شاکر شجاع آبادی کو خدا کا جواب یہ تھا


\"Aamir-Hazarvi\"

شاعری سے مجھے جنون کی حد تک عشق ہے۔ کچی عمر میں ہی ہزاروں شعر ازبر کر لیے تھے۔ کوئی معروف شاعر ایسا نہیں تھا جسے پڑھا اور یاد نہ کیا ہو۔ آج بھی سینکڑوں شعر یاد ہیں۔ بچپن کے خواب بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں؟ محبوب کی جدائی میں آہ و فغاں کرتے شاعروں کی جب شاعری پڑھتا تو دل دکھتا اور سوچتا ان کے محبوب کتنے ظالم ہیں؟ انہیں اتنے بڑے انسانوں کی قدر ہی نہیں۔ یہ تو جب شعور سنبھالا تو علم ہوا محبوب اکثر جاہل ہوتے ہیں۔ انہیں فن کی کیا قدر؟

اکثر ایسا ہوتا کہ جب کسی شاعر کی محبوب بارے تعریف پڑھتا تو کہتا شکر ہے شاعروں کو دکھ ملتے ہیں۔ اگر انہیں محبت ملتی رہے تو انہوں نے محبوب کو فرشتہ بنا دینا ہے۔ بے جا تعریف اور خوشامد سے گھن آتی تھی۔ البتہ یہ سوال ذہن میں ضرور اٹھتا تھا کہ ہر شاعر جالب۔ فیض۔ ساحر۔ اور ساغر کی طرح کیوں نہیں ہوتا؟

بہرحال وہ بچپن کی باتیں تھیں جو ہوا ہوئیں۔ قصہ غم یہ ہے کہ آج سے کوئی چار سال قبل ایک شاعر کا نام سنا جس کی شاعری نے دل کی تاریں ہلائیں۔ یہ شاعر سب سے منفرد لگا اس کی شاعری غربت کے گرد گھومتی ہے۔ یہ غریبوں کے لیے خدا سے ہمکلام ہو جاتا ہے۔ اگر جان کی امان پاؤں تو لکھ ڈالوں کہ یہ شاعر خدا سے جھگڑتا ہے۔ یہ جنت کے باغات۔ حور و غلماں سے نہیں بہلا۔ یہ آخرت کی نعمتوں کے لالچ میں خاموش نہیں ہوا۔ یہ مسلسل صدا لگاتا رہا۔ پھر ایک وقت آیا کہ اس کی صدا غریبوں کی آواز بن گئی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس شاعر کے نزدیک روٹی سے زیادہ کسی چیز کی اہمیت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کہتا رہا مالک تیری جنت کی نعمتیں برحق لیکن ابھی کیوں بھوکا مار رہا ہے؟

یہ کہتا رہا مالک روٹی ملے گی تو تیری عبادت بھی ہوگی۔ روٹی ملے گی تو جبینوں پہ تڑپتے سجدے زمین تک آئیں گے؟ یہ ناانصافیوں پہ بھی صدائے حق بلند کرتا رہا۔ اسے کتوں کا کھیر کھانا اور انسانوں کا بھوکا سونا پریشان کرتا رہا۔ اس شاعر کا خدا سے تعلق دیکھئے ایک بار اس نے رازق سے یہ بھی کہہ ڈالا رزق کی تقسیم پہ ایک بار پھر غور کیجئے۔

اور ایک بار یوں بھی کہا کہ

میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر دے
جے روٹی رات دی پوری کریندیاں شام تھی ویندی۔

اس شاعر کی شاعری میرے دل کی آواز ہے۔ یہ مصنوعی اور بناوٹی شاعری نہیں ہے۔ اس میں تصنع نہیں ہے۔ اس میں محبوب کے جلال و جمال کے قصے نہیں ہیں۔ اس شاعر کی شاعری میں کنگھی۔ چوٹی۔ رخساروں کی لالی۔ پتلی کمر کی تعریف نہیں ہے۔ اس کیشاعری سماج کا نوحہ ہے۔ المیہ ہے۔ دکھ ہے۔

آپ یقینا سمجھ گئے ہوں گے کہ میں شاکر شجاع آباد کی بات کر رہا ہوں۔ جی ہاں میں سرائیکی زبان کو موت سے بچانے والے شاکر شجاع آبادی کی بات کر رہا ہوں۔ شاکر شجاع آبادی کی شاعری سرائیکی زبان کی روح ہے۔ جب تک شاکر شجاع آبادی کی شاعری زندہ رہے گی سرائیکی زبان بھی زندہ رہے گی۔

میری خوش قسمتی کہ دو روز قبل اس شاعر سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ شاکر کا لاغر جسم دیکھ کے آنکھیں نم ہوگئیں۔ اسلام آباد سویٹ ہوم میں مقیم شاکر شجاع آبادی کا علاج جاری ہے۔ پیپلزپارٹی کے جیالے زمرد خان نے ان کو اپنے ہاں رکھا ہوا ہے۔ شاکر شجاع آبادی پہلے سے کافی بہتر لگے۔ اب ان کی آواز سمجھ آنے لگی ہے۔ جب انہیں میرا بتایا گیا کہ یہ مانسہرہ سے آیا ہے تو پیار کیا اور پھر شکریہ ادا کیا۔

اس موقع پر میں نے بہت سارے سوالات پوچھے جن کا شاکر صاحب نے کبھی ہنس کے جواب دیا اور کبھی نم آنکھوں سے۔
صرف چند سوالات و جوابات لکھتا ہوں جنہیں پڑھ کے آپ کو اس شاعر کی عظمت کا مزید اندازہ ہو۔
میں نے پوچھا شاکر صاحب زمرد خان کیسے لگے؟ بس اتنا سا جواب دیا کہا بیٹا محبت کرتا ہوں خوشامد نہیں کرتا۔ یہ کافی و شافی جواب تھا۔

\"shakir-shuja-abadi\"

ایک سوال یہ بھی کیا اگر آپ کے لیے اسلام آباد رہائش کا مستقل بندوبست کیا جائے تو یہاں رہو گے؟ فورا انکار کر دیا اور کہا کہ ہر گز نہیں اسلام آباد مالدار لوگوں کا شہر ہے۔ میں واپس اپنے علاقے میں جانا چاہتا ہوں۔ وہاں پسماندہ لوگ رہتے ہیں۔ عمر امیروں وڈویروں کے خلاف لکھتے اور بولتے گذری۔ اب عمر کی شام ہے عصر کے وقت روزہ توڑ دوں؟ نہیں نہیں میں اپنے لوگوں کے بیچ مروں گا۔ انہیں اکیلا چھوڑ دوں تو ان کی آواز کون بلند کرے گا؟

ایک سوال یہ پوچھا شاکر صاحب عمر بھر خدا سے شکوے کیوں کرتے رہے؟ خاموشی سے زندگی گزار دیتے نا؟

شاکر صاحب کا جواب تھا بیٹا کبھی اپنی ذات کے لیے خدا سے شکوہ نہیں کیا؟ میرا پیٹ دو روٹیوں سے بھر سکتا ہے۔ کمزور جسم کے لئے دو روٹیاں کافی ہیں۔ اگر میں اپنی ذات کے لیے کماتا تو وڈیروں کی تعریف و خوشامد کر کے کما سکتا تھا۔ میں نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا۔ اپنے لیے کچھ نہیں لکھا۔ غریبوں کے لیے لکھا ہے۔ غریبوں کی خاطر شکوے بھی کیے ہیں۔

پوچھا خدا نے کبھی جواب بھی دیا ہے؟

اس سوال پہ قہقہ لگایا۔ قسم سے شاکر صاحب کا قہقہ بھی کمال کا تھا۔ بچوں جیسی معصومیت تھی۔ کہا ہاں ہاں جواب دیا ہے۔

میں نے پوچھا کیا جواب دیا
زیرلب مسکرا کے کہا خدا کہتا ہے صبر و شکر کرو۔

یہ تھے شاکر شجاع آبادی جن سے مل کے ایک حسرت پوری ہوئی۔ میری قسمت دیکھیے میں اس دور میں جی رہا ہوں جس دور میں شاکر شجاع آبادی سانسیں لے رہے ہیں۔

اور یہاں میں اس محسن کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس نے شاکر صاحب کے علاج کی ذمہ داری اٹھائی۔ زمین پہ زمرد خان جیسے لوگوں کا وجود غنیمت ہے۔ جس دن زمرد خان کے آنسو دیکھے اس دن سے میرے دل میں زمرد خان کی انتہائی عزت ہے۔ لیڈری و سیاست کو لات مار کے فقیروں کی خدمت کرنے والا زمرد خان قابل فخر انسان ہے۔

دعا ہے کہ مالک شاکر شجاع آبادی کو صحت عطا کرے اور زمرد خان کو لمبی عمر سے نوازے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments