جنگ جُو کرد عورتوں کا گیت
ہم قطار در قطار
پہاڑوں اور جنگلوں سے گزرتی ہیں
اور ہوا کی طرح
مشکل راستوں پر چلتی ہیں
ہمارے قدموں کی دھمک سے
موت رقص کرنے لگتی ہے
اور ہماری بندوقوں کا رخ
دشمن کی طرف ہو جاتا ہے
ہم رات کی طرح
دشمن علاقوں میں پھیل جاتی ہیں
اور ہماری صبح مورچوں میں طلوع ہوتی ہے
ہماری آنکھیں تتلیوں کی مانند
لمبی گھاس اور خاردار جھاڑیوں میں بلا دقت گھومتی
اور آسمان پر پرندوں سے تیز اُڑتی ہیں
درخت ہمیں جھک کر مِلتے ہیں
اور سرسراہٹوں میں ہمارے دل دھڑکتے ہیں
ہم روحِ جدل ہیں،
نیند میں بھی چوکس رہتی ہیں
ہم بادلوں کے ڈھیر میں کیمو فلاژ
خاموش وادیوں کی بھیدوں بھری گونج ہیں
نادیدہ بارشوں کی سرگوشیاں ہیں
راز و نیاز کی باتیں ہیں
ہمیں سن کر
ہمارے بہادر اور محبوب مَردوں کے دل
محبت سے لبریز ہو جاتے ہیں
اور محاذِ جنگ کی طرف بڑھتے ہوئے
ان کے قدم تیز ہو جاتے ہیں
مائیں ہمیں الوداع کرتے ہوئے
روتی نہیں،
دعاؤں اور بوسوں کے پھول نذر کرتی ہیں
جنگاہ میں
روٹیاں پکاتے ہوئے
ہمارے ہاتھ گولیوں کی طرح چلتے ہیں
ہم صدائے کوہ ہیں
دشمن ہماری آواز سے ڈرتا ہے
ہمارے نرغے میں آنے سے گھبراتا ہے
مٹی ہماری زیبائش
اور جھیلوں اور ندیوں کا پانی ہمارا آئینہ ہے
لڑائی پر جانے سے پہلے
ہم ایک دوسری کے بال بناتی،
گلے لگتی ہیں
موت ہمارے حُسن پر رشک کرتی ہے
اور ہم شہید ہو کر زیادہ خوبصورت ہو جاتی ہیں!!
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).