ایک صرف بات کر کے بھی بد چلن دوسرا ریپ کر کے بھی پاکیزہ؟


سب اٹھ اٹھ کر کمروں میں جانے لگے۔ باسط اٹھنے لگا تو بسمہ سہارا دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا، باسط نے سختی سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور لڑکھڑاتا ہوا سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ بسمہ خاموشی سے ہونٹ کاٹنے لگی۔ اس نے بیچارگی سے اپنی طرف دیکھتی رافیعہ بھابھی کو دیکھا۔ انہوں نے رکنے کا اشارہ کیا اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔

چند منٹوں کے بعد ہی وہ واپس آئیں تو ہاتھ میں دواؤں والا ڈبہ تھا۔
”بسمہ تم ایک پیالے میں پانی لے آؤ میں اوپر جا رہی ہوں۔“

بسمہ اتنی تیزی سے پیالے میں پانی لے کر پلٹی کہ رافیعہ بھابھی پوری سیڑھیاں بھی نہیں چڑھ پائیں تھیں کہ وہ بھی پیچھے پہنچ گئی۔ وہ دونوں تقریباً ساتھ ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوئیں۔

باسط سیدھا سیدھا لیٹا ہوا تھا اور ایک بازو آنکھوں پہ رکھا ہوا تھا۔
”باسط! باسط اٹھو شاباش دوا لگواؤ۔“
رافیعہ بھابھی نے باسط کو آواز دی۔ باسط نے بازو ہٹایا بسمہ پہ نظر پڑتے ہی دوبارہ رکھ لیا۔
”بھابھی اس کو کہیں میرے سامنے سے دفع ہو جائے۔ مجھے اس کی شکل بھی نہیں دیکھنی“

”حد ہوتی ہے بچپنے کی باسط۔ اس کو صفائی کا موقع دیے بغیر ہی اس پہ ناراض ہو رہے ہو۔ خود تم نے کیا کیا اس پہ کچھ دھیان ہے کہ نہیں۔“ ساتھ ہی رافیعہ بھابھی نے اسے بازو پکڑ کر بٹھا دیا۔ اور تھوڑا ڈیٹول روئی پہ لگا کر زخم صاف کرنے لگیں۔

”بھابھی آپ عورتوں کو بس اپنا آپ ہی مظلوم نظر آتا ہے۔ سسسس۔ ۔ ۔ آہستہ کریں درد ہورہا ہے۔“ اس نے ایک دم چہرہ پیچھے کیا۔ کچھ سیکنڈ کو رکا جیسے درد پہ قابو پانے کی کوشش کر رہا ہو۔

”جو کچھ ہوا اس میں نازیہ بھی شامل تھی بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اسی کی غلطی زیادہ ہے۔ اس کے کپڑے دیکھتی تھیں ناں آپ، چھوٹا سا رومال سر پہ منڈھ لینے سے پردہ نہیں ہوجاتا۔ اب ایسے کپڑوں میں جوان عورت سامنے ہو تو مرد بہک ہی جاتا ہے۔“

”یہ تاویلیں تم ہمیں دے سکتے ہو عدالت میں نہیں۔ اب دو پیناڈول کھاؤ اور سو جاؤ۔ بسمہ خیال کرنے والی لڑکی ہے اب اپنی زندگی بہتر بنانے کی طرف توجہ دو تھوڑی۔ جو بگڑ گیا اسے ٹھیک نہیں کیا جاسکتا مگر آگے کی زندگی ٹھیک کی جا سکتی ہے۔“

”بھابھی آپ کو پتا ہے میں تو داغ والا سیب نہیں کھاتا ایسی عورت کو بیوی بنا کے کیسے رکھ سکتا ہوں جس کے دوسرے مردوں سے تعلق رہے ہوں بلکہ شاید اب بھی ہوں۔“
”واہ باسط صاحب آپ کے معیار اچھے ہیں، آپ پہ زنا بالجبر کا الزام ہو تو بھی آپ پاکیزہ اور میرے لیے ایک میسج بھی آ جائے تو میں داغ دار۔“

”بسمہ تھوڑی دیر چپ رہو۔“ رافیعہ بھابھی نے اسے ٹوکا۔
”دیکھو باسط ابھی تم پہ جو کیس ہے وہ مسئلہ زیادہ اہم ہے، اس پہ توجہ دو۔ یہ میسج والا مسئلہ بعد میں بھی نپٹایا جاسکتا ہے۔“

”آپ کے لیے ہوگا چھوٹا مسئلہ میرے لیے نہیں ہے مجھے گھن آ رہی ہے یہ سوچ سوچ کر کہ میں اتنی دن ایسی عورت کے ساتھ سویا ہوں جس کے کسی سے تعلقات رہ چکے ہیں۔“

”مجھے زیادہ گھن نہیں آنی چاہیے؟ میں نے آپ کو غیر عورتوں کو گھورتے ہوئے دیکھا ان پہ فحش کمنٹس کرتے سنا اپنی آنکھوں سے آپ کی اور نازیہ بھابھی کی بے تکلفی دیکھی اور آپ تو اب الزام بھی مان رہے ہیں۔“ بسمہ چپ نہیں رہ پائی۔

”دیکھیں ذرا، آپ مجھے سمجھا رہی ہیں اس کی زبان نہیں دیکھ رہیں۔ شوہر ہوں اس کا، عزت کا محافظ ہو اس کی۔ میری جان کی فکر کرنے کی بجائے مجھے طعنے دے رہی ہے۔“
وہ ایک دم کھڑا ہو گیا۔ آگے بڑھ کے بسمہ کے بال پکڑ لیے۔

”تو اگر یہ سمجھ رہی ہے ناں کہ تیرا کوئی یار ہے اور اس کی شہ پہ تو مجھے دبا لی گی تو بھول ہے تیری۔ زندہ گاڑ دوں گا یہیں گھر کے صحن میں کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ بسمہ بیگم گئیں کہاں۔“

اتنی زور سے بال پکڑنے پہ بسمہ کی چیخ نکل گئی۔

”باسط بالکل ہی ہوش کھو بیٹھے ہو کیا۔ چھوڑو اسے۔ اور تم بھی خاموش رہو۔ شوہر کی حالت دیکھو مرہم پٹی کرو اس کی۔ اس مسئلے سے جان چھوٹے پھر لڑتے رہنا آپس میں۔“ رافیعہ بھابھی نے دونوں کو سمجھا بجھا کر باسط کے زخم کے اردگرد سے مٹی وغیرہ صاف کر کے دوا لگائی اور خود ہی دوا کھلا کر نیچے گئیں۔

ان کے جاتے ہی باسط نے بسمہ کا تکیہ نیچے پھینکا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔

باسط کا رویہ اگلے دن بھی اکھڑا اکھڑا ہی رہا۔ خود بسمہ کو بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایک ایسے مرد کی جی حضوری کیوں کر رہی ہے جو ایک عورت کی عزت لوٹ چکا ہے۔ پھر خیال آتا کہ شاید نازیہ بھابھی بھی تو شامل تھیں ان کی بھی غلطی ہوگی۔ ان کے اور باسط کے تعلق سے کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ ان پہ کوئی زبردستی ہوئی ہے۔ اور وہ اگر باسط کے ساتھ نہ رہتی تو کہاں جاتی۔ اسے پتا تھا کہ اس کے میکے میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ مگر شاید آگے اس کی زندگی میں کچھ اور لکھا تھا۔

چند دن ہی گزرے ہوں گے ایک دن باسط نے خود اسے مخاطب کیا۔ اسے حیرت تو ہوئی مگر شکر بھی کیا کہ باسط نے شاید اپنی ناراضگی ختم کردی ہے۔ کیونکہ لہجہ بھی نرم ہی تھا۔

”بسمہ تم سے بات کرنی ہے، تمہاری مدد چاہیے“
” جی باسط میری کوشش ہوگی کہ میں جس حد تک آپ کی مدد کر سکوں ضرور کروں۔“
” صرف کوشش نہیں، ضرور کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے“
” جی آپ بتائیں تو۔“

” دیکھو تمہیں پتا ہے میری تنخواہ بس مناسب ہے گھر وغیرہ کا خرچہ کرنے کے بعد بچت نہیں ہوتی۔ جب سے کیس شروع ہوا ہے میرا بہت خرچہ ہو گیا ہے۔ پولیس والوں کو اتنے پیسے دینے پڑے۔ وکیل کو دیے، آنے جانے میں بھی خرچہ۔ اب مزید پیسوں کی ضرورت ہے۔“

”باسط میں کہاں سے پیسے لاؤں گی میں تو کوئی جاب بھی نہیں کرتی ناں مجھے کوئی جیب خرچ دیتے ہیں آپ جو جمع ہو۔“
”اس وقت طعنے دینے کی ضرورت نہیں“
”طعنہ نہیں دے رہی صرف بتا رہی ہوں“

”میں نے کب کہا کہ تمہارے پاس پیسے ہوں گے۔ میں تو کہہ رہا ہوں اپنے ابو اور بڑے بھیا سے بات کر کے دیکھو۔ ان کو راضی کرو کہ وہ کچھ پیسے دے دیں۔“
”باسط میں ان سے پیسے نہیں مانگتی عادت ہی نہیں۔“

”شوہر مر رہا ہے تمہیں عادت اور عزت کی پڑی ہے۔ یا تو کہہ دو کہ تم چاہ ہی یہ رہی ہو کہ میں جیل جاؤں اور تم اپنے عاشق کے ساتھ گل چھرے اڑاؤ۔“

”باسط ایسی بات نہیں ہے آپ بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں۔ اچھا کتنے پیسوں کا بندوبست کرنا ہے؟“
” فی الحال ایک لاکھ تو ہوں باقی دیکھتے ہیں کب کتنے کی ضرورت پڑے۔“
”ایک لاکھ؟ اتنے سارے پیسے کیوں؟“

”تمہارے باپ سے پیسے منگا کر ملیں لگاؤں گا اپنی۔ احمق عورت اندازہ بھی ہے ابھی تک کتنا خرچہ ہو گیا ہے۔ پہلی ہی دفعہ ضمانت میں 80 ہزار سے زیادہ خرچہ ہو گیا تھا۔ اب تک ملا جلا کر ڈیڑھ لاکھ خرچ ہوچکا ہے۔“

”باسط آپ کی بات ٹھیک ہے مگر اتنے پیسے وہ دے کیسے سکتے ہیں۔“

”کیوں نہیں دے سکتے اچھا کھاتے کماتے ہیں۔ اب تو گاڑی بھی لے لی ہے تمہارے بھائی نے۔ شادی شدہ ہے نہیں کہ بیوی بچوں کا خرچ ہوگا۔ بہنوں کو نہیں دے گا تو کیا کرے گا اتنے پیسوں کا۔ باپ بھی کما ہی رہا ہے تمہارا ریٹائرڈ ہوتا تو چلو کہتے کہ پیسے کی تنگی ہے۔“

” وہ تو ہے مگر ان کی اپنے خرچے بھی تو ہیں۔ بھیا اوپر اپنے لیے پورشن بنوا رہے ہیں اس میں بھی ان کا خرچہ ہورہا ہے۔“
”سیدھا سیدھا کہو کہ تم پیسے لینا ہی نہیں چاہتیں بہن کے لیے پورشن لیٹ کروالیں گے تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ بہن بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ “
”مگر باسط“

”بس بحث مت کرو سامان سمیٹو اپنے ابا کے گھر جاؤ اور اس گھر میں قدم اب تب ہی رکھنا جب پیسوں کا بندوبست ہو جائے۔“
باسط نے زبردستی اس کا سامان پیک کروایا اور خود ہی سسرال فون کر دیا کہ اسد کو بھیج دیں بسمہ آپ لوگوں سے ملنے کے لیے بے چین ہو رہی ہے۔
******۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( جاری ہے ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ******

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےیہاں پارسا بننا جتنا مشکل ہے دکھنا اتنا ہی آسانجرم کی سزا ہوتی ہے تو مجرم بنانے کی کیوں نہیں؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments