لبرل اخلاقیات میں مساوات، آزادی اور انصاف کا مقام


تمام انسان رتبے ، حقوق اور صلاحیت میں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ ہر انسان کو پیدائش میں شناخت کے کچھ رنگ ملتے ہیں۔ کوئی شہر میں پیدا ہوتا ہے تو کوئی گاﺅں میں۔ کوئی امیر کے ہاں پیدا ہوتا ہے تو کوئی غریب کے گھر میں جنم لیتا ہے۔ انسان جنس کے اعتبار سے مرد یا عورت ہونے پر اختیار نہیں رکھتے۔ ہم اپنے رنگ ، قد اور خدوخال پر اختیار نہیں رکھتے۔ ہم پیدائش کے وقت یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ہم فارسی بولنے والوں کے گھر میں جنم لیں گے یا انگریزی بولنے والوں میں آنکھ کھولیں گے۔ ہم شعوری طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ہم کس مذہب کے ماننے والے گھرانے میں جنم لیں گے چنانچہ بظاہر ہم انسان ایک جیسے نہیں ہیں۔ جیسے ہاتھ کی انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ہاتھ کی کسی انگلی میں چوٹ لگے تو ایک جیسی تکلیف ہوتی ہے۔ لکڑی کاٹنے سے لے کر لوہا پگھلانے تک اور لکھنا سیکھنے سے لے کر ہوائی جہاز اڑانے تک ہم اپنا ہاتھ استعمال کرتے ہوئے سب انگلیوں سے کام لیتے ہیں۔ ہر انگلی ایک الگ زاویے سے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ کسی بھی انگلی میں زخم آجائے تو ایک جیسا لہو نکلتا ہے۔ ہم کسی انگلی کو فالتو یا کم تر قرار دے کر کاٹ کے کوڑے دان میں نہیں ڈال سکتے۔ ہاتھ کی سب انگلیاں ایک جیسی نظر نہیں آتیں۔ ہر انگلی کا رتبہ ایک جیسا ہے۔ ہر انگلی کی حفاظت کرنا پڑتی ہے اور ہر انگلی میں ایسی صلاحیت پائی جاتی ہے جو قابل قدر ہوتی ہے۔ انسان کے ہاتھ کو لکڑی تراشنا سکھایا جا سکتا ہے ، پتھر سے مجسمہ بنانا سکھایا جا سکتا ہے ، اردو لکھنا سکھائی جا سکتی ہے ، تصویر بنانی سکھائی جا سکتی ہے۔ افریقہ میں رہنے والا ہو یا بھارت میں رہنے والا ، گاڑی چلانا سیکھ سکتے ہیں ۔قوم کی رہنمائی کرنا ہو تو عورت اور مرد ، غریب خاندان کا بچہ یا امیر خاندان کا چشم و چراغ ، اردو بولنے والا یا سندھی ، سرائیکی ، پشتو، بلوچی ، عربی یا ہسپانوی بولنے والا ، انسانوں کے رہنما ہر طبقے میں پیدا ہوتے ہیں۔ کسی خاص جگہ یا گروہ میں پیدا ہونے والے خصوصی صلاحیت نہیں رکھتے۔سب انسان محنت کر کے اور ایک دوسرے کی مدد سے کسی بھی ہنر ، مرتبے اور مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔ انسانوں کو پیدائش میں ملنے والی خصوصیات کی بنیاد پر بڑا یا چھوٹا نہیں سمجھا جا سکتا۔ اعلیٰ یا کم تر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سب انسانوں کا مرتبہ ایک جیسا ہے ۔ حقوق ایک جیسے ہیں اور ان میں ترقی کرنے کی صلاحیت ایک جیسی ہے۔

ہر جاندار نسل کے لیے تحفظ کا سوال بقا کی جدوجہد میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا میں جانداروں کو زندہ رہنے کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ ہمیشہ کم ہوتے ہیں۔ مثلاً پانی ، خوراک ، زمین ، مناسب درجہ حرارت اور قدرتی آفات سے بچاﺅ۔ دیگر جانداروں کی نسبت انسان ایک زیادہ نازک مخلوق ہے ۔ انسانوں میں شیر خوارگی کا عرصہ کئی برس پر محیط ہوتا ہے۔ انسان نہ تو شیر اور چیتے کی طرح طاقتور پنجے رکھتے ہیں اور نہ ہرن کی طرح تیز دوڑ سکتے ہیں، نہ وہ ہاتھی کی طرح جسامت رکھتے ہیں اور نہ ہوا میں اڑسکتے ہیں۔ وہ پانی میں زندگی نہیں گزار سکتے اور ایک خاص درجہ حرارت ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ انسانوں کا معدہ کچا گوشت اور کچا اناج ہضم نہیں کر سکتا۔ بقا کے معاملے میں انسانوں کو زیادہ کڑی شرائط اور ضمانتیں پوری کرنا ہوتی ہیں۔ اس کے علاو ہ انسانوں کو ایک اضافی خطرہ دوسرے انسانوں سے ہے۔ انسانوں نے زندہ رہنے کے لیے جو معاشرتی بندوبست تشکیل دیا ہے اس میں کچھ انسان طاقت ، زور ، ہتھیار اور خیالات کی بنیاد پر دوسروں سے وسائل چھیننا چاہتے ہیں۔ سب انسانوں کا دماغ ایک جیسا طاقتور ہے لیکن تمام انسانوں کا جسم نہ صرف یہ کہ طاقت میں کم یا زیادہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی کہ ایک انسان کی قوت ، طاقت اور برداشت کی صلاحیت محدود ہے۔ ایک انسان دس لوگوں سے نہیں لڑ سکتا ۔ ہوا کے بغیر چند منٹ زندہ نہیں رہ سکتا۔ پانی کے بغیر چند گھنٹے اور خوراک کے بغیر چند روز سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے لباس ، خوراک ، چھت ، علاج معالجے اور دوسرے انسانوں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر زندگی کا تحفظ ایک بنیادی اصول قرار نہ پائے تو ہر انسان اس خطرے سے دوچار ہے کہ اسے آسانی سے موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے۔ قدرتی موت کے علاوہ مرنے کی دیگر صورتوں سے تحفظ انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ زندگی کا تحفظ سب سے اہم ہے۔ ہر انسان کو اپنی زندگی پیاری ہے۔ اپنی زندگی کو بچانے کے لیے اسے دوسروں کی زندگی کا تحفظ بھی کرنا چاہیے۔ اگر زندہ رہنے کا حق تسلیم نہ کیا جائے تو دوسرے تمام حقوق خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کی زندگی ہے ۔ زندگی کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی کا یہ حق تشدد سے محفوظ رہنے کی آزادی سے جڑا ہوا ہے۔ تشدد بغیر دلیل کے طاقت ،دھمکی اور لالچ کے ذریعے اپنی بات منوانے کا ذریعہ ہے۔ تشدد کو جائز قرار دے دیا جائے تو زندگی کا تحفظ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ تشدد کے خوف سے آزادی زندگی کے تحفظ سے جڑی ہوئی ہے۔

 مل جل کر زندہ رہنے کے لیے انسانوں کو ایک دوسرے پر کچھ اصول ضابطے طے کرنا پڑتے ہیں۔ یہ اصول ، قانون اور ضابطے دراصل ایسے رویوں ، افعال اور کاموں سے روکتے ہیں جن سے دوسرے انسانوں کا نقصان ہوتا ہو۔ چنانچہ ضابطہ دراصل پابندی کا نام ہے۔ پابندی کی حدود واضح کرنا ضروری ہے تاکہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچائے بغیر انسان اپنی زندگی گزار سکے اور بہتر بنا سکے۔ زندگی گزارنے کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں ۔ انسان اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ان گنت راستے اختیار کر سکتے ہیں۔ ان طریقوں کے انتخاب کی آزادی کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی۔ تقریر ، تحریر ، اظہار ، خیالات ، علمی رائے ، مذہبی عقیدہ ، شریک حیات کا انتخاب ، پیشے کا انتخاب ، سیاسی حکمت عملی کا انتخاب ایسے معاملات ہیں جن میں کوئی طے شدہ حدود قائم نہیں کی جاسکتیں۔ ہم صرف ان حدود کا تعین کر سکتے ہیں جن کی مدد سے ایک دوسرے کی آزادیوں کا تحفظ کیا جا سکے۔ مثلاً تقریر ، تحریر اور اظہار میں کسی فرد یا گروہ کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں۔ کسی کے خلاف تشدد پر اکسانا رائے کا اظہار نہیں۔ ایسا کام کرنا پیشہ نہیں ہو سکتا جس میں دوسروں کا نقصان ہو مثلاً چوری کرنا ۔ عقیدے کی آزادی میں کسی دوسرے کے عقیدے کی توہین کرنے یا عبادت گاہ پر حملہ کرنے کا حق شامل نہیں۔ انسانی حقوق کی بحث میں آزادیوں کا تصور بہت واضح ہے ۔ آزادیوں کے بغیر حقوق کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی حقوق کے قوانین آزادیوں کی نشان دہی کر کے ان حدود کا تعین بھی کرتے ہیں جو ان آزادیوں کی نفی کا باعث ہو سکتے ہیں۔

حقوق اور آزادیوں کا تصور اس ضمانت سے بندھا ہے کہ حقوق اور آزادیوں کی خلاف ورزی پر نگرانی کا عمل ہونا چاہیے۔ اگر کسی کے حقوق کی خلاف ورزی ہو تو ایسا نظام موجود ہونا چاہیے کہ نقصان اٹھانے والا فریق خود فریق بنے بغیر غیر جانب دار نظام کے ذریعے اپنا حق حاصل کر سکے اور اپنی آزادی یقینی بنا سکے۔ شکایت کرنے والا فریق حوالہ دیتا ہے کہ حقوق اور آزادیوں میں دی گئی کس حدود کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ کیا اس کی جائیداد اس کی مرضی کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی گئی ہے ، اس کا مال چھینا گیا ہے ، اس کے جسم پر حملہ کیا گیا ہے یا اسے خوف دلا کر یا تشدد کر کے زبردستی رائے کے اظہار ، عبادت کے حق ، پیشے کے انتخاب ، روزی کے حصول سے روکا گیا ہے، تعلیم کے ذریعے ہنر حاصل کرنے یا علم کے حصول سے روکا گیا ہے ۔ اسے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے حق سے روکا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے قانون بنائے جاتے ہیں اور قانون میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ زید، عمر یا بکر بیان کیے گئے کام نہیں کریں گے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی تاکہ سب انسان ایک دوسرے کی آزادیوں اور حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہو ۔ قانون تک رسائی سب کو حاصل ہو اور قانون انسانوں میں کوئی امتیاز کئے بغیر ان کی آزادیوں اور ان کے حقوق کو ایک جیسا درجہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments