر کمالسٹ ترک دوست، اور اب حزمت کے سابقہ اتحادی یعنی اے کے پارٹی سے تعلق رکھنے والے دوست بھی یہ کہتے ہیں کہ حزمت تحریک ایک خطرناک تحریک ہے۔ کمالسٹوں کا موقف ہے کہ یہ خلافت واپس لانا چاہتے ہیں۔ اے کے پارٹی والے کہتے ہیں کہ یہ بچوں کو ان کے والدین سے چھین لیتے ہیں اور وہ والدین کا کہنا مان کر ترکی میں رکنے کی بجائے تحریک کے مشن پر دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں جو کہ پاکستان اور افغانستان جیسے جنگ زدہ بھی ہو سکتے ہیں۔ دونوں کا ایک مشترکہ موقف ہے کہ حزمت تحریک ایک باطنی حکومت کا نام ہے جو پس پردہ رہ کر کام کرتی ہے۔

ہم برائے بحث یہ مان لیتے ہیں کہ حزمت کے مخالفین سو فیصد درست کہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں مقیم یہ ترک کسی بھی طرح ترکی میں ہونے والی کسی بغاوت میں شامل ہو سکتے ہیں؟ کیا ان افراد کے خلاف کوئی ثبوت ہمیں دیا گیا ہے؟ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ جب پانچ، دس یا بیس برس بعد اے کے پارٹی کی حکومت نہیں رہے گی، تو کیا یہ پاکستانی عوام کے مفاد میں ہو گا کہ ترک بچے یہ پڑھیں کہ 2016 میں پاکستان نے پانچ سو ترک افراد کو تین دن کے نوٹس پر ملک سے نکال دیا تھا، جن میں مرد، خواتین اور شیر خوار بچے بھی شامل تھے؟

پاک ترک سکول ایک ایسی فاؤنڈیشن کو دیے جانے کی اطلاعات ہیں جس کا نام جناب رجب طیب ایردوان نے دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسی فاؤنڈیشن کو ترکی میں بھی سکول دیے گئے تھے۔ ہماری اطلاع کے مطابق پہلے پہل اساتذہ کی تنخواہیں بڑھا کر اور طلبا کی فیس کم کر کے حالات میں بہتری کا تاثر دیا جاتا ہے، اور بعد ازاں سکول کے شدید مالی بحران کا شکار ہونے پر اسے دیوالیہ قرار دے کر بند کر دیا جاتا ہے۔

\"nawaz-erdogan\"

حزمت دنیا کے 34 سے زیادہ ملکوں میں سکول چلا رہی ہے۔ کسی دوسرے ملک نے یہ سکول بند نہیں کیے ہیں۔ ان میں آذربائیجان جیسے ترک نسل کے ملک بھی ہیں جنہوں نے یہ سکول بند کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان کو بھی کسی حکمران کی بجائے ترک عوام میں اپنے ملک کے تاثر کا خیال رکھنا چاہیے۔ کل حزمت اور اے کے پی دوست تھے، آج دشمن ہیں، اور کل یہ دوبارہ دوست ہو سکتے ہیں کہ دونوں نے ترکی میں ہی رہنا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو ختم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ جب یہ دونوں دوبارہ دوست بن جائیں گے تو ہم پاکستانی کہاں کھڑے ہوں گے؟

جماعت اسلامی جیسی جو جماعتیں آج حزمت تحریک کی جن بنیادوں پر مخالفت کر کے اس پر پابندی کا مطالبہ کر رہی ہیں، ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ مصر میں جنرل السیسی نے انہیں بنیادوں پر صدر مرسی کو ہٹا کر اخوان المسلمین پر پابندی لگائی تھی، اور یہ ریت زور پکڑ گئی تو جماعت اسلامی بھی اسی انداز میں انہیں الزامات کے تحت پابندی کی زد میں آ سکتی ہے۔

پہلی جنگ عظیم کو سو برس گزر چکے ہیں۔ ترک آج بھی بتاتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں نے سو سال پہلے ان کی مدد کی تھی اور عربوں نے ان سے غداری کی تھی۔ نواز شریف صاحب سے یہی گزارش ہے کہ اپنے ذاتی تعلقات کی خاطر اگلے سو برسوں کی ترک نسلوں کو پاکستان کے متعلق ایک منفی سبق پڑھنے کا موقع مت دیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments