نون بمقابلہ جنون؟


حسیب داؤد خان

\"haseeb\" پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن اگر جمہوریت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمیشہ سیاست کے ایوانوں میں ایک بھونچال رہا ہے۔ کبھی یہ بھونچال سیاستدانوں کی آپسی چپقلش کی وجہ سے رہا اور کبھی آمریت نے آکر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی۔ اگر اندازہ لگایا جائے تو 1947 سے لے کر اب تک فوجی حکمرانوں کو حکمرانی کے لیے مستقل اور لمبے ادوار ملے ہیں، جن میں ایوب، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کا دور تاریخ کے اہم ابواب میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان میں جمہوری طور پر صرف پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی سربراہی میں حکومت کی معینہ مدت پوری کی اور اقتدار جمہوری طریقے سے نواز شریف کو منتقل ہوا۔ یہ ایک بہت خوش آئند عمل تھا کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اقتدار ایک باقاعدہ جمہوری طریقے سے ایک سیاسی جماعت سے دوسری سیاسی جماعت کو منتقل ہوا۔ اقتدار تو جمہوری طریقے سے منتقل ہو گیا، لیکن ملک تاحال سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس کی وجہ حکمران جماعت کی کچھ غلط پالیسیاں بھی رہی ہیں اور کچھ ایسے شر پسند عناصر کی ریشہ دوانیوں کا بھی کافی ہاتھ رہا ہے جو ملک کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔
لیکن اب میڈیا نے عوام کو کافی حد تک باشعور بنا دیا ہے اور لوگوں کو بھی اپنے ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہو گیا ہے، اس لیے عوام اب اسی کو منتخب کرے گے جو عوام کو کچھ دے گا۔ لہٰذا ہر جماعت دوسری جماعت کو نیچا دکھانے کے لئے الزام تراشی کا سہارا لیتی ہے جو کہ پاکستانی سیاست میں ایک عام چلن ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت مخالف جماعتیں حکومت کے خلاف آئے دن کوئی نہ کوئی الزام لے کر میدان میں اتری ہوتی ہیں۔ اور حکومت کے اچھے کاموں کو اپنے بے بنیاد الزامات کے ملبے تلے دبانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
نوازشریف صاحب کے دور کا اگر ان کے باقی ادوار سے موازنہ کیا جائے تو اس بار نواز شریف ایک منجھے ہوئے سیاستدان کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ لگتا ہے کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے کافی سبق سیکھ لیا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت سے موازنہ کیا جائے تو یہاں بھی نواز شریف کے نمبر زیادہ ہیں۔ ان کے دور میں دہشت گردی کے واقعات بھی کم ہوئے جو کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی ہوئی اور ملکی معیشت میں بھی کافی بہتری آئی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا جس سے پاکستان نہ صرف یہ کہ معاشی طور پر مستحکم ہو گا بلکہ ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گا۔ لیکن اس سب کے باوجود ان کے مخالفین آئے دن کسی نہ کسی نئے الزام کے ساتھ ان کے استقبال میں کھڑے رہتے ہیں۔ سب سے پہلے ان پر پنکچر لگوانے کا الزام لگایا کہ2013 کے الیکشن میں دھاندلی کر کے اقتدار میں آئے ہیں اور نواز شریف ایک دھاندلی زدہ وزیراعظم ہیں۔ اس الزام کے ساتھ دارلحکومت کو یرغمال بنا لیا جاتا ہے اور امپائر کو آوازیں دی جاتی رہیں۔ لیکن قسمت نواز شریف پر مہربان ہوتی ہے اور وہ اتنے بڑے سیاسی بھنور سے نکل جاتے ہیں کیونکہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں 2013 کے الیکشن کو منظم دھاندلی سے پاک قرار دے دیا جاتا ہے اور کپتان جو ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف ہیں ان کو منہ کی کھانا پڑتی ہے۔

لیکن خان صاحب تو خان صاحب ہیں میں نہ مانوں کا راگ الاپتے ہوئے نئے جذبہ کے ساتھ پانامہ لیکس کو لے کر میدان میں کودتے ہیں۔

اب کی بار عمران خان صاحب نواز شریف پر کرپشن کا الزام لگا کر استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہیں اور نواز شریف کو کرپٹ، چور اور ڈاکو جیسے القابات سے نوازتے ہیں اور کئی مواقع پر تو وہ نواز شریف کو بھارتی ایجنٹ بھی قرار دے چکے ہیں کہ نواز شریف مودی کے یار ہیں اور اس وقت کشمیر میں جو حالات ہیں اس سب کے ذمہ دار بھی نواز شریف ہیں۔ کیونکہ نواز شریف پانامہ سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں اسی وجہ سے ایل او سی پر بھی فائرنگ ہو رہی ہے۔ بھارت نواز شریف کی مدد کر رہا ہے اور نواز شریف بھی ان کے ساتھ مل کر اپنی فوج کو بدنام کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ نواز شریف کو غدار ثابت کرنا چاہتے تھے لیکن جناب کی سوچ پر ماتم کا جی چاہتا ہے کہ جسے وہ غدار ثابت کرنے پر بضد ہیں اسی انسان نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔ گو کہ ایٹمی پروگرام کی شروعات بھٹو صاحب نے ہی کر دی تھی مگر جب انڈیا نے دھماکے کئے تو عالمی قوتوں کے دباؤ کے باوجود جواب میں دھماکے کرنے کی ہمت صرف نواز شریف کے پاس ہی تھی۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو اربوں ڈالر لے کر چپ کر کے بیٹھ جاتے لیکن انہوں نے پیشکش ٹھکرا دی اور سب چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنایا۔ اور یوں پاکستان دنیا کا پہلا اسلامی نیوکلیئر ملک بن گیا۔

صرف یہی نہیں نواز شریف کی ملک کے لئے اور بہت سی خدمات ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جن میں سے ایک موٹر وے کا عظیم تحفہ بھی ہے۔ تنقید کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے اس ملک کا انفراسڑکچر مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ اب بھی پورے پاکستان میں نئے ہسپتالوں اور موٹرویز کے منصوبوں کا آغاز کر رہے ہیں۔ سی پیک کا منصوبہ جو پاکستان کو معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک کے برابر لا کھڑا کرے گا، اس کا آغاز بھی نواز شریف صاحب کے دور میں ہی ہوا۔ مگر اس منصوبے کو بھی ایک مخصوص گروہ کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سوچنے کا امر یہ ہے کہ افتتاح کرنے والا غدار ہے یا تنقید کرنے والا؟ کشمیر کے مسئلے پر پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے والا بھارتی مددگار ثابت ہوا یا جس نے اقوام متحدہ میں جا کر بھارتی جارحیت کا پول کھولا وہ؟ حال ہی میں ترک صدر کے پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے خطاب پر بائیکاٹ عالمی سطح پر کیا پیغام دیتا ہے ؟

پیپلز پارٹی کے موقف میں مجھے کافی وزن نظر آیا کہ عمران خان سولو فلائٹ لیتے ہیں۔ اگر عمران خان کے ساتھ کوئی ایک بھی بڑی جماعت کھڑی ہوتی تو عمران خان کے موقف میں وزن نظر آتا مگر ماضی کی طرح آج بھی عمران خان اور ان کی پارٹی تن تنہا کھڑی ہے اور ایک عجیب موقف کے ساتھ کہ وزیراعظم کرپٹ ہیں اس لئے ان کی موجودگی میں وہ بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ عمران خان کی سیاسی بصیرت کا سب سے بڑا فقدان ہی یہی ہے کہ عمران خان الزام بھی خود لگاتے ہیں اور فیصلہ بھی خود ہی سناتے ہیں۔ اب جب کہ کیس عدالت عالیہ میں ہے تو عمران خان کو بھی نتیجہ کا انتظار کر لینا چاہئے۔ نواز شریف پر ابھی صرف کرپشن کے الزامات ہیں، جو ابھی ثابت بھی نہیں ہوئے۔ اور الزامات کا کیا ہے کسی پر بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب پر بھی کیس اسی عدالت عالیہ میں لگا ہے۔ یعنی صورتحال یہ ہے کہ ایک ملزم دوسرے ملزم کو کو لعن طعن کر رہا ہے۔

افسوس کہ عمران خان نواز دشمنی میں اس حد تک اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اصل میں وہ اپنا ہی نقصان کر بیٹھے ہیں۔ کیونکہ ساڑھے تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور عمران خان کی سیاسی کارکردگی کے خزانے میں دھرنے، الزامات اور یوٹرن کے علاوہ اور کچھ بھی اضافہ نہیں ہوا۔ اور میری ناقص رائے کے مطابق اگلے انتخابات میں شاید عمران خان وہ مقام بھی نہ حاصل کر سکیں جو انہوں نے 2013 کے انتخابات میں حاصل کیا۔ کیونکہ نواز شریف نے اپنا پروفائل بہت مضبوط کر لیا ہے اور لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور بھی کر دیا ہے کہ چاہے جو بھی ہے نواز شریف کے دور میں پاکستان ایک بار پھر ترقی کی طرف گامزن ہے اور ملکی ترقی اور بھلائی کے کام ن لیگ کے دور حکومت میں ہی ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو اگر سیاست کی دنیا میں باقی رہنا ہے تو ان کے لیے ابھی بھی ایک موقع ہے اور یہ کہ جس صوبے کی حکومت ان کے حصے میں آئی ہے اس پر توجہ دیں اور جس تبدیلی کا نعرہ وہ دن رات قوم کو سناتے رہتے ہیں اس کو خیبر پختوانخوا میں لا کر دکھائیں تاکہ آنے والے انتخابات میں عوامی تائید حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس پیش کرنے کے لئے کوئی ماڈل تو ہو۔ اب عوام صرف باتوں اور نعروں سے قائل نہیں ہوں گے بلکہ کچھ کر کے دکھانا پڑے گا اور یہ ان کے لئے سنہری موقع ہے کہ اگر وہ خیبر پختوانخوا میں وہ تبدیلی لے آتے ہیں جو نظر آئے تو عمران خان بھی شیروانی پہننے کا شرف حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن معاملہ کچھ الٹا نظر آ رہا ہے تبدیلی آ تو رہی ہے لیکن عمران خان کے رویے اور بیانات میں جس سے تحریک انصاف کا ووٹ بینک کافی متاثر ہو رہا ہے۔ رہی سہی کسر ان کے وزیر اعلیٰ نے پختون کا نعرہ لگا کر پوری کر دی اور قوم پرستی کا تاثر دے دیا۔ ان میں اور الطاف حسین میں کم ہی فرق نظر آیا۔ اب عمران خان کو کون سمجھائے کیونکہ وہ کپتان ہیں اور کپتان اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments