میری بڑی آپا


\"woman-teacher\"

ابا دس جماعتیں پڑھے ہوئے تھے اور گھر سے کچھ دور ایک فیکٹری میں کلرک تھے۔ ان کو ساری زندگی ایک حسرت ہی رہی کہ ان کے بچے خوب پڑھ لکھ جائیں اور غربت کے پھیر سے نکلیں۔ اس معاملے میں وہ لڑکے لڑکیوں میں تمیز کے قائل نہیں تھے۔ خاندان بھر کی مخالفت مول لے کر انہوں نے بڑی آپا اور چھوٹی آپا کو پڑھایا۔ اماں چٹی ان پڑھ تھیں اور بچیوں کو سکول بھیجنے کی مخالف تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ لڑکی نے گھر گھرداری ہی کرنی ہوتی ہے، بس کھانا پرونا سیکھ جائے اور اتنی پڑھائی کر لے کہ کچھ حساب کتاب کر لے، تو اس سے زیادہ پڑھانا مناسب نہیں ہے۔

ابا نے ہم تینوں لڑکوں کی پڑھائی پر جتنی توجہ دی، اتنی ہی لڑکیوں پر بھی دی۔ خاص طور پر جب بڑی آپا میٹرک کرنے کے بعد کالج داخل ہوئیں تو اس دن گھر میں اماں نے ابا سے خوب لڑائی کی مگر ابا نے یہی کہا کہ میرے لئے سب اولاد برابر ہے، میں غریب ہوں، اولاد کو روپیہ پیسہ تو ورثے میں نہیں دے سکتا ہوں، مگر اپنے بچوں کو علم کی دولت تو ایک غریب بھی دے سکتا ہے تو وہ میں ضرور دوں گا۔ کسی برے بھلے وقت میں پڑھائی آدمی کے کام ہی آ جاتی ہے۔

بڑی آپا کی عمر مجھ سے دس سال زیادہ ہے، ان کے بعد چھوٹی آپا ہیں جو ان سے دو برس چھوٹی ہیں، پھر بڑے بھیا ہیں، چھوٹے بھیا اور سب سے چھوٹا میں خود۔ بڑی آپا پڑھائی میں خوب چست تھیں اور شام کو ہم سب بہن بھائیوں کو بٹھا کر پڑھاتی تھیں۔ ابا دفتر کا کچھ کام گھر لے آتے تھے تو اس کو مکمل کرنے میں بھی وہ ان کی مدد کرتی تھیں۔ ان کا چھریرا جسم تھا، نہ بہت دبلا اور نہ ہی فربہی کی طرف مائل۔ قد پانچ فٹ سے کچھ نکلتا ہوا، گھنے سیاہ بال اور پرکشش گندمی رنگت۔ وہ سب چھوٹے بہن بھائیوں سے بہت پیار سے پیش آتی تھیں اور ابا کی تو لاڈلی تھیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بڑی آپا کا بی اے کا ریزلٹ آئے ہوئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا جب شام کو ابا تھکے تھکے سے انداز میں گھر میں داخل ہوئے۔ سائیکل بھی وہ ٹھیک طرح سے کھڑی نہ کر پائے اور بے ساختہ اسے ہاتھ سے چھوڑ کر نزدیک پڑی چارپائی پر ڈھیر ہو گئے۔ سائیکل گرنے کا شور سن کر اماں باورچی خانے سے نکل کر دوڑی دوڑی ان کی طرف گئیں تو ان کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا کہ پانی۔ اماں نے چیخ کر بڑی آپا کو آواز دی اور خود پانی لانے کو دوڑیں۔ جب تک وہ پانی کا گلاس لے کر پلٹیں، ابا کو پانی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔

ہماری تو دنیا ہی اندھیر ہو گئی۔ تین مرلے کا دو کمروں کا مکان تو ابا بنا گئے تھے مگر سر پر اس کا قرض ابھی باقی تھا۔ فیکٹری سے پینشن ملتی نہیں تھی اور ہمارا کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔ ہمیں تو ایک وقت کے کھانے کے بھی لالے پڑ گئے۔ برے وقت میں تو اپنے بھی بیگانے ہو جاتے ہیں، رشتہ دار بھی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ کر الگ ہو گئے۔ اماں کہنے لگیں کہ تینوں لڑکوں کو پڑھائی سے اٹھا کر مارکیٹ میں کسی کام ہنر کو سیکھنے پر لگا دیتی ہوں مگر بڑی آپا ڈٹ گئیں۔ کہنے لگیں کہ ابا نے مجھے بیٹا سمجھ کر ہی پڑھایا ہے اور میں بیٹا بن کر ہی گھر سنبھالوں گی۔ ابا کی خواہش تھی کہ سب بچے پڑھ لکھ جائیں اور کچھ بن جائیں اور یہ خواہش پوری ہو کر رہے گی۔ اماں نے بہت مخالفت کی کہ ہمارے گھر میں کبھی کسی لڑکی نے ملازمت نہیں کی، تم کرو گی تو ذات برادری میں ناک کٹ جائے گی مگر بڑی آپا اپنی ضد پر قائم رہیں۔ اماں نے لاکھ دلیلیں دیں مگر بھوک سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے۔ بڑی آپا جیت گئیں اور اماں کو ہار ماننی پڑی۔

بڑی آپا کو اسی فیکٹری میں ابا کی جگہ پر ملازمت مل گئی۔ ہماری پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس وقت میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ بڑی آپا نے ملازمت کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور بی ایڈ کرنے کے بعد ان کو سرکاری سکول میں جاب مل گئی تو ہمارے دن کچھ پھرے اور ابا کی وفات کے بعد پہلی مرتبہ ہم نے عید پر نئے کپڑے پہنے۔ چھوٹی آپا بھی بی ایڈ کر کے ٹیچر لگ گئیں تو ہمارے گھر میں کچھ اور خوشحالی آئی۔ بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا میٹرک کرنے کے بعد سے ہی محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگے تھے۔ اب بڑے بھیا بی اے کرنے کے بعد سول سروس کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر چکے ہیں۔ چھوٹے بھیا بی اے کے پہلے سال میں ہیں اور میں میٹرک کا امتحان دے رہا ہوں۔

بڑی آپا کو سرکاری کوارٹر مل چکا ہے اور ہم اپنا ذاتی مکان اب کرائے پر دے چکے ہیں۔ اب گھر میں کافی خوشحالی ہے اور وہ رشتے دار بھی ہم سے دوبارہ ملنے جلنے لگے ہیں جو برے وقت میں ہمیں چھوڑ گئے تھے۔ ہمارے مشکل وقت میں بڑی آپا کے رشتے آتے رہے تھے مگر وہ یہ کہہ کر ہمیشہ انکار کر دیتی تھیں کہ اگر میں نے شادی کر لی تو گھر کون چلائے گا۔ اب ہم بھائی کسی قابل ہو رہے ہیں تو اماں کا ارادہ ہے کہ اسی سال بڑی آپا کی شادی کر دیں گی۔ بڑی آپا اپنے سکول میں بھی اپنی خوش مزاجی اور دوسروں کی خوشی غمی میں ساتھ دینے کی وجہ سے بہت مقبول ہیں اور ان کی ایک ساتھی ٹیچر کے بھائی کا رشتہ ان کے لئے آیا ہے۔ بڑی آپا تو ابھی بھی شادی سے انکار کرنا چاہتی تھیں مگر اماں کہتی ہیں کہ ابھی تو چھبیس سال کی ہو، شادی کی عمر نکل گئی تو پھر کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔

اماں اس وقت کو دعائیں دیتی ہیں جب ابا نے ان کی شدید مخالفت کے باوجود اپنی تمام اولاد کو پڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہم سب بہن بھائی ہر دم بڑی آپا کو دعائیں دیتے ہیں جن کے دم سے ہم مفلوک الحال محنت کش بننے کی بجائے ایک خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

سید بیاض پریانوی
Latest posts by سید بیاض پریانوی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments