فلم انڈسٹری مائل بہ بحران


\"cinema-industry\"(مِینو کے قلم سے)

ریڈیو ٹی وی پر پیمرا کی جانب سے ایک اشتہار نشر کیا جاتا ہے، کہ ٹی وی ریڈیو پر ہندستانی پروگراموں کی نشریات سے بہت سا زرمبادلہ غیر قانونی طریقے سے ہندستان منتقل ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ کر کے ملک و قوم اور پتا نہیں کیا کیا بن جایئے۔ جب کوئی ملک عالمی برادری سے تجارتی معائدے کرتا ہے، تو اپنے مفادات کو مدِنظر رکھتا ہے۔ ایسا پاکستان بھی کرتا ہے۔ کرنا بھی چاہیے۔ ٹیلے ویژن پروگرام انڈسٹری کی بات ہو تو ہمارے یہاں اتنے وسائل اور سہولیات ہیں، کہ ہم اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ شوبز سے وابستہ افراد جانتے ہیں، کہ ٹیلی ویژن سے انڈین کانٹیںٹ کی نشریات پر پابندی پاکستانی پروڈکشن ہاوس کے مفاد میں ہے۔ جب کہ یہی بات فلم کے لیے کی جائے تو ہندستانی فلم پر پابندی نہ صرف ہماری سینما انڈسٹری کے لیے نقصان دہ ہے، بلکہ نوزائیدہ فلم انڈسٹری کی موت کا باعث ہوگی۔

یہاں دو قومی نظریئے، ثقافت کی بحث بے معنی ہے، کہ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا۔ ہمارا احوال یہ ہے کہ جب بھارت کا ذکر چل نکلے تو سارا جوش، سارا غم، سارا غصہ فنون لطیفہ اور پرفارمنگ آرٹ پر نکالا جاتا ہے۔ اربابِ اختیار سے کوئی پوچھے کہ ہم ہندستان سے کیا کیا کچھ برآمد کرتے ہیں، اور کیا درآمد کرتے ہیں، اور یہ فہرست عوام کے لیے شائع کر دی جائے، تو عام آدمی حیرت زدہ رہ جائے گا، کہ اتنا کچھ یہاں سے وہاں، اور وہاں سے یہاں چلا آتا ہے، اس سے دو قومی نظریئے پر زد نہیں پڑتی، لیکن ایک بھارتی فلم دو قومی نظریئے کو بہا لے جاتی ہے۔ وہ بھی تب، جب یہ سینما ہال میں ریلیز ہو۔ یہی فلم ہر گلی کی دُکان پر دستیاب ہو، تو قومی سرمایہ غیر قانونی طریقے سے باہر نہیں‌ جاتا؟ کیا ایسا کرتے پاکستان کے مفادات کو زک نہیں پہنچتی؟ تو کیا اس غیر قانونی دھندے کے خلاف کوئی اقدام کیے؟

ذیل میں صرف ایک سینما کا 21 سے 24 نومبر کا روسٹر دیا جا رہا ہے جسے دیکھ کر ہمارے نئے سینما کی مستقبل کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے، کہ ایک ایک کر کے یہ سینما ہال بند ہو جائیں گے۔ کیوں کہ ان کے پاس اتنی فلمیں نہیں، جتنی اسکرینیں ہیں۔ یہ سینما ہال بند ہونا شروع ہو گئے تو سمجھیے، ہمارے یہاں فلمیں بننا بھی بند ہو جائیں گی۔ مت بھولیے ٹیلی ویژن پروگرام اور فلم سازی، اور سینما انڈسٹری سے حکومت پاکستان ٹیکس لیتی ہے، اور آج تک کسی حکومت نے انڈسٹری کی بہتری کے لیے کوئی پالیسی تک متعارف نہیں کروائی۔ حیف صد حیف کہ یہ سینما وہ ہیں، جن سے حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے، انھی کا مستقبل داؤ پر ہے، اور لاکھوں کی تعداد میں ایسی سی ڈی شاپس جہاں قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے ہندستانی فلمیں‌ فروخت کی جاتی ہیں، ان پر ارباب اختیار کی نظر ہی نہیں۔ ظاہر ہے ہندستان سے تجارت ایک سیاسی مسئلہ ہے، لیکن اس مسئلے کا حل ہمیشہ صرف کتب، فلم، ٹی وی، ریڈیو کے پروگرام کی قانونی ترسیل کی روک تھام کر کے نکالا جاتا ہے۔ کیوں نہ یہ سینما ہال مالکان یہ عمارتٰیں فروخت کر کے بڑے بڑے پلازہ بنا لیں، اور انھی پلازہ میں اسمگلنگ کا مال فروخت کریں۔ ایسے ہماری ثقافت بھی محفوظ رہے گی، اور دو قومی نظریہ بھی خطرے کی حد کو نہیں چھوئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments