کنجوس ابا میاں اور ان کی کنجوس تر اولاد: جھوٹی کہانی


پھر سب ہسپتال میں جمع آج دولت مند شبانہ باجی بھی تھیں۔
شبانہ۔ ارے بھائی جان ابا کو اس قدر مہنگے ترین ہسپتال میں داخل کیوں کرا دیا، یہاں تو روز کے پچاس، ساٹھ ہزار لگیں گے کم از کم۔ اب کون دے گا کرایہ یہاں کا؟
پیسے کی بات سنتے ہی سب نے ہائے ہائے کر کے رونا دھونا شروع کر دیا۔ یا اللہ ابا اگر جلدی نہ مرے تو ہمارا تو باجہ بج جائے گا۔

بڑی بھابھی۔ ارے بھائی سب پیسے چندہ کرو، اور شبانہ تم تو پیسوں کا رونا روتی اچھی بھی نہیں لگتی۔ بڑی باجی آپ کے میاں بھی اچھا کماتے ہیں آپ ہی کچھ کریں اپنے بھائیوں کا حال تو معلوم ہی ہے نا؟

چھوٹی بیٹی۔ میرے میاں نے تو پہلے ہی کہہ دیا ہے اگر ابا پہ زیادہ پیار آ رہا ہے تو یہ لو اپنا حق مہر، یہ آپ ہی رکھ لیں ابا کے لیے۔ میرے پاس تو اور کچھ نہیں۔

بڑی بہن۔ سنو بھائی پہلے دن کے پیسے تمہارے بھولے میاں ہم سے پہلے ہی لے چکے اور ساتھ یہ بھی کہا کے کسی سی ادھار کا بتانا نہیں اب تم یوں ابا کے نام پہ پیسے بٹورنے پہ لگی ہو تو سن لو۔ کل صبح جب میں آ رہی تھی میرے میاں نے کہا تھا کہ ہو نہ ہو تمہارے سر ہی آنے والا ہے۔ تمہارے بہن بھائیوں کی شادی کی طرح۔ تو بھائی میری طرف سے تو منہ دھو رکھو۔

تیسرا دن۔
آج تیسرا دن تھا سب بچوں کو یاسین شریف دی گئی کے ابا کی آسانی کے لیے پڑھو۔

انتظار گاہ میں سب چپ بیٹھے تھے کے آج بھی آبا مرے نہیں، اب پیسے کون دے گا؟ دو بہنوں نے تو پیسے دے دیے دو کے حالات ایسے کے رکشہ تک کرنے کی اوقات نہیں وہ پہلے ہی بیچاری تھیں اس لیے لے دے کہ شبانہ باجی کو مل کے سارے بھائی دیکھ رہے تھے۔

وہ بھی اپنے ابا کی سگی تھیں۔ بھائیوں کو ایسے وش میں لیا کے سب ہی اپنے اپنے پیسے لے آئے ابا کے ہسپتال کے لیے۔
شبانہ باجی۔ دیکھو بھائیو تم لوگ ابھی پیسے جمع کرا دو میں کوئٹہ جاتے کی اپنے ادارے سے ہی پیسے نکلوانے کی کوشش کرتی ہوں۔
یوں سمجھ لو کچھ اوپر ہی مل جائیں گے، تھوڑی بہت چوں چاں درمیان والے دونوں بھائیوں نے کی، لیکن پیسے والی آپا کے آگے تو بڑی بھابھی کی بھی بولتی بند۔

ساتویں بھائی شبانہ باجی کے کندھوں پر سوار، اپنے اپنے طرف سے پیسے لے آئے۔ چلو بھائی کسی طرح سے ہسپتال کے خرچ کا ٹنٹا تو ٹل ہی گیا۔ لیکن آبا تھے کے وینٹیلیٹر پہ بھی چلے ہی جا رہے تھے۔

ہر شام سب ہی بہن بھائی ہسپتال آ جاتے، نوبیاہتا بھابھی ہر روز ایک نیا لان کا سوٹ پہن کے پوری تیاری سے آتی، ان کی دیکھا دیکھی سب ہی فیش شو میں لگ گئے۔
”بیچاری باجی“ بھی شام میں آ جایا کرتیں اپنی ساس کے ظلم کی کہانی سنا کے روتی لیکن ابا کے بارے میں محض اتنا ہی سا استفسار کرتیں کے ڈاکٹر کیا کہتا ہے؟ کب تک رکھیں گے؟
دوسری بیچاری باجی دو دن کے وقفے سے آئیں آج وہ اپنے شوہر کے بھتیجے کے ساتھ تھیں۔

بھتیجا۔ ممی ممی تم نے دیکھا نانا میاں کے تو ریڑھ کی ہڈی سے انجیکشن لگا کے خون نکال رہے ہیں۔ ارے ممی یہ تو مر چکے ہیں، یہ مہنگے ہسپتال والے بل کے لیے مردے کو بھی بجلی لگا کے چالو کر دیتے ہیں۔ میں کے ریا ہوں ان کی مشین بند کراؤ جان چھڑاؤ آپ لوگ۔

بیچاری باجی نمبر دو۔ ہائے ہائے کیسی باتیں کر رہے ہو تم؟
بھتیجا۔ ممی اب تمہارا خاندان تو ٹھہرا ممی ڈیڈی ٹائپ ان کو سمجھانا بھی مشکل ہے، تم ہی ٹرائے مار لو سمجھانے کی۔

بیچاری باجی جب آئی سی یو سے باہر آئیں تو بہن، بھائیوں کو حلقہ میں درمیان میں کھڑے ہو کر اپنے شوہر کے بھتیجے کی آگہی بھری باتیں سب کو سنائیں، سب ہی سر ہلانے لگے ہاں ہاں، بیچاری باجی بالکل صحیح بول رہی ہیں، آج بڑی بیچاری کے میاں بھی آئے ہوئے تھے۔ مہندی سے رنگی لال داڑھی، جیب میں مسواک، ہرا گمچھا پہنے وہ بھی بیچ میں کودے کے بھائی آپ لوگ مشین نکلوانے کا کام کرو یہ سب میٹر چلاتے رہیں گے۔ یہ لڑکا کوئی بہت ہی اعلیٰ عقل اور سمجھ رکھتا ہے۔ آپ لوگ مان لو۔ آج چھٹا دن ہے۔

سارے بھائی سر جوڑ کے بیٹھ گئے، ساتھ دونوں بیچاریاں بھی ہو لیں، شبانہ تو یوں بھی بھائیوں کی پارٹی تھیں۔ ایک کونے میں بڑی اور چھوٹی بہن بیٹھی رہیں، وہ اپنے جاہل بہنوئی کے ناخواندہ بھتیجے کی باتوں کو ماننے کے خلاف تھیں۔

لیکن ان کی بات نہ کوئی سن رہا تھا نہ ہی کسی کو کوئی پرواہ تھی۔
اسی لمحے فیصلہ ہو گیا۔
صبح وینٹیلیٹر نکل جائے گا۔ اگر کسی کو زیادہ تکلیف ہے تو خرچہ اٹھا لے۔ وہ دونوں بھی خاموش ہی ہو گئیں۔

اگلی صبح بھائیوں اور شبانہ باجی نے بھاری ناشتہ کیا لسی کے بڑے گلاس پی کے دو گاڑیوں میں بھر کے سب ہسپتال آئے، اس وقت وہاں بڑی باجی کی چھوٹی بیٹی خاموشی سے سرہانے کھڑی رو رہی تھی۔ اس سے ڈاکٹر نے کہہ دیا تھا اب امید نہیں ہے۔ جب وہ باہر آئی تو سب کو کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سب نے بڑے بھائی کو صدر بنا کر کہا جلدی جائیں اور سائن کر آئیں کے ہم ذمہ داری لیتے ہیں اب یہ وینٹیلیٹر نکال دیا جائے۔

وینٹیلیٹر نکال دیا گیا، سب واپس گھر گئے اے سی چلا کے سو گئے۔ شام کے چھ بجے ابا کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں تو نواسی نے فون کیا آ جائیں نانا اب جا رہے ہیں۔
سب ہی بال نوچنے سر پیٹتے بلک بلک کے روتے ہوئے آ گئے۔
لاش کو سرد خانے میں جمع کروایا دیا گیا۔

اگلی صبح سب صحیح سے نئے جوڑوں میں تیار، خواتین نے ہلکا پھلکا میک اپ اور سونے کی چھوٹی موٹی جیولری پہنی۔ جوں ہی جنازہ آیا پھر سب تڑپ تڑپ کے رونے لگے، سارے بیٹے آنسوں بہا، بہا کر رو رہے تھے۔ ساتھ ہی ابا کے کھڑے جنتی ہونے کی بشارت بھی دے رہے تھے۔ راتوں کو جاگ کے کیسے خدمت کی حالت کیسے کیسے نازک ہوئی سب کو رو رو کے سنایا جا رہا تھا۔

جنازہ پڑھ کے تین تو قبرستان بھی نہیں گئے کے بہت گرمی ہے، ایک داماد نے بچوں کو آنے نہ دیا کے کرونا کی وبا سے مرے ہیں کہیں لگ ہی نہ جائے۔ لال داڑھی والے داماد نے جنازے پہ کھڑے ہو کر بیان کے دوران بتایا کے کوئی وبا نہیں ہے، سب امریکہ کی سازش ہے۔ ہمارے سسر صاحب گرمی لگنے سے مرے ہیں۔

وبا کی وجہ سے بہت کم لوگ شریک ہوئے، صرف سگے بہن بھائی، اور ان کے بچے۔ تیسرے روز شبانہ باجی اپنے ساتھ ساری رسیدیں لے کر کوئٹہ روانہ ہو گئیں۔
بھائیوں نے پیسے کے واسطے روز ہی فون اور میسج کیے لیکن ابھی تک وہ یہ ہی کہی رہی ہیں، آج کل سب بند ہے کچھ ہو ہی نہیں رہا دعا کرو دفتر کھل جائے تو ہمارے پیسے نکلیں۔

کل جب لاک ڈاؤن ختم ہوا تو بڑے بھائی صاحب دفتر گئے، اپنے طریقے سے پتا کروایا تو معلوم ہوا بل ملے پچیس دن ہو چکے ہیں اور ابا کے انتقال کو آج ایک مہینہ۔

دفتر سے گھر باقاعدہ روتے ہوئے آئے، لیکن ڈر کے مارے بیوی کو کچھ نہیں بتایا اپنے سارے بھائیوں اور بیچاری بہنوں کو گھر بلایا کے ابا میاں یاد آ رہے ہیں سب آ جاؤ۔ جب سب جمع ہو گئے تو یہ دکھ بھری خبر نشر کی۔

آج سب دل سے رو رہے تھے تڑپ تڑپ کے سینہ کوبی ہو رہی تھی۔
بڑی بہو چلا رہی تھیں، لگ گیا چونا۔ اور جاؤ مہنگے ہسپتال۔
کم بختوں، پاگلوں غرق ہو جا۔
جب سب چلے گئے تو بڑے بھائی بیگم کے ہاتھوں خوب پٹے، سنا ہے رات چھت پر چھپے تو ہی جان چھوٹی۔
(نوٹ: تمام کردار فرضی ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments