ایک عورت پانچ عاشق – ہندی لوک کہانی


دروازہ کھولا تو وہاں پر ترکھان تھا۔ اس نے جھک کر عورت کو سلام کیا۔ عورت نے قدرے ناراضگی سے کہا ”تم نے الماری ٹھیک نہیں بنائی۔“

” اس میں کیا خرابی ہے؟“ ترکھان نے معذرت کے انداز میں پوچھا۔

”اس کا پانچواں خانہ چھوٹا ہے تم خودگھس کر دیکھو۔“ وہ اس کے معائنے کے لئے اندر داخل ہوا تو عورت نے اس خانے کو بھی مقفل کر دیا۔

وہ خط لے کر سیدھی جیل گئی پیغام دیا اور اپنے عاشق کو رہا کرا کر لے آئی۔ اس عورت نے اپنے عاشق کو ساری کہانی سنائی۔ وہ بولا ”اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“

وہ بولی ”اس واقعے کے بعد ہم اس شہر میں نہیں ٹھہر سکتے۔“ چنانچہ اپنا سامان اونٹوں پر لاد کر وہ دوسرے شہر روانہ ہو گئے۔

وہ پانچ مرد جو اس الماری کے پانچ خانوں میں مقید تھے۔ ایک عجیب عذاب سے گزر رہے تھے۔ نہ کھانے کو کچھ اور نہ پینے کو ہی کچھ میسر تھا۔ پیشاب کو روکنے کا کرب اس پر مستزاد۔ آخر ترکھان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس کا پیشاب خطا ہو گیا اس کے بعد سلسلہ جاری ہو گیا۔ ترکھان نے بادشاہ کے سر پر، بادشاہ نے وزیر کے، وزیر نے والی کے، والی نے قاضی کے سر پر پیشاب کر دیا۔ قاضی چیخ اٹھا ”اس بے غیرتی اور بے حیائی کی حد ہو گئی۔ کیا یہ قید ہی کافی نہیں تھی جو پیشاب سے بھی ذلیل کرنا تھا؟“ والی نے اس کی آواز پہچانتے ہوئے کہا ”خدا تمہارا اجر زیادہ کرے گا۔“

اس کے بعد والی نے شکایت کی تو وزیر بولا ”اللہ تمہیں اس صبر کی جزا دے گا۔“
جب وزیر نے واویلا مچانا شروع کیا تو بادشاہ نے اس کی آواز پہچان لی لیکن اپنی عزت کا خیال رکھتے ہوئے خاموش رہا۔

اچانک وزیر بولا ”خدا اس عورت پر لعنت بھیجے اس نے بادشاہ کے علاوہ شہر کے سب افسران بالا کو اس مصیبت میں ڈالا ہے۔“
یہ سننا تھا کہ بادشاہ بولا ”فکر نہ کرو میں سب سے پہلے اس قطامہ کے جال میں پھنسا ہوں۔“

یہ سنتے ہی ترکھان بولا ”میں نے تو اس کے لئے یہ الماری بنائی تھی اور میں ہی اس میں مقید ہوں۔“ اس کے بعد وہ سب ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے۔

جب ہمسایوں نے اس گھر کو ویران دیکھا تو جمع ہو گئے۔ ایک بولا ”یہاں ایک عورت رہا کرتی تھی۔ نجانے اسے کیا ہوا۔ ہمیں دروازہ توڑ کر اندر جانا چاہیے اس سے پیشتر کے قاضی یا بادشاہ ہمیں لاپرواہی کے الزام میں دھر لیں۔“

چنانچہ وہ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے ایک بہت بڑی لکڑی کی الماری دیکھی اور انسانوں کی بھوک سے کراہنے کی آواز سنی۔ ان میں سے ایک بولا ”کیا اس الماری میں بھوت پریت ہیں؟“ دوسرے نے کہا ”ہمیں اس الماری کو جلا دینا چاہیے“ قاضی نے یہ سنا تو چیخا ”ایسا ہرگز نہ کرنا۔“

ایک نے کہا ”میں نہ کہتا تھا اس میں جن ہیں جو انسانوں کی زبان میں باتیں کرتے ہیں“ یہ سننا تھا کہ قاضی نے پہلے تلاوت قرآن کریم کی اور اس کے بعد ہمسایوں کو الماری کے قریب آنے کی دعوت دی۔ جب وہ قریب آئے تو وہ بولا ”میں قاضی شہر ہوں یہ میرا نام ہے اور اس الماری میں بہت سے آدمی بند ہیں۔“ اس نے سب کا تعارف کرایا۔

” لیکن تم لوگ اس طرح بند کیسے ہوئے؟“ ایک نے پوچھا۔

چنانچہ اس نے سب کو کہانی تفصیلاً سنائی۔ یہ سننا تھا کہ ہمسائے ایک ترکھان کو بلا کر لائے جس نے اس الماری کو کھولا قاضی، والی، وزیر، بادشاہ اور ترکھان کو رہا کیا۔ جب سب نے ایک دوسرے کو عجیب و غریب رنگین کپڑوں میں دیکھا تو اپنے آپ پر ہنسنے لگے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments